بالآخر حکومت نے وہی فیصلہ کیا جو قوم کے دِل کی آواز تھی
۔شمالی وزیرستان میں افواجِ پاکستان نے آپریشن ’’ضربِ عضب‘‘ شروع کر دیا ۔یہ
افواجِ پاکستان کا نواں بڑا آپریشن ہے ،اِس سے پہلے آٹھ بڑے آپریشن کیے جا
چکے جن میں آپریشن فریڈم ، المیزان ، راہِ حق ، زلزلہ ، راہِ راست ، شیردِل
، راہِ نجات اور آپریشن کوہِ سفید شامل ہیں۔یہ تمام آپریشن نائن الیون کے
بعد شروع ہوئے جن میں افواجِ پاکستان کو اپنے اہداف کو سَر کرنے میں تو
بھرپور کامیابیاں ملیں لیکن انہیں محض اِس لیے جزوی طور پر کامیاب کہا جا
سکتا ہے کہ القاعدہ اور طالبان کی مرکزی قیادت اِدھر اُدھر بکھر گئی اور
پھرپورا پاکستان بم دھماکوں اور خود کُش حملوں کی زد میں آ گیا۔ اِس بار
آپریشن ’’ضربِ عضب‘‘نہایت احتیاط اور با ریک بینی سے تیار کیا گیا ہے ۔یہ
شمالی وزیرستان کے 4707 مربع کلومیٹر علاقے میں نہیں بلکہ یہ تحریکِ طالبان
پاکستان، اسلامی موومنٹ آف اُزبکستان اور پاکستان مخالف القاعدہ کے مخصوص
ٹھکانوں کے خلاف کیا جا رہاہے ۔مسلح افواج نے سب سے پہلے شمالی وزیرستان کو
دیگر علاقوں سے علیحدہ کیا ، پاک افغان سرحد کی کڑی فضائی نگرانی شروع کی
پھر میراں شاہ اور میر علی کو محاصرے میں لے کر آپریشن شروع کر دیا ۔اُدھر
افغان حکومت سے بھی درخواست کی گئی ہے کہ افغان علاقوں پکتیا ، خوست اور
پکتیکا کے داخلی راستوں کو بند کر دیا جائے تاکہ دہشت گرد فرار ہونے میں
کامیاب نہ ہو سکیں ۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات اور معاہدے ہمیشہ بے نتیجہ ہی رہے اور ہر معاہدے کا
اختتام فوجی آپریشن پر ہوا۔ماضی کی حکومتیں طالبان کے چھوٹے چھوٹے گروہوں
کے ساتھ معاہدے کرتی رہیں جو چند ماہ کے بعد ختم ہو جاتے لیکن نواز حکومت
نے پہلی مرتبہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے بھرپور مینڈیٹ کے ساتھ تحریکِ
طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیااور طالبان کی طرف سے ایک ماہ
کی جنگ بندی کا معاہدہ ہوا ۔اُس وقت بھی طالبان کو قریب سے جاننے والے بہت
سے دفاعی تجزیہ نگاروں کا یہی خیال تھا کہ طالبان مذاکرات کے لیے مخلص نہیں
اور چونکہ اُنہیں نئی صف بندی کے لیے وقت درکار ہے اِس لیے وہ مذاکرات کی
میز پر بیٹھنے کے لیے تیار ہوئے ہیں۔دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہا سچ نکلا اور
محض ایک ڈیڑھ ماہ بعد ہی طالبان نے اپنی کارروائیاں دوبارہ شروع کر دیں ۔سانحہ
کراچی ایئر پورٹ مذاکرات کے تابوت کی آخری کیل ثابت ہوا اور نہ چاہتے ہوئے
بھی حکومت کو آپریشن کا ’’آپشن‘‘ استعمال کرنا پڑا ۔ہمیں یقین ہے کہ انشاء
اﷲ سوات اور جنوبی وزیرستان کی طرح اِس بار بھی کامیابی جرّی جوانوں کے قدم
چومے گی اور یہ ارضِ پاک امن کا گہوارہ بن جائے گی ۔
آپریشن ’’ضربِ عضب‘‘ کے ساتھ ہی وہ تمام افواہیں بھی اپنی موت آپ مر گئیں
