لیجئے جنا ب 17جون کو ڈاکٹر طاہر القادری کی عوامی تحریک
کے کارکنان کے ساتھ جو سلو ک کیا گیا ہے وہ صاف طاہر کر رہا ہے کہ اس ملک
میں عوام کا سوچنے والے لیڈران اورمعصوم عوام کی کیا قدر ہے؟ موجودہ جمہوری
حکومت اسی عوام کے ووٹوں سے برسراقتدار میں آئی ہے اور اسی نے ریاستی دہشت
گردی کا مظاہرہ کیا ہے۔جبکہ ہمارا دستور عوام ایسی کسی کاروائی کی اجازت
نہیں دیتا ہے۔’’آئین پاکستان کا تقاضا صرف انتخابات کروانا اور اقتدار آگے
منتقل کروانا ہی نہیں بلکہ عوام پاکستان کے بنیادی حقوق پر مبنی آئین
پاکستان کی پہلی40شقیں بھی توجہ کی متقاضی ہیں۔ان آئینی تقاضوں سے
عمداروگردنی ملک و قوم کے ساتھ غداری کے مترادف ہے‘‘۔مگر جناب ایسی باتوں
پر کون غور کرتا ہے یہاں تو آئین توڑ مروڑ کر اپنے فائدے اُٹھانا تو
پاکستان میں ایک رواج بن چکا ہے۔قیام پاکستان سے آج تک پاکستان کوجسے
مسلمانوں نے اس لئے حاصل کیا تھا کہ یہاں وہ اسلامی طرز زندگی کے اصولوں کے
مطابق زندگی گذر سکیں گے مگر یہاں تو روز اول سے ہی ایسی ریشہ دوانیاں شروع
ہوئی ہیں کہ نہ تو اس ارض پاک کو استحکام حاصل ہو سکا ہے نہ ہی عوام کے
حالات بہتر ہوسکے ہیں ۔اگرچہ یہاں وہ صورت حال نہیں ہے جوکہ قیام پاکستان
سے قبل مسلمانوں کو درپیش تھی مگر بہت سے معاملات میں تاحال کوئی خاص
تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے کہ یہاں ہمارے نامی گرامی سیاست دانوں اور نام
نہاد لیڈران حضرات نے کچھ ایساہونے ہی نہیں دیا کہ ہم ایک باوقار قوم کے
طور پر اُبھر سکتے اور عوام بھی خوشحال ہو سکتی۔پچھلے کئی سالوں سے پاکستان
کو ایک تماشا گاہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے اور نت نئے سیاسی حربے استعمال کر
کے محض اپنے ہی فوائد حاصل کرنا ہمارے سیاسی رہنما ؤں کو مطع نظر بن چکا
ہے۔یہاں کوئی انقلاب کے نعرے کے زور پر ،کوئی اسلام کے نفاذ کے اعلان کے
ساتھ اور کوئی ملک و قوم کی حالت بدلنے کے دعویٰ کے ساتھ میدان میں اُترتا
ہے اور عوام کو بے وقوف بنا کر اپنے بنک اکاوئنٹس کرپشن کر کے بھرتے ہیں
اور نو دو گیا رہ ہو جاتے ہیں اور عوام بیچاری یوں ہی غربت ، بے روزگاری
اور مہنگائی ، دہشت گردی ، خود کش حملوں میں پس پس کر مرتی رہتی ہے اور
انکا کوئی پرسان حال نہیں ہے کہ تماشا گاہ میں بس عوام جو کہ مفا د پرست
سیاست دانوں کیلئے ایک تماشائی کی حیثیت رکھتے ہیں کو وہ ہاتھ دکھا کر ’’یہ
جا ،وہ جا ’’پر عمل کرتے ہیں ،بیچاری مفلس عوام بس تماشے سے لطف و اندوز ہو
کر ہی چپ سدھ لیتی ہے۔
2013کے انتخابات کے بعد سے ایک تماشا ایسا شروع ہوا ہے جو کہ ہمارے ملک کی
تاریخ میں کبھی نہیں ہوا ہے کہ اس بار جیتنے اورہارنے والی دونوں جماعتوں
نے دھاندلی کے الزامات لگائے اور عوام کو بھی سڑکوں پر بھی لائے ہیں ۔اس سے
عوام کی بھلائی ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو سیاست دانوں کی دکانداری خوب چمکی
ہوئی ہے۔موجودہ جمہوری حکومت اپوزیشن کے شور شرابے کے باوجود ابھی تک سکون
سے اپنی مدت پورا کرنے میں مصروف عمل ہے انکو خطیر رقم سے شروع ہونے والی
