چین کے عظیم رہنما ماوزئے تنگ سے جب یہ سوال کیا گیا کہ
جو لوگ آپکی مخالفت کرتے ہیں آپ اُنکو جواب کیوں نہیں دیتے، ماوزئے تنگ نے
جواب میں کہا تھا "میرئے مخالف میری جتنی چاہیں مخالفت کریں میں اپنے عوام
کےلیے کام کررہا ہوں، لہذا میرا کام دیکھ کر ہی عوام فیصلہ کرینگے، اگر
میرا کام اچھا ہوا تو میرئے مخالف کچھ حاصل نہیں کرپاینگے"۔ آج چین دنیا
میں جس صف اول کی پوزیشن میں کھڑا ہےاسکی وجہ چین کے عظیم رہنما ماوزئے تنگ
اور چین کے پہلے وزیراعظم چو این لائی کی لازوال جہدوجہد کا نتیجہ ہے جو
انہوں نے اپنی قوم کےلیے کی۔ ایک بات یاد رہے کہ چینی وزیراعظم چو این لائی
ایک صنعت کار کے بیٹے تھےمگر اُن کا کہنا تھا کہ وہ اپنے طبقے کے غدار ہیں۔
دور حاضر میں ہمارئے پاس ایک اور مثال ملیشیا کے وزیراعظم مہاتر محمد کی ہے
، مہاتر محمد بائیس سال اقتدار میں رہے۔ جمہوری انتخابات کے ذریعے منتخب ہو
کر حکمراں کے طور پر جنوب مشرقی ایشیا میں مہاتر محمد سب سے زیادہ دیر تک
اقتدار میں رہے۔ ملائیشیا کے اپوزیشن رہنما اور سابق نائب وزیراعظم انور
ابراہیم مہاتر محمد کے سب سے بڑئے مخالفوں میں شمار کیے جاتے تھے۔مہاترمحمد
پر یہ الزامات لگے کہ انہوں نے دوسرئے سیاستدانوں کو اقتدار میں آگے بڑھنے
سے روکا اور آزادی اظہار اور پریس پر پابندی لگائی۔ یہ تمام الزامات اپنی
جگہ لیکن کوئی بھی مہاتر محمد کو اُن کے مقصد سے نہیں ہٹاسکا، مہاتر محمد
بلاشک و شبہ ایک عظیم لیڈر ثابت ہوئے جنہوں نے بے شمارمسائل سے دوچار
ملیشیا کو جنوبی ایشیاء کا اقتصادی ٹائیگر بنا دیا۔ اُن کا دور حکومت یقینی
طور پر ملیشیا کےلیے کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ آج ملیشیا ہر شعبے میں ترقی
یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہے، بیشک مہاتر محمد کی شخصیت مسلم رہنماؤں کے
لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے۔
بیس جون کواسلام آباد کی ایک تقریب میں وزیراعظم نواز شریف نے قوم کو بتایا
کہ اُنہیں سیکورٹی خدشات ہیں اور سیکورٹی خدشات کی وجہ سے اُنہیں اس تقریب
میں شرکت سے روکنے کی کوشش کی گی مگر اُنہوں نےکوئی پرواہ کیے بغیر تقریب
میں شرکت کی۔ اللہ تعالی اُنکی اور اُنکے اہلخانہ کی حفاظت فرمائے۔ بقول
نواز شریف پاکستان ایک نہیں دو جنگیں لڑرہا ہے، ایک طرف ہماری افواج دہشت
گردی کے عفریت سے نبردآزما ہیں اور دوسری جانب ہم ایک تباہ حال معیشت کو
دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس بات سے کسی پاکستانی
کو انکار ہوہی نہیں سکتا کہ دہشت گردی کی وجہ سے نہ صرف ہمارئے ملک میں امن
وامان کا مسلئہ ہے بلکہ دہشت گردی ہماری معیشت کی تنزولی کی بھی ایک بڑی
وجہ ہے۔ نواز شریف جو اب وزیراعظم ہیں جس وقت اپوزیشن میں تھے تو پانچ سال
تک وہ اور اُنکی جماعت پیپلز پارٹی کی فرینڈلی اپوزیشن کاکردار ادا کرتے
رہے ۔جس پیپلز پارٹی کے وہ فرینڈلی اپوزیشن رہے آج وہ پیپلز پارٹی بھی
