کل سے میرا فون مسلسل بج رہا ہے،فون کرنے والوں میں بڑی
تعداد مسلم لیگ ن کے کارکنوں کی ہے جو پولیس کی جانب سے ماڈل ٹاؤن کو
جلیانوالہ باغ بنا دینے پر سخت صدمے سے دوچار ہیں اورحیران پریشان ہیں کہ
آخر یہ سب کیسے ہوگیا،2014 ء کے پاکستان میں دن دیہاڑے پولیس نے ہم وطنوں
کو ذبح کر ڈالا فون کرنے والوں کی باتیں سن سن کر میرادل ہے کہ ڈوب رہا ہے
اور میرے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب اور شرمندہ شرمندہ سی ہو رہی ہیں ، یہ
شرمندگی تو اب میری ذات کا مستقل حصہ بنتی جا رہی ہے ، ایک کے بعد ایک
واقعے کے بعد اس شرمندگی کے احساس میں بے پایاں اضافہ ہوتا چلا جا رہاہے
میں جب سوچتا ہوں کہ ہمارے حساس اداروں کے ہیڈ کوارٹر میں دہشت گرد گھس گئے
تھے،دنیا کا انتہائی مطلوب شخص اسامہ بن لادن ایبٹ آباد سے اس طرح برآمد ہو
اتھا کہ ہماری رہی سہی ساکھ بھی بھک سے اڑ گئی،ہمارے ائیر پورٹ دہشت گردوں
کے نرغے میں ہیں،ہماری مساجدمدرسے اور امام بارگاہیں بھی انہی کے رحم و کرم
پر ہیں تو میں شرم سے پانی پانی ہو جا تا ہوں ،کل سے فون کرنے والوں کی
باتیں سن تو رہا ہوں مگر مجھے بولنا مشکل ہو رہا ہے کل سے میں جی تو رہا
ہوں مگر بین کرتی لہو لہان بہنوں بیٹیوں کی چیخ و پکار اور ڈنڈے کھا کر
نڈھال ہو کر گرتے بزرگوں کی حالت دیکھ کر جینا بھول سا گیا ہوں،میں جانتا
ہوں کہ اس سے بڑا بدنصیب کوئی نہیں ہو سکتا جس کا پالا ہماری پولیس سے پڑ
جائے منہاج القران کے بچے بچیوں کو تو انکے پیر و مرشدکی محبت نے اندھا کر
دیا ورنہ پولیس سٹیٹ میں سرکار کی وردی میں پلے ہوئے ان غنڈوں کے ہاتھ جتنے
ناپاک ہیں اتنے ہی لمبے بھی ہیں اورشرفا ء تو انکے سامنے کھڑا ہونے کا تصور
نہیں کر سکتے ، مجھے ذاتی طور پر ڈاکٹر طاہرالقادری کی سوچ سے شدید اختلاف
ہے،میرا یہ بھی گمان ہے کہ انکی ڈوریاں کہیں سے ہلائی جاتی ہیں تو انکو وطن
کی یاد ستانے لگتی اور نظام کی خرابی کا ادراک ہونے لگتا ہے،مجھے دکھ ہوتا
ہے کہ یہ شخص خود آرام پسند ہے لیکن اپنے پیروکاروں کو موسم کی سختیوں کے
آگے جھونک دینے سے پہلے اس کا دل ذرہ برابر بھی نہیں پسیجتا یہ قوم کی
بیٹیوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتا ہے اور اپنے مریدوں کے جذبات سے
کھیلنا انہیں گرمانا اسکی عادت ہے،ڈاکٹر طاہرالقادری آمر مشرف کا حامی اور
ملک کی حقیقی جمہوری قوتوں کا مخالف ہے اور اس کا موجودہ انتخابی نظام پر
یقین نہیں ہے لیکن ادارہ منہاج القران کے سربراہ کی سوچ وایجنڈہ کتنا ہی
ناپاک اور عزائم کیسے ہی بھیانک کیوں نہ ہوں لاہور میں پولیس کی درندگی و
بے شرمی کے آگے توسب کچھ ماند پڑ گیا ہے،ایک احتجاج کرتے انسان کوجان سے
مار دینے کی تو جیح کیا ہو سکتی ہے اورکیا سوچ اور نظریے کے اختلاف کا یہ
انجام قابل تعریف ہے جو لاہور پولیس نے اپنی گولیوں اور ڈنڈوں سے تحریر کیا
،میرے کئی صحافی بھائی مجھ سے اکثریہ سوال کرتے ہیں کہ مجھے پولیس سے نفرت
کیوں ہے لاہور کے واقعے میں ان سب کے سوالوں کے جواب عیاں ہیں،اس نفرت نے
