امن مذاکرات تابوت کی آخری کیلیں

لندن سے تعلق رکھنے والے مانٹیرنگ ادارے آکشن آن آر مڈ وائلنس کے پالیسی ڈائریکٹر اوورٹن نے ایک کانفرنس میں انکشاف کیا کہ پاکستان بم دہماکوں میں ہونے والے تشدد کے حوالے سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن گیا ہے ، جہاں اوسطا روزانہ 2بڑے دہماکے ہوتے ہیں جن میں کم ازکم 5افراد ہلاک یا زخمی ہوجاتے ہیں ، تشدد کے واقعات کی بڑی وجہ افغانستان سے اسمگل ہو کر پاکستان پہنچنے والا اسلحہ ہے۔پاکستان اس وقت بارودی سرنگوں سمیت دیگر حملوں کے سبب دنیا بھر میں ایک خطرناک ملک کی صورت میں سامنے آیا ہے جس کی بنیادی وجہ افغانستان میں جاری تشدد قرار دیا جاتا ہے ۔ دیسی ساختہ بموں کے دہماکوں اور خودکش حملوں کی شرح کے حوالے سے پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے اور بد قسمتی سے یہ شرح جنگ زدہ پڑوسی ملک افغانستان سے بھی بڑھ گئی ہے گنجان آباد علاقوں میں نصب کئے جانے والے دہماکہ خیز مواد کا سب سے زیادہ نشانہ عام شہری بنتے ہیں ، پاکستان میں بم پریشر ککر کے ساتھ چھوٹی مقناطیسی ڈیوائس لگائی جاتی ہے جیسے گاڑیوں یا پھر خود کش جیکٹس اور بیلٹس میں اس کا استعمال بذریعہ ٹائمنگ یا موبائل فون کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

09جون کو کراچی ائیر پورٹ اک بار پھر سیکورٹی اداروں کے لئے چیلنج بنا جب غیر ملکی حملہ آوروں نے ائیر پورٹ میں داخل ہوکر ائیر پورٹ سیکورٹی فورس کے اہلکاروں سمیت کم سے کم28افراد کو ہلاک ہوئے۔گو کہ آئی ایس پی آر کے مطابق علاقہ کلئیر آپریشن میں تمام اثاثے محفوظ رہے ، جبکہ 10حملہ آور دہشت گرد مارے گئے۔ا سی دن تفتان کے علاقے میں زائرین پر دہشت گردی کے حملے سے 10عورتوں سمیت 25زائرین بھی ہلاک ہوئے اور شمالی وزیرستان میں ایک خودکش بمبار نے بارود سے بھرا ٹرک فوجی چوکی سے ٹکرا دیا جس سے چار اہلکار شہید اور سات زخمی ہوگئے ۔اس سے قبل اہم واقعات میں اکتوبر2009ء میں پاکستامی فوج کے راولپنڈی میں صدر دفتر پر شدت پسندوں نے حملہ کیا تھا ۔ بائیس گھنٹوں تک جھڑپیں رہیں اور بائیس افراد ہلاک ہوئے۔مئی2011ء میں کراچی میں پاکستانی بحریہ کی مہران بیس پر حملہ ہوا ، جس میں ایک درجن کے قریب دہشت گردوں نے پاکستانی بحریہ کا ایک اہم جہاز اورئیین کو تباہ کرڈالا تھا ، کاروائی میں دس اہلکارشہیداور تین شدت پسند ہلاک ہوئے۔اگست2012ء میں ضلع اٹک میں پاک فضائیہ کی کامرہ اء بیس کو شدت پسندوں نے منظم کاروائی کا نشانہ بنایا ، حملے میں فضائیہ کے دو اہلکار شہید اور نو حملہ آور مارے گئے۔جبکہ دسمبر2012ء میں باچہ خانہ ہوائی اڈے پر شدت پسندوں نے دہماکہ خیز مواد اور بھاری اسلحہ کے ساتھ حملہ کیاتھا جس میں حملہ آور سمیت 9افراد ہلاک ہوئے ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ مہران بیس حملے اور کراچی ائیر پورٹ حملے میں غیر ملکی حملہ ٓاور ملوث تھے ۔جبکہ شمالی وزیرستان میں ان ہی وجوہات کی بنا پر کو ر کمانڈر کی جانب سے15دن کی مہلت دی گئی ہے کہ علاقے سے غیر ملکیوں کو بیدخل کردیا جائے ۔ ان میں بڑی تعداد ازبک ، چیچین باشندوں کی ہے جو روس ، افغان جنگ میں آئے اور پھر یہیں کے ہو رہے اور اسلام کے نام پر شدت پسند کاروائیوں میں ملوث رہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ کراچی میں گذشتہ دس ماہ سے سخت ٹارگٹڈ آپریشن پولیس اور رینجرز کی نگرانی میں بڑی شد مد کے ساتھ چل رہا ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ہزاروں کی تعداد میں ملزمان کی گرفتاریا بھی کیں گئیں اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ کراچی کا کوئی بھی ایک ایسا علاقہ نہیں ہے جو کراچی آپریشن کی زد میں نہ آیا ہو اور گھر گھر تلاشی یا اسنیپ چیکنگ نہ کی جاتی ہو۔ روزانہ پریس بریفنگ میں وزیر اعلی سندھ سید قائم علی شاہ اور وزیر اطلاعات سندہ شرجیل میمن اور ان کے اراکین و ہم رکاب وزرا ء یہ بیان میڈیا میں دیتے نہیں تھکتے کہ آپریشن کے بعد سے کراچی میں امن و امان میں بہتری آئی ہے اور کوئی ٹائم فریم تو نہیں دیا جا سکتا لیکن حالات کنڑول میں ہیں اور جلد ہی کراچی کی رونقیں واپس لوٹ آئیں گی۔

