بے یارومددگار متاثرین وزیرستان آپریشن

اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں جنگ یا لڑائی کے باعث جبراً نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد پانچ کروڑ تک پہنچ گئی ہے، جو دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے۔ مہاجرین کی مجموعی تعداد پانچ کروڑ بیس لاکھ ہے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 60 لاکھ زیادہ ہے۔ 63 لاکھ افراد ایسے ہیں، جو برسوںسے مہاجر ہیں۔ اگر ان میں آئی ڈی پیز یعنی اپنے ہی ملک میں بے گھر ہونے والے افراد کو شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد مزید بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان کے علاقے وزیرستان کے لوگ بھی ان دنوں اپنے ہی ملک میں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ دنوں شروع ہونے والے فوجی آپریشن ”ضرب عضب“ کے نتیجے میں وزیرستان کے لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر دربدر اور انتہائی مشکلات و کرب میں مبتلا ہیں۔ لوگوں کی مشکلات میں زیادہ اضافہ اس وجہ سے بھی ہورہا ہے کہ اس آپریشن کی ابتدا ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے، جب ملک تیرا سال کے بعد شدیدگرمی کی لپیٹ میں ہے، جان لیوا گرمی میں اب تک بہت سے لوگ اپنی جان گنوا چکے ہیں اور اس کے ساتھ ہی کچھ روز کے بعد رمضان المبارک کی بھی آمد آمد ہے، سخت گرمی اور دربدری کی حالت میں متاثرین کے لیے رمضان المبارک گزارنا نہ صرف مشکل، بلکہ انتہائی تکلیف دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ وزیرستان کے لوگ اپنے گھربار اور مال مویشی کو چھوڑ چھاڑ کر گزشتہ ایک ماہ سے مسلسل نقل مکانی کررہے ہیں۔ آپریشن میں فوج کی جانب سے کرفیو میں پہلی مرتبہ تین دن کی نرمی ملنے کے بعد نقل مکانی کے اس سلسلے میں مزید تیزی آگئی۔ کرفیو میں نرمی کی ڈیڈ لائن جمعہ کے روز ختم ہوئی ہے، جبکہ کرفیو میں نرمی ہوتے ہی میرعلی کے علاقے سے سیکڑوں خاندانوں نے محفوظ مقامات کی جانب رخ کیا۔ کرفیو میں نرمی کے دنوں میں بنوں، میران شاہ سڑک متاثرین کی گاڑیوں کے رش کے باعث کسی جلوس کا منظر پیش کرتی رہی اور اس دوران نقل مکانی کرنے والے افراد ٹرکوں، ٹریکٹروں، ہائی ایس گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر خواتین اور بچوں سمیت قافلوں کی صورت میں وقفے وقفے سے بنوں پہنچتے رہے۔ بنوں میران شاہ روڈ ٹریفک کے لیے بند ہے، تاہم نقل مکانی کے باعث صرف آمدورفت کے لیے کھولا گیا ہے۔ نقل مکانی کرنے والے افراد کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ ہمیں مزید دس روز اور دیے جائیں، تاکہ باآسانی محفوظ مقام پر منتقل ہوسکیں۔ کرفیو میں نرمی کے دوسرے روز تک نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ 71ہزار تھی، شمالی وزیرستان میں کرفیو میں نرمی کے بعد صرف چوبیس گھنٹوں میں ایک لاکھ نو ہزار چار سو چھیاسی افراد نے شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کی، نقل مکانی کرنے والوں میں 38 ہزار خواتین، جبکہ 55 ہزار آٹھ سو چھیاسی مرد اور 45 ہزار پانچ سو بچے شامل تھے۔ شمالی وزیرستان میں تیسرے روز بھی نقل مکانی کا سلسلہ جاری رہا۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ صرف چھ روز میں سوا دو لاکھ سے زاید افراد نے وزیرستان سے نقل مکانی کی ہے، جن میں بچوں اور خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ بہت سے متاثرین اپنے مال مویشی کے ہمراہ نقل مکانی کرتے رہے۔ آپریشن کے مارے ہوئے کئی قبائلی جگہ نہ ہونے کے باعث گاڑیوں کی چھتوںپر بھی سفر کرتے رہے۔ میرعلی کے ایک رہائشی کے مطابق آپریشن کی وجہ سے زیادہ تر علاقوں میں عام شہریوں کے مکانات نشانہ بنے ہیں اور ان کا کافی زیادہ نقصان بھی ہوا ہے۔ کرفیو کے دوران قیامت جیسا منظر تھا، تمام بازار اور تجارتی مراکز بند رہے، جس کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیا اور ادویات کی شدید قلت رہی۔ اس سے بہتر تھا کہ ایک ہی وقت میں سارے وزیرستان پر ایٹم بم گرایا جاتا اور اس طرح قصہ ہی ختم ہو جاتا اور حکومت کی خواہش بھی پوری ہو جاتی۔ ذرائع کے مطابق شمالی وزیرستان کے علاقے میرعلی، میرانشاہ اور گردو نواح میں محسود قبیلے کے بیس سے پچیس ہزار افراد محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔ داوڑ وزیرقبائل کے ٹرانسپورٹرز ترجیحی بنیادوں پر اپنے قبیلے کے لوگوں کو علاقے سے نکالنے میں مشغول رہے، جبکہ سرکاری گاڑیوں کے ڈرائیوروں نے متاثرین کو اپنا سامان بھی ساتھ لے جانے سے انکار کردیا۔ دوسری جانب ٹرانسپورٹروں نے کرایوں میں کئی گنا اضافہ بھی کردیا۔ عام حالات میں میر علی اور میرانشاہ سے بنوں کے لیے ڈاٹسن پک اپ کا کرایہ چھ سے آٹھ ہزار روپے ہوتا ہے، جو اب چالیس سے پچاس ہزار روپے وصول کیا جارہا ہے۔ بیشتر متاثرین اس کی سکت نہیں رکھتے،اس لیے بڑی تعداد پیدل اور خچروں پر سامان منتقل کرنے پر مجبور ہے۔
اگرچہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک کا دعویٰ ہے کہ آپریشن کے نتیجے میں نقل مکانی کرنے والوں کے لیے انتظامات مکمل کر دیے گئے ہیں ۔ آئی ڈی پیز وفاق کا مسئلہ ہے، پھر بھی ہم نے ان کے لیے 35 کروڑ روپے رکھے ہیں۔ خیبر پختونخواہ کے گورنر مہتاب احمد خان کے مطابق تمام متعلقہ اداروں کو نقل مکانی کر کے آنے والوں کے لیے عارضی رہائش اور دیگر ضروریات مہیا کرنے کے اقدامات کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ وفاقی حکومت کے عہدیدار بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی ہر ممکن مدد اور انھیں زندگی کی بنیادی ضروریات مہیا کی جائیں گی،جبکہ دوسری جانب میرعلی سے بے گھر ہونے والے اکثریتی قبائلی خاندان بنوں، کرک، کوہاٹ، ڈیرہ اسمٰعیل خان اور ملک کے دیگر شہروں کا رخ کر رہے ہیں، جہاں وہ اپنے طور پر کرائے کے مکانات، رشتہ داروں اور دوستوں عزیزوں کے ہاں پناہ لینے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے گل نعیم وزیر کا کہنا ہے کہ بنوں کے قریب ایک کیمپ بنایا گیا ہے، جہاں دس پندرہ خیمے لگائے گئے ہیں، لیکن اس میں کوئی بھی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے زیادہ تر لوگوں کو کرائے کے گھر حاصل کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ سرکاری سرپرستی میں ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں میں بنائے گئے کیمپوں میں قبائلی روایات، سہولیات کے فقدان اور شدید گرمی کی وجہ سے لوگ یہاں رہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ نہ یہاں بجلی ہے اور نہ ہی پانی ہے، یہاں تک کہ بیت الخلا کا انتظام نہیں ہے۔ اس سخت گرمی میں ان ضروری چیزوں کے بغیر کس طرح گزارہ ہوسکتا ہے۔ لوگوں کو بہت مشکلات کا سامنا ہے۔ مقامی صحافیوں کے مطابق شمالی وزیرستان سے بنوں تک تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر محیط سڑک پر حکومت کی طرف سے متاثرین کے لیے کسی قسم کا کوئی ریلیف کیمپ یا فوڈ پوائنٹ نظر نہیں آیا۔ تاہم بنوں میران شاہ سڑک پر بعض مذہبی جماعتوں اور مقامی افراد کی طرف سے بعض مقامات پر چھوٹے چھوٹے کیمپ بنائے گئے ہیں، جہاں بے گھر افراد کے لیے شربت اور ٹھنڈے پانی کا انتظام کیا گیا ہے۔ شمالی وزیرستان سے بے گھر ہونے والے افراد کے لیے نیم خود مختار قبائلی ایف آر بکاخیل کے علاقے میں ایک متاثرین کیمپ قائم کیا گیا ہے، تاہم سہولیات کی کمی کے باعث وہاں ابھی تک کوئی متاثرہ خاندان نہیں جا سکا ہے۔ اس کیمپ تک ابھی تک میڈیا کو بھی رسائی نہیں دی گئی ہے۔ جس علاقے میں کیمپ بنایا گیا ہے، وہ علاقہ سانپ اور بچھوؤں کے لیے مشہور ہے، اس وجہ سے وہاں کوئی نہیں جائے گا اور نہ وہاں سہولیات مہیا کی گئی ہیں۔ ضلع بنوں کی حدود میں حکومت کی جانب سے تاحال متاثرین کے رہنے کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا ہے۔ کیمپوں میں صرف وہی لوگ جائیں گے جو کہ گھروں کے کرائے دینے کی استطاعت نہیں رکھتے یا پھر انھیں شہری علاقوں میں جگہ نہیں ملی۔

دوسری جانب خیبرپختونخوا حکومت نے صوبے میں امن وامان کی صورتحال اور آئی ڈی پیز کے انتظامات پر آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ کرلیا، جبکہ حکومت بلوچستان نے صوبے کے داخلی و خارجی راستوں پر ایف سی کی اضافی نفری تعینات کردی ہے، تاکہ پاک فوج کی جانب سے آپریشن سے متاثرہ علاقے شمالی وزیرستان سے نقلِ مکانی کرنے والے افراد کو صوبہ میں داخل ہونے سے روکا جاسکے۔ یہ فیصلہ وزیراعلیٰ کی زیر صدارت اجلاس میں کیا گیا ہے۔ مبصرین کے مطابق وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے لوگ ان دنوں انتہائی سخت مشکلات کا شکار ہیں، ان کے ساتھ تعاون کرنا وفاق اور تمام صوبوں کی ذمہ داری ہے۔جبکہ وفاق کے پی کے پر ذمہ داری ڈال رہا ہے جبکہ کے پی کے کا کہنا ہے یہ ذمہ داری وفاق کی ہے۔ وزیرستان میں سب لوگ تو عسکریت پسند نہیں ہیں، وہاں کی اکثریت امن پسند ہے، لیکن اس کے باوجود آپریشن کی وجہ سے نقل مکانی کی وجہ سے لاکھوں لوگ سخت گرمی میں ایک طرف تو دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں اور دوسری جانب حکومت ان کی سہولت کے لیے کوئی اقدامات نہیں کر رہی ہے، متاثرین آپریشن میں بہت سے لوگ اپنے علاقوں میں معزز لوگ بھی ہیں، لیکن نقل مکانی کی وجہ سے انہیں انتہائی زیادہ خواری اٹھانا پڑتی ہے، باپردہ عورتیں اور معصوم بچے بھی اس خواری کا شکار ہوتے ہیں، ان تمام مسائل کے حل کے لیے بہت اقدامات کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے،لیکن نہ تو حکومت ہی اقدامات کررہی ہے اور نہ ہی وہ سیاستدان اس حوالے سے آواز اٹھا رہے ہیں جن کی سیاست کا دارومدار روز اول سے ہی وزیرستان آپریشن کی مخالفت پر رہا ہے۔ بلوچستان وغیرہ میں ان کے داخلے پر اسی طرح پابندی لگادی گئی ہے، جس طرح گزشتہ سالوں میں سندھ میں مہاجرین سوات کے داخلے پر پابندی لگا کران کے خیمے اکھاڑ دیے گئے تھے۔ اس سے نقل مکانی کرنے والوں میں احساس محرومی بڑھے گا کہ وہ اپنے ملک میں ہی دربدر ہوکر رہ گئے ہیں۔حکومت نے آپریشن تو شروع کردیا ہے، اب آپریشن سے متاثرین کے مسائل بھی کرے، یہ اسی کی ذمہ داری ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701667 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.