کلہاڑی دستہ اور گلوبٹ

سحر خیزی کی نعمت بچپن ہی سے والدِ مرحوم کی تربیت کی بدولت عطا ہوئی۔سورج نکلتے وقت سویا رہنے والا آقاکریم ﷺ کے فرمان کے مطابق بہت ساری ان دیکھی اور ان جانی نعمتوں سے محروم رہتا ہے۔میں رحم کرم اور عطا کے انہی لمحات میں اپنا کالم لکھا کرتا ہوں۔آج کل لیکن رات خواجہ آصف اور عابد شیر علی کے پرکھوں کو یاد کرتے گذر جاتی ہے۔ہمارا علاقہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے حوالے سے سر فہرست ہے اور اس میں چوری نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ سرے سے ہے ہی نہیں۔اس کے باوجود بجلی ایک گھنٹہ آتی ہے اور ایک گھنٹہ چلی جاتی ہے۔رات گرمی کے علاوہ مچھر ستاتے ہیں اور اتنا کہ مسلم لیگ نون کی حکومت نے بھی کیا ستایا ہوگا۔والد صاحب نے سحرخیزی کی عادت ڈالی تھی وہ تو چھوٹی کہ سوئیں گے تو جاگیں گے ناں۔ہمارے علاقے کے ساتھ یہ سلوک اس لئے ہے کہ ایک تو ہم امن پسند لوگ ہیں ہمیں حق مانگنا نہیں آتا دوسرے ہمارا ایم این اے تحریک انصاف کا ہے جس نے چوہدری نثار کو شکست دی۔یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی سزا اب سارا علاقہ بھگت رہا ہے۔وزیر داخلہ کے بغض سے جو لوگ واقف ہیں وہ پیشگوئی کرتے ہیں کہ اگر پاکستان کو خدا آسمانی بجلی کا کنکشن بھی دے دے تو بھی اس حلقے کے لوگوں کی چوہدری نثار کو ہرانے کی غلطی کی سزا کم نہ ہو گی۔ واﷲ اعلم

یہ تو خیر یونہی جلے دل کے پھپھولے ہیں جو اس قیامت کی گرمی میں خود بخود پھوٹتے ہیں۔آئیے آپ کو ایک قصہ سناتا ہوں۔ٹمبر مافیا کے کارکن جنگل میں پہنچے اور بے دریغ درخت کاٹنا شروع کئے ۔بوڑھے اور ازکار رفتہ درخت،موسم کی شدت سے گھبرائے درخت ،زندگی سے مایوس درخت ،بے عملی اور مایوسی کے شکار درخت تو یکے بعد دیگرے کٹتے رہے لیکن ایک نسبتاََ نوجوان اور زندگی سے بھرپور درخت نے کلہاڑے کو اپنے تنے سے یوں ٹکر ماری کہ کلہاڑے کی ساری آن بان اور شان ہوا ہو گئی۔ حقیقی معنوں میں اس کے دانت کھٹے ہو گئے۔کلہاڑا لوہار کے پاس گیا اور اپنے دانت تیز کروا کے دوبارہ درخت کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ درخت نے کلہاڑے سے کہا۔تیری میری آخر دشمنی کیا ہے جو تو میری جان کے درپے ہے۔میری زندگی ختم کرنا چاہتا ہے۔کلہاڑا اپنے تیز دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کھلکھلایا اور دستے کی طرف اشارہ کر دیا۔کٹنے والے درخت نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے استفہامیہ نظروں سے کلہاڑے کی طرف دیکھا تو کلہاڑادلار سے بولا۔پیارے درخت !تمہیں میں نہیں تمہارا اپنا "گلوبٹ "کاٹ رہا ہے۔درخت نے کلہاڑے کو سہارا دئیے لکڑی کے دستے کی طرف دیکھا اور دیکھ کے کلہاڑے کے آگے اپنا سر جھکا دیا۔

ماڈل ٹاؤن لاہور میں تحریک منہاج القرآن کے کارکنوں کو جس بے حیائی درندگی اور سفاکی سے قتل کیا گیاپاکستان کی تاریخ میں شاید ہی اس کی نظیر ملتی ہو۔ کچھ لوگ اسے لال مسجد اور جامعہ حفصہ سے ملتا جلتا واقعہ قرار دے رہے ہیں حالامکہ ایسا ہر گز نہیں وہاں پہ ایک گروہ ریاست کے اندر ریاست تشکیل دے رہا تھا۔دن دہاڑے لوگوں کو دھمکیاں دے رہا تھا اغواء کر رہا تھا جبکہ منہاج القرآن کے لوگوں نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا۔ وہاں پہ باقاعدہ تربیت یافتہ دہشت گرد مورچہ بند ہو کے فائرنگ کر رہے تھے جبکہ یہاں نہتے لوگ تھے۔اس لئے اس واقعے کو لال مسجد کے مماثل قرار دینا کسی طور بھی جائز نہیں۔یہاں کسی کے پاس ہتھیار نہیں تھے اگر ہوتے تو کوئی ایک آدھ گلو بٹ بھی جان سے جاتا۔جبکہ لال مسجد سے باقاعدہ ریاست کے خلاف خروج کیا گیا پھر انہیں خارجی نہ کہا جائے تو کیا نام دیا جائے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت کی حکومت نے لال مسجد کے واقعہ کو بھی اپنی نا اہلی اور نالائقی سے پاکستان کی بدقسمتی کی داستان بنا دیاتھا۔ کلمہ گو کسی بھی مسلک و مشرب سے تعلق رکھتا ہو اگر باغی نہ ہو تو اس کا قتل جائز نہیں۔مسلمان کی جان تو کعبہ سے بھی محترم ہے اسلام کسی غیر مسلم کی جان تو کیا دورانِ جنگ سبز درختوں کو کاٹنے اور کھڑی فصلوں کو جلانے کی بھی اجازت نہیں دیتا۔خونِ ناحق سے بڑی بد بختی کوئی نہیں۔وہ کہیں بھی ہو اور کوئی بھی کرے۔

پاکستان میں کلہاڑے صرف آٹھ فیصد ہیں ۔جو اپنے تیز اور نوکیلے دانتوں سے عوام الناس کا خون چوس رہے ہیں باقی کے ہم سب گلو بٹ ہیں۔کوئی نواز کا گلو تو کوئی چوہدریوں کا،کوئی زرداری کا ، الطاف حسین کا تو کوئی عمران خان کا گلو،کوئی فضل الرحمن اور سمیع الحق کا گلو تو کوئی اسفند یار کا ، کوئی این جی اوز کا گلو تو کوئی امریکہ کا ،کوئی بڑے سائز کا گلو تو کوئی منی پاکٹ سائز۔ہماری اپنی نہ عقل ہے نہ سوچ۔جس طرح یہ چھرے برچھے اور کلہاڑے ہمیں ہمارے ہی بھائی بندوں پہ چلائے جاتے ہیں ہم چلے جاتے ہیں۔آپ اس سانحے کی اس حاملہ شہیدہ کو بھی بھلا دیں اور اس کی بلکتی سسکتی بیٹی بسمہ کو بھی آپ ان آٹھ شہداء کے جنازوں کو بھی روند کے گذر جائیں ۔آپ انقلاب یا تبدیلی کے دعووں کی بھی نفی کر دیں۔آپ طاہر القادری کے خلاف حکومتی پروپیگنڈے کو بھی سن لیں۔غریب ہونے کی وجہ سے جمشید دستی اور شیخ رشید کی گت بنتے بھی دیکھ لیں لیکن تعصب کی عینک اتار کے آپ صرف گلو بٹ کے روئیے پہ نظر کریں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں اور ہماری منزل کیا ہونی ہے۔کیا کوئی صحیح الدماغ شخص اس طرح کا مظاہرہ کر سکتا ہے جیسا گلو نے کیا۔افسوس یہ ہے کہ گلو اکیلا نہیں ہم سب گلو ہیں۔کیا وہ چار پولیس آفیسر گلو نہیں جو مل کے ایک نہتی خاتون کے بال نوچ رہے تھے یا وہ جو ایک ستر سالہ بوڑھے کے سر پہ لاڑھیاں مار رہے تھے یا وہ جو اس ہنگامے کے ہنگام کسی غریب کی دوکان سے کولڈ درنک لوٹ کے موج کر رہے تھے۔

یہ بات البتہ حوصلہ افزاء ہے کہ گلو اب سر بازار پٹنے لگے ہیں۔درختوں کے تنے بھلے ہی کتنے نازک کیوں نہ ہوں اب آہنی کلہاڑوں سے ٹکرانے لگے ہیں۔پاکستان ایک مقتل گاہ ہے۔اس میں روز لاشیں گرتی ہیں ۔خون خاک نشیناں رزق خاک ہوتا رہتا ہے۔آج تک لیکن کسی گلو بٹ کی یوں سر راہ دھنائی نہیں ہوئی تھی جیسی کل دیکھنے میں آئی۔اس سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ کل ان گلو بٹوں کے آقا بھی پٹیں گے انشاء اﷲ۔ پٹنے کا خوف تو ان کی رگ رگ میں سرایت کر چکا تبھی تو ظالمِ اعلی نے بجائے اپنی رعایا کی سیکیورٹی کے بارے فکرمند ہونے کے اپنی دس بارہ بیگمات اور ان کے بچوں کے لئے کور کمانڈر لاہور سے سیکیورٹی کی درخواست کی ہے۔ میں امن پسند ہوں کسی چیونٹی کو بھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا لیکن میرے سامنے ایسا کوئی موقع آیا تو میں عابد شیر علی خواجہ آصف اور چوہدری نثار کو تو معاف نہیں کروں گا جنہوں نے پوری رات کی لوڈ شیڈنگ سے میری میرے بچوں اور میرے علاقے کے لوگوں کی جان عذاب میں ڈال رکھی ہے۔خدا انہیں غارت کرے۔

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 291945 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More