چونکہ حکومتی اراکین چوبیس گھنٹے" روشنی" میں رہتے ہیں اس لئے ان کا دعوی درست معلوم ہوتا ہے کہ کراچی میں اندھیرا نہیں بلکہ روشنیاں ہی روشنیاں ہیں ،۔ بس دیکھنے والوں کا قصور ہے کہ وہ آنکھوں کے ساتھ عقل کے بھی اندھے نظر ٓاتے ہیں۔ صوبے میں امن و امان کیلئے55ارب کا بجٹ تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ محکمہ پولیس میں 10ہزار اسامیوں کی بھرتی کیلئے فنڈ مختص کئے گئے ہیں ،جو کہ رواں مالی کے 46ارب 16کروڑ روپے کے بجٹ تخمینہ کے مقابلے میں تقریبا19.56فیصد زیادہ ہونگے۔47ارب سندھ پولیس کیلئے جبکہ تو عدالتوں ، رینجرز ، ایف سی ،محکمہ جیل خانہ جات کیلئے8ارب روپے رکھے گئے ہیں۔اعداد و شمار اور تخمینے کی ایک لمبی چوڑی فہرست ہے لیکن ان سب سے عوام کو کیا فائدہ مل رہا ہے ، اس کے بجائے ہم واضح طور پر دیکھ رہے ہیں کہ دہشت گرد اس قدر منظم اور انتہائی تربیت یافتہ ہیں کہ چند گھنٹوں کے اندر پر ائیر پورٹ میں داخل ہوکر اپنی کاروائیاں شروع کردیں ۔یہ سب کچھ کراچی آپریشن پر ایک سوالیہ نشان ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے دراصل درست سمت پر نہیں ہیں ، یہی وجہ ہے کہ چھوٹے موٹے جرائم میں ملوث افراد کو پکڑ کر سمجھا جا رہا ہے کہ مملکت کی شہہ رگ کو شدت پسندی سے محفوظ بنا لیا جائے گا۔ہمیں اس غلط فہمی سے نکل آنا چاہیے ، کسی سیاسی پارٹی کے کارکنان کی آپس کی لڑائیوں میں قتل و غارت کوئی نئی بات نہیں ہے ، کہ علاقے و وسائل پر قبضے کی جنگ میں متحارب گروپوں، تنظیموں اور جماعتوں نے کراچی کی عوام کو اس قدر یرغمال بنا دیا کہ چوبیس ہزار افراد کی ہلاکتیں ہونے پر بھی حکومت سب کو سب کچھ ٹھیک ٹھاک نظر آتا ہے۔

ملک بھر کی عوام میں اگرامن و امان کے حوالے سے سکھ کا سانس کسی صوبے کی عوام لیتی ہے تو وہ صرف پنجاب کی ہے جہاں کی حکومت کی گڈ گورنس کی وجہ سے صوبے میں افراتفری کی وہ صورتحال نہیں ہے جو ملک کے دیگر تین صوبوں میں ہے ، بقول میاں صاحب کہـ" جن سے ایک صوبہ نہیں سنبھالا جا رہا وہ ملک کیسے سنبھالیں گے "۔بات تو درست ہے اب چاہے اس کے لئے خیبر پختونخوا حکومت ، بلوچستان یا سندھ حکومت نے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی ہے تو اس میں ہم سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے جو چاہے الزام دے سکتے ہیں لیکن سمجھنے کی بات ضرور ہے کہ کالعدم جماعتوں و تنظیموں کے اڈے ، صرف پنجاب میں ہی نہیں بلکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے قبائلی سر حدی علاقوں میں موجود ہیں۔وفاق کی جانب سے ایسا اگر ہے کہ کسی کالعدم جماعت کے ساتھ پنجاب میں امن کے لئے کوئی معائدہ کیا ہے تو پھر اس صورت میں اپوزیشن جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ، لیکن اس کے باوجود حسن ِ ظن سے کام لینا ضروری ہے کیونکہ بات یہاں عسکری اداروں پر حملوں کی ہے ، جنھیں شمالی وزیرستان میں اس لئے نشانہ بنایا جارہا ہے کیونکہ ان کے بقول افواج پاکستان ان کے لوگوں کو مار رہی ہے اور جیلوں میں ان کے قیدیوں کیساتھ ناروا سلوک کیا جارہا ہے یا پھر غیر اعلانیہ جنگ میں علاقوں میں بمباریاں کرکے متعدد افراد کی جانیں ضائع ہوتیں ہیں اس لئے یہ کاروائیاں اس کا ری ایکشن ہے ، اسی طرح عسکری فوج کی جانب سے جب کاروائی کی جاتی ہے تو ان کا استدال بھی یہی ہوتا ہے کہ شدت پسند کاروائیوں کے نتیجے میں ان کے فوجی افسران اور اہلکار شہید ہوتے ہیں اس لئے دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرنا ضروری ہوجاتا ہے ۔

بہرحال دیکھا یہی گیا ہے کہ حملوں کی صورت میں جہاں مالی نقصانات زیادہ ہوتے ہیں تو ان حملوں سے متاثرہ افراد کو بھی بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔دو طرفہ حملوں میں ہم ایسے واقعات میں یہ نہیں دیکھتے کہ بے گناہ افراد کے خاندانوں پر کیا بیتی ہے ، اس کی کفالت کرنے والا مارا یا زخمی ہوجاتا ہے تو حکومت کی جانب سے فوری ریلیف نہ ملنے کے سبب اس کے خاندان پر کیا بیتی ہے اور یہ سلسلہ یہیں آکر ختم نہیں ہوتا بلکہ جب تک وہ زخمی تندرست نہیں ہوتا ، ہسپتالوں میں چکر در چکر لگانے سے اس کی نفسیاتی کیفیت اور طبی علاج کے لئے مالی پریشانیوں کی دوری کیلئے حکومتی سطح پر کبھی کوئی کاروائی نہیں کی جاتی ، صرف دہماکے کے پہلے روز ایمبولینس میں ڈالکر زخمی کو ہسپتال تک پہنچا دینا اور میڈیا کو بتانا کہ اتنے ہلاک اور اتنے زخمی ہوگئے ہیں اسی کو کافی سمجھ لیا جاتا ہے ۔حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ تمام تر دہشت گرد واقعات کے باوجود بعض جماعتیں مذاکرات کے حق میں ہیں ، لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دیتا کہ معائدہ ختم یا توڑنے والے کے خلاف کیا کچھ کیا جاسکتا ہے ، لازمی بات ہے کہ معائدے کی خلاف ورزی کسی بھی فریق کی جانب سے ہو، اس کا خمیازہ تو بے گناہ عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔حکومت کو اب ایک حتمی فیصلہ بہرحال کرچکی ہے کہ ایسے کیا کرنا چاہیے ۔امن مذاکرات کے تابوت میں آخری کیلیں بھی بہرحال خود عسکریت پسندوں نے ٹھونکیں تھیں اب انھیں آپریشن ضرب عضب کے کاری وار کو برداشت کرنا ہی ہوگا ہتھیار ڈالنے تک۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 666160 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.