جو کافی عرصے سے حکومت اور فوج کے مابین چپقلش کے بارے میں پھیلائی جا رہی
تھیں ۔آئی ایس پی آر نے دو ٹوک الفاظ میں یہ اعلان کیا کہ حکومت کی ہدایت
پر آپریشن ضربِ عضب شروع کر دیا گیا ہے اور آپریشن کے بارے میں وزیرِ اعظم
صاحب کو مکمل طور پر با خبر رکھا جا رہا ہے۔اِس کے باوجود بھی ہمارے بے باک
الیکٹرانک میڈیا کے کچھ عناصر طرح طرح کی مو شگافیاں کر رہے ہیں ۔ایک نیوز
چینل پر یہ گرما گرم بحث جاری تھی کہ فوج فرنٹ لائن پر ہے اور حکومت کا
کہیں پتہ نہیں ۔ظاہر ہے کہ اگرآپریشن افواجِ پاکستان نے کرنا ہے تو فرنٹ
لائن پر بھی وہی ہو گی اور حالات کے مطابق فوری فیصلے کرنے کا اختیار بھی ۔ایسا
بے تُکا اور شر انگیز پراپیگنڈا کرنے والے عناصر کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے
ضروری ہے کہ ہمارے نیوز چینل اپنی حُب الوطنی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے ایسے
نام نہاد دانشوروں اور تجزیہ نگاروں سے گریز کریں ۔ایک نیوز چینل پر ایک
معروف ٹی وی اینکر یہ کہہ رہے تھے ’’وزیرِ اعلیٰ پنجاب جناب شہباز شریف نے
اپنی اور اپنے خاندان کی سکیورٹی کے لیے کور کمانڈر لاہور سے مدد طلب کی ہے۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب کو اپنی اور اپنے خاندان کی سکیورٹی کی تو فکر ہے ، بیس
کروڑ عوام کی نہیں‘‘۔ہم نہیں جانتے کہ اینکر موصوف کے اِس بیان میں کتنی
سچائی ہے لیکن یہ ضرور عرض کریں گے کہ عین اُس وقت جب وطنِ عزیز حا لتِ جنگ
میں ہے ، اِس قسم کی باتیں کرکے قوم میں مایوسی پھیلانے کی کوشش کرنے والے
اینکر ملک کی خدمت کر رہے ہیں نہ قوم کی ۔اُنہیں علم ہونا چاہیے کہ ہمیشہ
’’چو مُکھی‘‘ لڑائی لڑنے والی قومیں ہی کامیاب و کامران ہوتی ہیں اور
موجودہ جنگ میں کامیابی بھی صرف اُسی صورت میں ممکن ہے جب قوم ، سیاستدان ،
سول سوسائٹی اور خصوصی طور پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا فوج کے شانہ بشانہ
ہو ۔وزیرِ اعظم جناب نواز شریف نے بھی پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیتے ہوئے
اپنے پالیسی بیان میں اسی پر زور دیتے ہوئے فرمایاکہ حصولِ مقاصد کے لیے
پوری قوم کو مسلح افواج کا ساتھ دینا ہو گا۔اُنہوں نے آپریشن کی حمایت کرنے
والی سیاسی جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ’’ہم مذاکرات کر رہے تھے
جبکہ دوسری جانب ہماری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ۔ہماری نیک نیتی پر مبنی
پیش رفت کو اُسی جذبے کے ساتھ نہیں لیا گیا ۔کراچی حملے کے بعد مشاورت سے
آپریشن کا فیصلہ کیا گیا ۔اب مقاصد کے حصول تک آپریشن جاری رہے گا اور ملک
کو ہر حالت میں دہشت گردوں سے پاک کیا جائے گا ‘‘۔ملک کی تمام چھوٹی ، بڑی
سیاسی جماعتوں نے آپریشن کی کھُل کر حمایت کی ہے سوائے جماعتِ اسلامی اور
