پاکستان میں دہشت گردی کا عفریت ہماری قومی سلامتی کو
نگلتا جارہا ہے۔ اس وقت ساٹھ ہزار پاکستانی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید
ہوچکے ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف لڑتے ہوئے افواج پاکستان کے بہت سے افسر اور
جوان شہید ہوچکے ہیں۔ حال ہی میں حکومت نے دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب
آپریشن شروع کیا ہے۔ حکومت کا عزم ہے کہ آخری دہشت گرد اور ان کے آخری
ٹھکانے کی تباہی تک آپریشن جاری رہے گا۔
بہت سے تجزیہ نگار اور ماہرین دہشت گردی کی بیخ کنی کے حوالے سے مختلف رائے
دیتے نظر آتے ہیں ۔ یہ سوال بھی اکثر پوچھا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کو بھاری
تعداد میں اسلحہ اور دیگر سازوسامان کہاں سے ملتا ہے اور وہ اتنے منظم کیسے
ہوگئے۔ یقینا بہت سی قوتیں پاکستان کو تباہ و برباد کرنا چاہتی ہیں اور وہ
اس ناپاک مقصد کے لیے دہشت گردوں کو اسلحہ اور رقوم پہنچا رہی ہیں۔ اب تو
مقامی دہشت گردوں کے ڈانڈے دیگر ممالک تک پھیل گئے ہیں۔ دہشت گردی کے اس
عالمی دہشت گرد گٹھ جوڑ کی تازہ مثال کراچی ائر پورٹ پر حملہ ہے جس میں
اسلامی تحریک ازبکستان کے جنگجوؤں نے حصہ لیا۔ اس حملے کے بعد اسلامی تحریک
ازبکستان اور تحریک پاکستان طالبان کے ترجمانوں نے تصدیق کی کہ یہ ان کی
مشترکہ کارروائی تھی۔ یہ اطلاعات بھی ملی ہیں کہ اسلامک موومنٹ ازبکستان
پاکستان میں پہلے بھی دہشت گردی کی کئی وارداتیں کرچکی ہے۔
بہرحال بنیادی نقطہ یہ ہے کہ دہشت گردقوتیں عالمی سطح پر ایک دوسرے سے ہاتھ
ملا رہی ہیں اور ایک دوسرے کو اسلحہ اور افرادی قوت بھی فراہم کررہی ہیں۔
یہ دہشت گردی کی کارروائیاں مشترکہ طور پر بھی کررہے ہیں۔ اس تناظر میں
جدید دنیا شدید خطرات سے دوچار ہوگئی ہے۔ اب اگر امریکہ سمیت دنیا کا کوئی
بھی ملک یہ دعویٰ کرے کہ وہ دہشت گردی اور دہشت گردوں سے پاک ہے اور وہاں
چین کی بنسی بجتی رہے گی تو وہ شدید مغالطے میں ہے۔ دہشت گردی کا عفریت
تیزی سے دنیا بھر کے پر امن مقامات میں بھی جڑیں پھیلاتا جارہا ہے۔ اس کے
تیزی سے پھیلنے کی بھی بہت سی وجوہات ہیں جن میں بے روزگاری اور ناانصافی
بھی شامل ہیں تاہم بہت سے طاقتور ممالک اس حقیقت کے باوجود کہ وہ خود بھی
دہشت گردوں سے بچ نہیں سکیں گی، اپنے مفادات کے لیے دہشت گردوں کی پشت
پناہی کررہی ہیں۔ خاص طور پر ایران، عراق، پاکستان، شام، مصر اور افغانستان
میں بہت سے گروپ ان کی آشیر باد پر آگ اور خون کا کھیل کھیل رہے ہیں۔
پاکستان میں یہ طاقتیں ان دہشت گردوں کو جدید اسلحہ اور سازوسامان فراہم
کرنے کے ساتھ ساتھ تربیت اور اہداف بھی دے رہی ہیں۔
بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ دہشت گردی کے نیٹ ورک چلانے میں منشیات کا بھی
بڑا ہاتھ ہے۔ منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ سے اربوں ڈالر دہشت گردوں کی
جیب میں جاتے ہیں۔ اس طرح دہشت گرد، منشیات فروشوں اور اسمگلنگ کو بھرپور
تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ افغانستان جہاں امریکی اور
ناٹو افواج موجود ہیں، وہاں منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ میں بے حد اضافہ
ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تیس ارب ڈالر کی منشیات سالانہ دوسرے ممالک کو
فروخت کی جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ ان غیرملکی افواج کی ناک کے عین نیچے کھلے
عام ہورہا ہے۔ وہ پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ڈورن حملے کرتے
ہیں تاہم اپنے علاقوں میں ان دہشت گردوں کو مالی معاونت کرنے والے منشیات
فروشوں اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے اقدامات نہیں کئے۔ اس حوالے سے
ان ممالک کے کردار پر بہت سے سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ افغانستان میں بننے والی منشیات کا زیادہ تر
حصہ پاکستان کے راستے دنیا بھر میں فروخت ہورہا ہے لیکن یہاں یہ بات بھی
قابل ذکرہے کہ پاکستان نے انسداد منشیات کے حوالے سے بہت سے اقدامات بھی
کئے ہیں۔ انسداد منشیات کے اداروں جن میں اینٹی نارکوٹکس فورس نمایاں ہے کا
کردار اس حوالے سے دوسرے ممالک کے اداروں کی نسبت عمدہ رہا ہے۔ اس کی
کوششوں کی وجہ سے پاکستان عالمی سطح پر منشیات ضبط کرنے والے تین بڑے ممالک
میں شامل ہے۔ اس نے سرحدوں پر نگرانی کے نظام کو بہتر بنا کر دنیا بھر میں
منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے بہترین اقدامات اٹھائے ہیں ۔
انسداد منشیات جن میں منشیات کی روک تھام، منشیات میں استعمال ہونے والی
اشیاء اور کیمکلز کی سمگلنگ، منشیات کو قبضے میں لینا اور پوست کی پیداوار
میں کمی اس کی نمایاں کامیابیاں ہیں۔ بہرحال دہشت گرد ہر روز ہمارے ملک میں
آگ اور خون کا کھیل کھیل رہے ہیں، اگر انسداد منشیات کے حوالے سے نمایاں
کامیابیاں حاصل کی جائیں تو دہشت گردوں کا ناطقہ بڑی حد تک بند کیا جاسکتا
ہے۔ اس طرح منشیات کے سرمائے پر انحصار کرنے والے جرائم پیشہ گروہوں اور
عسکریت پسندوں کو کافی حد تک مذموم عزائم سے روکا جاسکتا ہے۔26جون کو دنیا
بھر میں منشیات کے استعمال اور سمگلنگ کے خلاف عالمی دن کے طور پر منایا
جارہاہے۔ ہمیں اس دن کے حوالے سے عزم کرنا چاہئے کہ بحیثیت قوم اپنے
نوجوانوں کو نشے کی لت سے بچانے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں گے۔ عالمی
سطح پر بھی اس شعور کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کی طرح منشیات
کا مسئلہ بھی عالمی نوعیت کا ہے اور اگر اس پر قابو پا لیا جائے تو دہشت
گردی اور دوسری برائیوں سے بھی کافی حد تک نجات مل جائے گی۔ |