اُنکی فرینڈلی اپوزیشن بنی ہوئی ہے لیکن باقی جماعتیں وہی کررہی ہیں جو
اپوزیشن جماعتیں کرتی ہیں۔ نواز شریف نے تھوڑے دن پہلے سوال کیا تھا کہ یہ
دھرنے اور جلسے جلوس کیوں؟ ساتھ ہی اپنے مخالفین کو مشورہ دیا تھا کہ یہ
کام اب وہ چار سال بعد الیکشن کے وقت کریں۔ اسلام آباد کی تقریب میں نواز
شریف نے دوبارہ اس سوال اسطرح دہرایا کہ "ہم کام کرنے آئے ہیں، ہماری
ٹانگیں نہ کھینچی جائیں اورہمیں ٹک کر کام کرنے دیا جائے تو پانچ سالوں میں
پاکستان کی تقدیر بدل دیں گے۔ وزیر اعظم نے اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
کہ ہم نے پچھلے پانچ سال بڑی بردباری کے سا تھ گزارے اور صبر کا مظاہرہ
کیا، اس دوران نہ ہم سڑکوں پر آئے اور نہ ہی حکومت کے خلاف دھرنے دیئے لیکن
اب ایک پارٹی احتجاج، دوسری دھرنے اور تیسری اس نظام کو لپیٹنے اور تباہی
کی بات کرتی ہے۔نواز شریف نے سوال کیا کہ یہ سب کس لئے کیا جارہا ہے
اورحکومت جو کررہی ہے کیا وہ درست نہیں ہے؟"۔ دو مرتبہ اپنی مدت پوری نہ
کرنے والے نواز شریف کی یہ خواہش ہے کہ وہ تیسری مرتبہ اپنی پانچ سال کی
مدت لازمی پوری کریں۔ پیپلز پارٹی اُن کے ساتھ ہے، نیشنل عوامی پارٹی بھی
اُنکی مدت پوری کرنے کے حق میں ہے، ایم کیو ایم بھی اسی حق میں ہے کہ نواز
شریف حکومت اپنی مدت پوری کرئے ۔ عمران خان بھی یہ نہیں کہہ رہے کہ حکومت
اپنی مدت پوری نہ کرئے۔ رہ گے طاہرالقادری صاحب تو وہ گذشتہ سال بھی
انقلابی تھے اور اب بھی انقلابی ہیں، لیکن سترہ جون کو لاہور میں اُن کے
ادارہ منہاج القرآن کے کارکنوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ نہ صرف باعث افسوس ہے
بلکہ دھرنوں، جلسے اور جلوسوں کا سبب بھی بننے گا جس سے نواز شریف کو شکایت
ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کا سوال ہے کہ یہ دھرنے اور جلسے جلوس کیوں؟۔ نواز
شریف کے ہر صحیح اقدام سے اُنکی مخالفت میں کمی آئے گی جسکی واضح مثال دہشت
گردوں کے خلاف ہونے والا آپریشن کا فیصلہ ہے، کیا کسی نے اس فیصلے کے خلاف
کوئی جلسہ کیا، کوئی جلوس نکالا یا پھر کوئی دھرنا دیا؟۔ جواب نہیں میں ہے
لیکن دوسری طرف عمران خان ، طاہر القادری اور دوسری سیاسی اور مذہبی
جماعتیں اگر دھرنے دئے رہی ہیں، جلسے کررہی ہیں اور جلوس نکال رہی ہیں تو
اُسکی ذمیداربھی نواز شریف حکومت ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ ایک سال کی
حکومتی کارکردگی یہ ہے کہ عوام کے مسائل بڑھے ہیں، عوام جو پہلے ہی پریشان
تھےمزید پریشان ہوچکے ہیں، عام لوگوں کےلیے ضروریات زندگی کا حصول مشکل
ہوگیا ہے، کراچی سے خیبر تک امن و امان کی صورتحال مزید خراب ہوچکی ہے،
اسٹریٹ کرائم، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان ، دہشت گردی نے لوگوں کو
نفسیاتی مریض بنادیا ہےجسکی وجہ سے عوام میں مایوسی پھیلی ہے، اور یہ ہی
وجہ دھرنے، جلسے اور جلوسوں کی ہے۔ نواز شریف کو ایک بار پھر اکثریت کے