میٹرو بس پر تنقیدپر بھی سننے کو مل رہی ہے مگر فی الوقت سب کچھ پر سکون
نظر آ رہا ہے مگر در پردہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید کچھ ہو جائے۔اس کی وجہ
یہ ہے کہ’’ن لیگ‘‘ کے خلاف تمام تر جماعتیں اکھٹی ہونا شروع ہو گئی ہیں ۔اس
حوالے سے عمران خان صاحب اورڈاکٹر طاہرالقادر ی صاحب کے درمیان اہم
ملاقاتیں لند ن میں ہوئی ہیں اس بار طاہر القادری صاحبکو ‘‘ مسلم لیگ ق‘‘
کی جانب سے بھی حمایت مل رہی ہے اور امید واثق ہے کہ دیگر جماعتیں بھی ملک
میں حالیہ درپیش مسائل کے حل کیلئے یکجا ہو کر کسی تحریک کو چلائیں گے اور
پھر ملک میں افراتفری کا ماحول بن جائے گا ۔عمران خان صاحب کی طرح ڈاکٹر
طاہر القادری صاحب بھی ملک میں تبدیلی کے خواہاں ہیں مگر وہ عمران خان کی
طرح تبدیلی نظام کے بدلے بغیر لانے کو تیار نہیں ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ جب
تک یہ نظام جس پر موجودہ جمہوری حکومت آئی ہے وہ ختم نہیں ہو ا اس وقت تک
حقیقی تبدیلی اس ملک میں رونما نہیں ہو سکتی ہے ،نہ ہی عوام کے مسائل حل ہو
سکتے ہیں ، نہ ہی پاکستان کو معاشی استحکام حاصل ہو سکتا ہے۔یہ وہ نقطہ ہے
جس پر عمران خان کے ساتھ ڈاکٹر طاہر القادری کے درمیان خلیج پیدا ہو سکتی
ہے کہ عمران خان موجودہ نظام میں رہتے ہوئے ہی تبدیلی پاکستان میں لا کر ’’
نیا پاکستان ‘‘بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں جو کہ حقائق بتا رہے ہیں کہ یوں
پورا ہونا نا ممکن سا ہے۔مگر عمران خان اپنی بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ وہ
تبدیلی لے آئیں اور پاکستان کا مستقبل سنوار دیں ۔
دوسری جانب ڈاکٹر طاہر القادری صاحب پاکستان کو ایک تماشا گاہ مزید نہیں
رکھنا چاہتے ہیں اسی وجہ سے وہ عوام کی طاقت کے زور پر انقلاب لا کر
پاکستان کے حالات بدلنے کے درپے ہیں۔اس سلسلے میں دیگر جماعتیں ان کے ساتھ
ملنا تو چاہ رہی ہیں مگر ڈاکٹر صاحب کو سوچ سمجھ کر ہی اس حوالے سے اہم
فیصلہ کرنا ہوگا کیونکہ یہ تو تمام تر باشعور طبقہ جانتا ہے کہ اگر تبدیلی
کے لئے پرانے سیاست دان سنجیدہ ہوتے تو بہت عرصہ پہلے ہی انقلاب آ چکا ہوتا
اور آج دو وقت کی روتی کیلئے غریب کو دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانے پڑتے
اور نہ ہی ہمارا ملک اپنے معاشی استحکام کیلئے آئی ایم ایف ،ورلڈ بنک وغیر
ہ سے قرضے لے کر اپنی معاشی بقا کو قائم رکھتا۔ اگرچہ ڈاکٹر طاہر القادری
صاحب کی باتیں خوش کن ہیں او ر یوں بھی بہترین مقر ر ہونے کی وجہ سے وہ
پاکستانی عوام کے دلوں میں جگہ بنا رہے ہیں مگر انقلاب کیلئے انکو بھی اس
قدر عوام کے دلوں کو مسخر کرنا ہوگا کہ وہ نام نہاد و مفاد پرست لیڈروں کی
باتوں میں نہ آئیں اور انکے ساتھ انقلاب کی راہ ہموار کریں ۔مگر ساتھ ساتھ
انکو اپنے اُوپر لگائے جانے والے الزامات بھی عمران خان کی طرح ثابت کرنا
ہونگے تاکہ عوام کے دلوں سے شکوک وشہبات دور ہو سکیں۔سب سے بڑا ان پر یہ
الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ دہری شہریت رکھتے ہیں اگرچہ اس حوالے سے انکے
دلائل مدلل ہوتے ہیں کہ وہ کیوں رکھتے ہیں؟مگر مخالفین اس پر چپ ہونے کو
