قوم کو مبارک ہو کہ ’’ جمہوریت کے خلاف جمہوری حکومت نے
کارروائی شروع کردی ‘‘ ۔ لاہور میں پیر اور منگل کو جو کچھ بھی ہوا اسے
جمہوری حکومت کے خاتمے بلکہ ملک کو آمریت کے حوالے کرنے کی کوشش یا سازش کی
شروعات کہا جاسکتا ہے۔ ویسے تو میاں نواز شریف کی حکومت سے فوج ابتدائی
دنوں ہی سے خوش نہیں تھی جبکہ عوام گزشتہ سات سال سے ہی جمہوریت کے نام پر
بے وقوف بنانے والے حکمرانوں اور سیاست دانوں سے تنگ ہے۔ میں مسلسل یہ بات
کہہ رہاہوں کہ ہمارے سیاست دان آئیڈیل جمہوری حکومت چلانے کے لائق ہی نہیں
ہیں جبکہ قوم بھی چونکہ اپنی ڈگر سے چلنے سے باز نہیں آرہی تو پھر ایسے ہی
’’ حکمراں ‘‘ ہم پر مسلط ہوتے رہیں گے ( یہ بات اﷲ تعالیٰ فرما چکا ہے اس
سے انکاربھی نہیں کیا جاسکتا ) ۔
لاہور میں عوامی تحریک نے 23 جون کو احتجاج کا اعلان کیا ہوا ہے یہ احتجاج
جمہوری نظام اور موجودہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ہونا ہے تاہم حکومت نے
تو اس احتجاج کو وقت سے پہلے ہی کامیاب قراردیدیا ۔ اس احتجاج کی آواز کے
ساتھ ہی لگ رہا تھا کہ کسی طرف سے طاہرالقادری کو پھر سگنل مل گیا ہے ،
ایسی صورت میں حکومت اور حکمرانوں کو پھونک ، پھونک کر قدم بڑھانا چاہیے
تھا اور اپنے مخالفین کم کرنے اور حمایتیوں کی تعداد بڑھانے پر توجہ دینی
چاہیے تھی لیکن لاہور میں پیر اور منگل کو جو کچھ پنجاب حکومت نے کیا اس سے
صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی ، لاہور میں پنجاب پولیس کی کارروائی کے دوران
سات افراد ضاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں ۔
اب اس واقعہ سے جمہوریت کے دعویدار بھی جمہوری حکومت کے مخالف ہوگئے بلکہ
حکومت مخالف ، عمران خان اور طاہرالقادری کی تحاریک کو فیول مل گیا ۔ مسلم
لیگ ق کے چوہدری شجاعت لاہور کے واقعات پر کہتے ہیں کہ ’’ جو کچھ لاہور میں
ہوا وہ آمریت سے بھی بدتر ہوا اور موجودہ حکمراں آمریت سے آگے بڑھ گئے ہیں
‘‘ ایم کیو ایم کے ڈاکٹر خالد مقبول کہتے ہیں کہ ’’ اس واقعہ کے بعد اگر
پنجاب کی حکومت جاتی بھی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ‘‘ ۔
شیخ رشید کہتے ہیں کہ یہ عوام کی دشمن موجودہ حکومت ہے ۔ ڈاکٹر فاروق ستار
کا کہنا ہے کہ یہ ثابت ہوگیا کہ جمہوریت کے اصل دشمن حکمراں ہیں ؟ ‘‘
ان بیانات سے قوم اب نوشتہ دیوار پڑھ سکتی ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔
حکمرانوں کی بے وقوفی کا اندازہ تو لگالیں کہ حکومت فوج کی شہروں میں پیش
قدمی کو بھی نہیں سمجھ سکی یا پھر سمجھ کر لاہور میں وہ کچھ کردیا کہ ’’ ہم
نہیں کھیلیں گے تو کسی اور کو کھیلنے بھی نہیں دینگے ‘‘ ۔ اگر یہ بات بھی
ہے تو کم بے وقوفی نہیں ہے ۔
طالبان کے خلاف کارروائی جسے آپریشن ’’ ضرب عضب ‘‘ کا نام دیا گیا ہے کے
ردعمل کو روکنے کے لیے حکومت نے فوج کو شہروں کی طرف پیش قدمی کرنے کی
اجازت دیدی ۔ یہ اجازت دینا ہی جمہوری حکومت کی دہشت گردی کے خلاف مکمل
ناکامی کا اعتراف تھا اور جب جمہوری حکومتیں اہم معاملات پر ناکام ہوجائیں
تو فوج کو کنٹرول سنبھالنا پڑتا ہے ۔ گوکہ فوج اقتدار سنبھالنے کی تیاری
کھل کھلا کرچکی تھی ، آمریت پسند جماعتیں فوج کے ارادوں کو جان گئی تھی جس
کی وجہ سے ان کے بیانات واضح طور پر فوج کی حمایت میں آئے اور آرہے ہیں ۔
اب وہ صورتحال پیداہوچکی ہے کہ فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دی جارہی ہے
اور فوج کو مجبور کیا جارہا ہے کہ اقتدار سنبھالے ۔
چونکہ سابق آرمی چیف اور سابق صدر پرویز مشرف کو حکومت عسکری قیادت کی
رضامندی کے بغیر ملک سے باہر جانے سے مسلسل روک رہی ہے اور فوج کے وقار کو
چیلنج کررہی جس سے عسکری حلقوں میں حکومت کے خلاف غصہ بڑھنا فطری بات ہے ۔
جو کچھ اب ہونے جارہا ہے وہ صرف وہ ہی جو جو میں نے اپنے مختلف کالموں اور
تحریروں میں واضح کرتا رہا ہوں کہ ’’ جمہوریت غروب ہونے کو ہے ۔
تازہ اطلاعات کے مطابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بیرون ملک کا دورہ
ملتوی کردیا تازہ حالات میں یہ آرمی چیف کا یہ فیصلہ انتہائی اہم ہے ۔
متحدہ نے لاہور کے واقعہ پر یوم سوگ کا اعلان کردیا خالد مقبول صدیقی نے
کہا کہ لاہور میں جو کچھ ہوا اس پر ملک بھر میں پر امن یوم سوگ منایا جائے
گا انہوں نے کہاکہ میں تمام لوگوں سے بدھ کو ہر طرح کا کاروبار بند رکھنے
کی اپیل کرتا ہوں ، تاہم انہوں نے کہا کہ صرف فائیر برگیڈ کی گاڑیوں اور
ایمبولنس کو چلنے دیا جائے ۔ ۔۔۔۔کراچی تو پیر کو ہی بند ہونا شروع ہوگیا
شائد لاہور میں جاں بحق ہونے والوں کا لاہورکے لوگوں اور عوامی تحریک کے
کارکنوں سے زیادہ دکھ ہے ؟ |