جمیعت علمائے اسلام(ف) کے۔مولانا فضل الرحمٰن کی طرف سے تو اِس آپریشن کے
بارے میں کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا لیکن جماعتِ اسلامی کو اگر گلہ ہے
تو صرف یہ کہ آپریشن سے پہلے اُسے اعتماد میں نہیں لیا گیا ۔محترم بھائی
فرید احمد پراچہ نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں کھُل کر کہا کہ جماعتِ اسلامی
حکومت کے خلاف ہتھیار اُٹھانے والوں کی ہر گز حمایت نہیں کرتی اور ہم اِس
آپریشن کے مخالف نہیں ۔جو گلہ جماعت اسلامی کو ہے وہی تحریکِ انصاف اور
دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی ہے ۔قائدِ حزبِ اختلاف سیّد خورشید شاہ نے کہا
کہ حکومت نے آپریشن کے بارے میں اُن سے مشورہ نہیں کیا اِس کے باوجود پیپلز
پارٹی حکومت کے ساتھ ہے ۔کپتان صاحب حکومت کے ساتھ تو ہر گز نہیں البتہ فوج
کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں ۔تحریکِ انصاف نے تو ملکی حالات کو مدِ نظر
رکھتے ہوئے بہاولپور میں 22 جون کو ہونے والے جلسے کو معطل کر دیا ہے البتہ
مولانا طاہر القادری 23 جون کو پاکستان تشریف لا رہے ہیں اور ہم پریشان کہ
افواجِ پاکستان تو آپریشن ضربِ عضب میں مصروف ہے ، اب ہمارے مُرشد کی
سکیورٹی کا کیا بنے گا؟۔حکومت نے تو شاید مُرشد کی سکیورٹی کی خاطر اُنہیں
گرفتار کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا تھا لیکن مُرشد نے آگ اُگلتا یہ بیان جاری
کر دیا کہ اگر اُنہیں گرفتار کیا گیا تو انقلاب مہینوں یا دنوں میں نہیں ،
گھنٹوں میں آ جائے گا ۔ اِس بیان کے بعد یقیناََ حکومت کے غبارے سے ہوا نکل
گئی ہو گی ۔ویسے چاہتے ہم بھی یہی تھے کہ مُرشد کو گرفتار کر لیا جائے
کیونکہ ایسا کرنے سے کم از کم اُن کی جان کو لاحق خطرات تو ختم ہو جاتے ۔رہی
انقلاب کی بات ، تو اُس کا کیا ہے انقلاب تو آتے رہتے ہیں اور آتے ہی رہیں
گے ۔ہمیں تو مُرشد کی جان عزیز ہے ۔ شیخ رشید احمد کے ٹرین مارچ کا ابھی تک
کچھ پتہ نہیں چلا ۔وہ تو شاید پارلیمنٹ میں اِس کا اعلان کرنے والے تھے
لیکن کتنی بُری بات ہے کہ سپیکر صاحب نے اُن کا مائیک ہی بند کروا دیا ۔
دلچسپ صورتِ حال اُس وقت پیدا ہوئی جب حسبِ روایت سیّد خورشید شاہ تقریر
کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو ساتھ ہی عمران خاں بھی کھڑے ہو گئے ۔کائیاں وزیرِ
اعظم صاحب نے موقعے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے سپیکر صاحب کو کہا کہ چونکہ
سینٹ میں اُن کا انتظار ہو رہا ہے اِس لیے اُنہیں اجازت دی جائے ۔یہ کہہ کر
وزیرِ اعظم صاحب تو ’’ہوا ہو گئے‘‘ اور خاں صاحب مُنہ دیکھتے رہ گئے ۔شیخ
صاحب نے بند مائیک پر بھی چلانا شروع کر دیا کہ اِس ’’ہَتھ‘‘ پر واک آؤٹ تو
بنتا ہے دوستو! لیکن ’’نقارخانے میں تُوتی کی آواز کون سُنتا ہے‘‘۔اِس
اجتماعی بے حِسّی پر شیخ صاحب نے اکیلے ہی واک آؤٹ کر کے تاریخ رقم کر دی۔ |