نہیں آ رہے ہیں بقول انکے ’’ وہ محب وطن کیسے ہوسکتے ہیں جبکہ وہ دہری
شہریت رکھتے ہیں ‘‘یوں بھی وہ اس ملک میں انقلاب لانے کی باتیں کرتے ہیں
اگر وہ ’’دہری شہریت‘‘کو ترک کر دیں تو پاکستان کی سیاست میں بڑا انقلاب سا
آ جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ ہمیں اس کے بعد نیا پاکستان دیکھنے کو مل
جائے۔عمران خان کے ساتھ مل کر وہ نئی تحریک چلانے کا سوچ رہے ہیں مگر اس
بار بہت کچھ سوچنا پڑے گا یہ نہ ہو کہ عوام ان سے بددل ہو جائے اور انکی
ساری محنت غارت ہو جائے ۔چونکہ انکی باتیں ایسی ہیں جو کہ عوام کیلئے فائدہ
مند ہوتی ہیں اسی وجہ سے انکو ذرائع ابلاغ میں کوریج بھی خوب دی جا رہی ہے
اور چند حلقوں میں یہ بات ہضم نہیں ہو پا رہی ہے کہ ایسی جماعت جس نے
2013کے انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا تھا اس کو اس قدر اہمیت دی جا رہی ہے
جبکہ بات واضح ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری جو بھی کہتے ہیں وہ سب ہی تسلیم
کرتے ہیں کہ ایسا ہونا چاہے مگر کوئی ایسا کرنے دینا نہیں چاہتا ہے۔اگرچہ
ڈاکٹر صاحب نے اپنی حکمت عملی کا اظہار کر دیا ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟
عمران خان بھی وقتا فوقتا اپنے بیانات سے ماحول گرم کر رہے ہیں اب دیکھنا
یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یہ وقت بتائے گا؟ فی الوقت تو ’’ن لیگ‘‘
کو اگرچہ اپوزیشن کے اختلاف کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور احتجاج کو جمہوری
حق سمجھتے ہوئے دیگر جماعتوں کو موقعہ دینا پڑ رہا ہے ساتھ ساتھ حکومتی رٹ
برقرار رکھنے کیلئے ضروری اقدامات کرنا پڑتے ہیں مگر یہاں یہ بات بھی ذہن
نشین رکھنی چاہیے کہ عوام کی تحفظ کی ذمہ داری انکی ہی موجودہ جمہوری حکومت
ہے بصورت دیگر کل کلاں کو یہ الزام بھی لگایا جاسکتا ہے جوکہ عوام کے تحفظ
میں مکمل طور پر موجودہ جمہوری حکومت ناکام ہو چکی ہے۔اگر موجودہ جمہوری
حکومت عوام کی بھلائی کی دعویٰ دار ہے مگر حقائق اس کے برعکس دکھائی دے رہے
ہیں، اور 17جون کو ایک ایسی جماعت جو پرامن رہتی ہے اس کے کارکنان کے ساتھ
ایسا بیہمانہ و سنگ دلانہ کاروائی جمہوری حکومت کے منہ پر زور دار طماچہ
ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان کے ساتھ جو ہوا سو ہوا،اب مزید جلتی پر
آگ طاہر القادری صاحب کے فرزند پر ایف آئی آر کا اندراج بھی یہ بات ظاہر
کررہی ہے کہ موجودہ حکومت کے اعلیٰ عہدیدارن عوام کے بارے میں اور طاہر
القادری و انکے بیٹوں کے خلاف کیا عزائم رکھتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ
درپیش تمام ترمسائل کی جانب خاطر خواہ توجہ دی جائے ،بصورت دیگر انقلاب کی
راہیں خود بخود ہموار ہو جائیں گی اور ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا پاکستان ملے
اقبال ؒکے خواب کی تعبیر ہو۔اور طاہر القادری کے خلاف جانے والے اقدامات ہی
انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں کہ پاکستان اب ایسے تماشوں کا جو
لاہور میں ہوا ہے کا مزید متحمل نہیں ہو سکتاہے۔ |