کل سے اور بھی شدت اختیار کر لی ہے مگر کیاپولیس کی اس درندہ صفت خوبی سے
خادم پنجاب واقف نہ تھے اس وحشی پولیس سے امن قائم کرنے کی امید ممکن ہے
اور کیا تجاوزات کے خلاف یہ آپریشن ڈی سی او لاہور کو انسانی جانوں سے
زیادہ قیمتی محسوس ہو رہا تھا اور یہ مکمل نہ ہوتا تو کیا انتطامیہ کی روٹی
ہضم نہ ہوتی،ان سوالوں کے جواب پنجاب حکومت کو دینا ہیں اور وہ چاہے بھی تو
ان سے بھاگ کر کہیں نہیں جا سکتی،شہباز شریف نے کہا ہے کہ جوڈیشل کمیشن
انہیں واقعہ ذمہ دار قرار دے تو وہ مستعفی ہو جائیں گے۔۔۔۔نہیں جناب اگر آپ
ذمہ دار ہوئے تو استعفیٰ توایک طرف پھر آپ قانون کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے
اور قانون کے مطابق سزا کے مستحق آپ ملک میں عمر فاروق رضی اﷲ کا نظام
لاناچاہتے ہیں اور اس پولیس کے ذریعے ۔۔۔۔ ؟ اسکے ذریعے تو انسانوں پر قہر
ڈھانے کے لئے فرعونیت کا کوئی نظام لاکر انسانوں پر قیامت ڈھانے کی کوئی
بات کریں تو شاید کسی کو یقین آجائے ، پولیس کی انسانیت سوز کارروائیوں پر
چشم پوشی مجرمانہ غفلت شاید اب آپ کو احساس ہو جائے کہ عوام کی خدمت کے نام
پر جو درندے پال رکھے ہیں ان سے انسانوں کی فلاح کی امید ناممکن ہے لاہور
میں شہریوں پر گولی چلانے کاواقعہ آپ کی ایماء پر نہ بھی ہوا ہو توآپ بطور
وزیر اعلیٰ اس کی ذمے داری سے بری نہیں ہو سکتے اس لئے آپ مستعفی ہوں یا نہ
ہوں اس افسوسناک واقعہ پر قوم سے معافی ضرور مانگیں انصاف کے تقاضوں کو
پورا کرنے کے لئے جوڈیشل انکوائری میں شفافیت کو یقینی بنائیں اور پولیس کی
جانب سے پیٹی بھائیوں کو بچانے کی کوششوں پر کڑی نظر رکھیں ،اگلے روز ہی
گوجرانوالہ میں ایک تشدد پسند ایس ایچ اوجو اپنی تعیناتی کے فوری بعد ہی
علاقے کے دوکانداروں پر ٹوٹ پڑا تھا اور علاقے میں دہشت کی علامت بن گیا
تھا اس نے موبائل چوری کے الزام میں ایک دوکاندار پر وہ تشدد کیا جس پر
انسانیت بھی شرما جائے حالانکہ دوکاندار نے موبائل فون جن میاں بیوی سے
خریدا تھا انکے شناختی کارڈ کی کاپی بھی اس نے پولیس کو فراہم کرد ی تھی
لیکن کیا کریں ہم سب پولیس والوں کی سلطنت میں بسنے والی بے بس رعایا ہیں
اور میں اس رعایا کا ایک شرمندہ سا فرد ہوں ہم سب کا مقدر سانجھا ہے ہم
تھانوں میں اور نجی عقوبت خانوں میں مار کھانے اور اپنی کھال اور ناخن
کھنچوانے کے عادی ہو گئے ہیں ،فون کل سے مسلسل بج رہا ہے اور بار بار ری
چارج کرنا پڑ رہا ہے لیکن بے بسی کی انتہا یہ ہے کہ میں وحشیانہ تشدد اور
ظلم و بربریت کے مناظر دیکھنے کے بعدسے اپنے دل کو ری چارج نہیں کر پا
یامجھے ایساکوئی چارجر نہیں مل رہا جو میرے دل کی دھڑکنوں کو دوبارہ ترتیب
میں لے کر آئے اور میری مسکراہٹ واپس کرے،میں رونا چاہتا ہوں کہ مسلسل ضبط
اور احساس جرم نے میری روح کو جیسے قبض ہی کر لیا ہے مگر رو بھی نہیں پارہا
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فرازـ
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا |