پاک فوج کے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن ابتدائی
دنوں میں ہی مثبت نتائج سامنے آنے لگے ہیںاور شمالی وزیرستان میں سینکڑوں
دہشتگردوں کے مارے جانے کے بعد ملک میں جاری سیریل دہشت گردی کے تسلسل میں
خاصی کمی آئی ہے گوکہ حساس اداروں کی جانب سے آپریشن کے رد عمل کے طور پر
لاہور ‘ اسلام آباد اور کراچی سمیت دیگر بڑے شہروں میں دہشتگردانہ حملوں کے
خطرات و خدشات کی رپورٹس ارسال کی گئی ہیں مگر عوام کو قوی امید ہے کہ جس
طرح افواج پاکستان نے دہشتگردوں کو ان کے گھر میں نکیل ڈالی ہے اسی طرح وہ
وطن عزیز کے چپے چپے کو ان سے محفوظ بنانے میں بھی یقینا کامیاب رہیں گی ۔
اطلاعات کے مطابق فوج کی جانب سے نہ صرف شمالی وزیرستان اور طالبا ن کے زیر
اثر دیگر علاقوں میں دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے بلکہ
پاکستان کے بڑے شہروں میں بھی طالبان کیخلاف ٹارگٹڈ آپریشن کے ذریعے وطن
عزیز کو دہشت گردی اور بد امنی نجات دلانے کی اس حقیقی جدوجہد کا آغاز
کردیا گیا ہے جس کی افادیت و عمل پذیری سے جمہوری و حکومتی طبقات اب تک
انکار و مفر کے عادی تھے جبکہ دہشتگردی کے خاتمے کے اس عسکری عزم نے
دہشتگردوں کی کمر ہی نہیں توڑی ہے بلکہ ان کے سرپرستوں اور حامیوں کو بھی
اپنے مستقبل کے حوالے سے فکر مند کردیا ہے ۔
فوج کی جانب سے آپریشن ضرب عضب کے عوامی امنگوں کے ترجمان اقدام کے باعث
965ءکی جنگ کے بعد پہلی بار پاکستان کی سیاسی قیادت اور قوم پوری طرح اس
جنگ کو قومی جنگ سمجھتے ہوئے پاکستان کی بہادر ومسلح افواج کے ساتھ یکجہتی
کا اظہار کر رہی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی، ایم کیو
ایم،اے این پی نے ،جو پہلے ہی طالبان کے خلاف آپریشن کا مطالبہ کررہی تھیں،
آپریشن کے آغاز کا خیر مقدم کیا،جبکہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے
تحریک کی قیادت کو اعتماد میں نہ لینے کے گلہ کے ساتھ فوجی آپریشن کی مکمل
حمایت کا اعلان کیا۔ شروع میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف ” دیکھو اور
انتظار کرو“ کی پالیسی پر گامزن تھے، تاہم فوج کے دباؤاور پاکستان کے دوست
ممالک بشمول چین کے مخلصانہ مشوروں کی روشنی میں آپریشن” ضرب عضب“ کا آغاز
کیا گیاجسے آج پوری قوم کی تائید حمایت حاصل ہے بس صرف جماعت اسلامی
پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے، جو اس وقت شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن
کی مخالفت کر رہی ہے ۔خیبرپختونخوا ہ اسمبلی کے بجٹ کے موقع پر امیر جماعت
اسلامی سراج الحق نے دو ٹوک الفاظ میں اعلان کیا کہ خیبر پختونخوا حکومت
فوجی آپریشن کے فیصلے پر وفاقی حکومت کا ساتھ نہیں دے گی۔سوال یہ پیدا ہوتا
ہے کہ ایک طرف خیبر پختونخوا حکومت کی سینئر پارٹنر تحریک انصاف غیر مشروط
آپریشن کی حمایت کررہی ہے اور جونیئر پارٹنر آپریشن اور قومی منشاءکے خلاف
اب بھی مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کا درس آخر کیوں دے رہی ہے حالاکہ
مذاکرات کے نام پر دہشتگردوں کو مہلت کی فراہمی کے مضمرات کا تلخ ذائقہ
پوری قوم چکھ چکی ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ محب وطن قیادتیں اور جماعتیں سیاسی مفادات کے تحت
ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ مسجد بنانے کی بجائے صورتحال کا ادراک اور وسیع تر
قومی اتحاد و مفاد کے تحت رویئے تشکیل دیں اور یہ بات یاد رکھی جائے کہ
سابق امیر منور حسن کی شکست اور سراج الحق کی فتح کا باعث منور حسن کی جانب
سے حکیم اللہ محسود کو شہید اور افواج پاکستان کے شہداءکی شہادت دے انکار
کے ذریعے قومی امنگوں کی مخالفت تھی اسلئے قومی امنگوں کی مخالفت سے گریز
کی پالیسی ہی ہر سیاسی جماعت کو اقتدار کے میدان میں رہنے کی اجازت دے سکتی