ساتھ الیکشن میں کامیابی ہوئی تو عام لوگوں کو امید ہوئی کہ اب اُنکے مسائل
ضرور حل ہونگے ۔ نواز شریف کو تیسری بار وزیر اعظم بنتے دیکھ کر ہمیں یہ
یقین ہونے لگا تھا کہ اب پاکستانی عوام کے حالات میں ضرور مثبت تبدیلی آئے
گی ، مثبت تبدیلی تو ضرور آئی لیکن شریف خاندان میں۔ اُنکے بھائی
وزیراعلیٰ، بھتیجے، بھانجے وزیر اور سمدھی وزیر خزانہ بن گے۔اُنکے ہم زلف
کا بیٹا بجلی کا وزیر بن گیا، بیٹی یوتھ لون سکیم کی چئیرپرسن بن گئی جبکہ
اُنکے کچھ قریبی دوست بھی وزیر بن گئے۔ اُن سب کے آگے پیچھے قیمتی قیمتی
گاڑیاں ہوتی ہیں اور اُن کے گھروں کے باہر سیکیورٹی ہی سیکیورٹی ہوتی ہے
لیکن عوام کیلئے اُن کے گھروں کے راستے بند ہوتے ہیں۔ اپنے وعدوں کے باوجود
حکومت قرضوں کا کشکول نہ توڑسکی بلکہ اُسکا سائز ضرور بڑا ہوگیا۔ ملک پر
قرضوں کا بوجھ ساڑھے چودہ ہزار ارب سے تجاوز کرگیا ہے۔ اگر حکمراں پاکستانی
عوام کےلیے سوچیں تو یہ بھیک کا پیالہ ٹوٹ سکتا ہے۔ لیکن صدر ممنون حسین
کہتے ہیں کہ قرضے ہمارے لئے افیون کا نشہ بن چکے ہیں اوراس افیون کی عادت
کو ختم کرنے کے لئے ہمکو مزید افیون کھانا پڑ رہی ہے۔ اگر حکومت یہ افیون
نہ کھانا چاہے اورصرف ٹیکس کا نظام ٹھیک کرلے تو شاید آئی ایم ایف کے پاس
جانے کی ضرروت نہ پڑئے مگر جہاں اسمبلی کے ممبران اور حکمران ہی ٹیکس ادا
نہ کرتے ہوں وہاں بہتری امید نہیں کی جاسکتی۔
پاکستان کی ستر فیصد کے قریب آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہی
ہے، جن کی روزانہ کی آمدنی دو سو روپے یا اُس سے کم ہے۔ملک کی اکثریت کو
پینے کا صاف پانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے ہسپتالوں کے بستر ان مریضوں سے
بھرے رہتے ہیں جو یہ پانی استمال کرتے ہیں۔ بچوں کی ایک بڑی اکثریت تعلیم
سے محروم ہے۔ شدیدگرمی کے موسم میں عوام روزانہ کم از کم دس گھنٹے سے زیادہ
بجلی سے محروم رہتے ہیں۔ ان گنت اور بھی مسائل ہیں لیکن بقول نواز شریف
"پاکستان کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لئے جدوجہد کرکے ایک پرامن ملک بنانے
کی کوشش کی جارہی ہے، ہم چاہتے ہیں پاکستان سے غیرقانونی اسلحے کو مکمل طور
پر ختم کردیا جائے اور اس پر عمل درآمد کے لئے سخت قوانین لائے جائیں تاکہ
بھتہ خوری، ڈکیتیاں، قتل و غارت اور چوری چکاری بند ہو جس کے بعد لاقانونیت
پر بھی قابو پالیں گے"۔ اگر نواز شریف واقعی یہ سب کرنا چاہتے ہیں تو پورئے
خلوص سے ان کاموں میں لگ جائیں۔ اُن کو اپنے سامنے چین کے عظیم رہنما
ماوزئے تنگ، چین کے پہلے وزیراعظم چو این لائی اورملیشیا کے سابق وزیراعظم
مہاتر محمد کی لازوال جہدوجہد کو رکھنا ہوگا اورچونکہ وہ خود بھی ایک صنعت
کار ہیں تو کیا وہ بھی پہلےچینی وزیراعظم چو این لائی کی طرح سے یہ کہنے کو
تیار ہیں کہ وہ اپنے طبقے کے غدار ہیں۔ اگر وہ یہ سب کچھ کرپاینگے تو پھر
اُنکو یہ سوال کرنے کی ضرورت نہیں پڑئے گی کہ یہ دھرنے اور جلسے جلوس
کیوں؟۔ |