جبکہ قومی امنگوں کی مخالفت کا فال سیاسی میدان سے رخصت کراکر باہر بھجوانے
کا سبب بن سکتا ہے ۔ دہشت گردوں کے خلاف قومی جنگ شروع ہو چکی ہے اور
وزیراعظم نواز شریف و آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اس عزم کا اظہار کررہے
ہیں کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی تو اس عزم کی تکمیل میں
ان کا ساتھ نہ دینے یا س کی مخالفت کرنے والوں کی حب الوطنی اور وطن پرستی
کو شک سے مبرا قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی قوم اپنے بچوں کے لئے پر امن و بے خوف زندگی کا
خواب دیکھ رہی ہے، جہاں بندوق نہیں، معاملات دلیل کے ذریعے حل ہوںاور اس
خواب کی تکمیل کیلئے مذاکرات کے نام پر بھٹکے ہوؤں کوواپسی اور توبہ کیلئے
جتنی مہلت دینا ممکن تھا وہ دیکر حجت تمام کرلی گئی ہے اسلئے اب آپریشن اور
جنگ شرعی اعتبار سے بھی کسی طور ناجائز قرار دنہیں دی جاسکتی ۔ قوم کو توقع
ہے کہ ضرب عضب ایک ایسا کامیاب آپریشن ہو گا، جس سے ریاست کے اندر ریاست کا
تصور ختم ہو جائے گا۔ اگرچہ یہ نتائج پہلے بھی حاصل ہو سکتے تھے، لیکن
بدقسمتی سے شمالی وزیرستان میں بعض فوجی مصلحتوں کی وجہ سے 2010ءکے آپریشن
”راہ نجات“ کو غیر معینہ مدت تک موخر کیاگیا ۔ اس وقت کی حکومت اور سابق
صدر آصف علی زرداری کے احکامات کے باوجود سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی
اس آپریشن کو ٹالتے رہے ،تاہم ضرب عضب کے آغاز سے ہی فوج سے” کیانی
ڈاکٹرائن“ کا بھی خاتمہ ہوچکا ہے ۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتاکہ افغان مہاجرین نہ صرف پاکستان کی
معیشت پر بوجھ اور اس کی ثقافت و تہذیب کیلئے بدترین خطرہ ہیں بلکہ ان کی
آبادیاں ملک میں اسلحہ و منشیات کی اسمگلنگ و فروخت میں فروغ اور دہشتگردوں
کی پناگاہوں کا کردار ادا کررہی ہیں اسلئے اب جبکہ افغانستان کے حالات پہلے
کی نسبت بہتر اور اس قابل ہوچکے ہیں کہ افغان مہاجرین واپس اپنے گھروں کو
جاسکتے ہیں تو مزید ان افغان مہاجرین کو پاکستان میں رکھنا ہمارے مستقبل
کیلئے بدترین خطرات کا باعث بن سکتا ہے اسلئے اس سلسلے میں اقوام متحدہ اور
افغان حکومت سے دو ٹوک مذاکرات کے بعد ان افغان مہاجرین کو واپس بھجوانے کا
انتظام کرنا لازم ہے ۔
آپریشن ضرب عضب کے بعد جب پوری قوم فوج کی حمایت میں یکجا و متحد ہورہی تھی
اور اپنے اتحاد ‘ یکجہتی و اعتماد کے ذریعے فوج کا مورال بڑھارہی تھی ایسے
میں اچانک پنجاب حکومت کی جانب سے لاہور ماڈل ٹاؤن میں ڈاکٹر طاہرالقادری
کے گھر اور ادارہ منہاج القرآن باہر لگی رکاوٹوں کو ہٹانے کے نام پر آپریشن
جبر کا فیصلہ اور پولیس کی جانب سے فائرنگ کے ذریعے دو خواتین سمیت 10افراد
کو ہلاک اور 80افراد کو گھائل کئے جانے کا واقعہ اتفاقی حادثہ کسی صورت
قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ اس کے پیچھے یقینا ان لوگوں کا ہاتھ اور مفادات
کارفرما ہیں جن کے دہشتگردوں اور کالعدم تنظیموں سے مراسم اب کسی سے پوشیدہ
نہیں ہیں جو ادارہ منہاج القرآن میں ریاست کیخلاف تخریب کاری کے منصوبوں کے
الزامات عائد کرکے قوم کو ایکبار پھر انتشار و نفاق کا شکار کرکے اپنے
پرانے ساتھیوں کیخلاف ہونے والے فوجی آپریشن کی بندش کے اسباب پیدا کررہے
ہیں جو اس بات کی علامت ہے کہ محض شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں کیخلاف
آپریشن سے پائیدار امن برقرار نہیں ہوگا بلکہ ملک بھر میں اس آپریشن کا
دائرہ کار وسیع کرنے اور اراکین وایوان بالا و زیریں ‘ ممبران قومی و
صوبائی اسمبلی ‘ مذہبی و سیاسی جماعتوں ‘ حکومتی و انتظامی شخصیات اور
سیکورٹی اہلکاروں میں موجودددہشتگردوں سے تعلقات اور ان سے نظریات کے حامل
افراد و شخصیات کیخلاف بھی آپریشن و تادیبی کاروائی کی ضرورت ہے ! |