ریزرویشن اور ہندوستانی مسلمان

مہاراشٹر کے مسلمانوں کے تعلق سے یہ خوش کن خبر آئی کہ مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کا عمل شروع ہوچکا ہے ۔ اب امید یہ کی جاسکتی ہے کہ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی بڑھے گی اور سیاسی میدان میں بھی ان کا گراف بڑھے گا ۔مہاراشٹر کے وزیر برائے اقلیتی امور محمد عارف نسیم خان کی کوشش کامیا ب ہوئی ،واقعی ان کا یہ قدم مستحسن ہے ۔ مراٹھا ریزرویشن کا معاملہ بھی مہاراشٹر میں ایک اہم معاملہ تھا ، لہذا مراٹھیوں کو 20فیصد ریزرویشن دے دیا گیا ۔اس قدم کے بعد اب مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کا عمل شروع کیا گیا ۔

مسلمانوں کے تعلق سے ہندوستانی سیاست میں ایک اہم موضوع ’مسلم ریزرویشن ‘بھی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انتخاب خواہ ریاستی ہو کہ عام الیکشن کسی نہ کسی سطح پر اس مسئلہ کو اچھال کر تمام سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو لبھانے کی کوشش کرتی ہیں ، بارہا ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کو اس مسئلہ پر نرمی دکھانے سے فائدہ بھی ہوا ہے ۔مثلاً،2012میں اسمبلی الیکشن سے قبل ملائم سنگھ یادو نے مسلمانوں سے دو بڑے وعدے کیے تھے ۔ اولا ، بے قصور مسلم نوجوانوں کی رہائی ۔ دوم، مسلمانوں کو 18فیصد ریزرویشن ۔ رہائی کے تعلق سے ریاستی حکومت نے کچھ قدم اٹھانے کی کوشش بھی کی ، مگر قانونی اڑچنوں کی وجہ سے اسے کامیابی نہیں مل سکی اور ہائی کورٹ نے حکومت کی عرضی مسترد کردی ۔ رہی بات ریزرویشن کی کہ اس کے تعلق سے حکومت نے ذرا بھی کو شش نہیں کی ، کوئی بھی بات چیت نہیں ہوئی مسلمانوں کے ریزرویشن پر ، مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ان دونوں وعدوں کا فائدہ ایس پی کو یوپی الیکشن میں بہت ہوا ۔ یوپی الیکشن سے پہلے اس وقت میں مرکز میں برسراقتدار پارٹی کانگریس نے بھی مسلمانوں سے ساڑھے چار فیصد ریزرویشن کا وعدہ کیا ، مگر مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن کے معاملے کو لے کر سپریم کورٹ میں عرضی داخل کردی گئی ۔ مسلمان کو ریزرویشن ملنا نہیں تھا اور ملا بھی نہیں ۔
ہندوستان کا آئین جمہوریت کو مد نظر
رکھ کر تیار کیا گیا ہے ۔ بیشتر آرٹیکل سے جمہوریت کی ترجمانی نظر آتی ہے ، مگر چند ایک شق ایسی بھی ہے جس کی بنیاد پر ذات برادری کی تفریق ہوجاتی ہے ۔آرٹیکل341 کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے ، جس میں کچھ ایسی شرائط بھی لگادی گئی ہے ، جس سے جمہوریت کسی نہ کسی سطح پر مجروح ہوتی نظر آتی ہے ۔ کانسی ٹیوشن (شیڈول کاسٹ )آرڈر 1950کے پیرا 3میں یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ آرٹیکل 341کا فائدہ صرف اور صرف ہندو ، سکھ اور بودھ کو ہی دیاجائے گا ۔ اس طرح ہندوستانی مسلمان اور عیسائی اس دائرہ سے الگ ہوگئے۔یہی وہ آرٹیکل ہے ، جس پر مسلم ریزرویشن کی سیاست قائم ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ ملازمت سے لے کر سیاست تک مسلمانوں کی نمائندگی کم کرنے میں اسی آرٹیکل کا کردار ہے ۔ اگر مسلمانوں کو ریزرویشن مل جائے تو اسمبلی سے لے کر پارلیمنٹ تک مسلمانوں کی نمائندگی بڑھے گی ۔

آرٹیکل 341میں مذہب کی پابندی کی وجہ سے ہی مسلمانوں کے کمزور طبقہ کو ان نشستوں پر الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں مل پاتی ہے ،جو ریزور ہوتی ہیں ، حالانکہ اسی حلقہ سے مسلمان اور عیسائی کے علاوہ ہندو، سکھ اور بودھ کے چھوٹے طبقے کے افراد بآسانی سے قسمت آزمائی کرتے ہیں اور کامیابی بھی حاصل کرلیتے ہیں ۔ ظاہر ہے اس وقت تک پارلیمنٹ میں مسلمانو ں کی نمائندگی نہیں بڑھ سکتی ہے ، جب تک کہ آرٹیکل341سے مذہبی پابندی ہٹانہ دی جائے ۔

مسلم ریزرویشن پر جہاں ملک کاآئین تضاد پیدا کررہا ہے ، وہیں سیاسی پارٹیوں کے ساتھ خود مسلمان بھی باہم متفق نہیں ہے ۔ مسلمانوں کا ایک طبقہ اس بات کا علمبر دار ہے کہ مسلمانوں کو ریزرویشن ملنا چاہئے تو دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ ریزرویشن مسلمانو ں کے لیے کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے ۔ چاہے ریزرویشن ملے یا نہ ملے مسلمانوں کی تقدیر نہیں بدل سکتی ہے ۔یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ آرٹیکل 341پر سے مذہبی پابندی ہٹانے کے لیے کئی دفعہ مسلم تنظیموں اور اداروں کی جانب سے آواز اٹھائی گئی ، مگر ہر بار نتیجہ نکلا ڈھاگ کے تین پات !وجہ ظاہر ہے کہ متفقہ طور پر کبھی کوشش نہیں ہوئی ۔ مسلمانوں کے اسی انتشار اور ریزرویشن کے مطالبے میں پائی جانے والی نرمی کی وجہ سے انہیں کبھی کامیابی نہیں مل پاتی ہے ۔اس موقع پر یہ شعر صاد ق آتا ہے ؂
اس طرح تو اپنا حق ملنے سے رہا انجم
چہرا بھی سوالی ہے ، لہجہ بھی سوالی ہے

اگر ریزرویشن واقعی مسلمانوں کے حالات بدلنے میں معاون ہوسکتا ہے تو مسلمانوں کو متفقہ طور پر کوشش کرنی چاہئے ۔ ماضی گواہ ہے کہ ہندوستان کے کئی آرٹیکل میں وقت ضرورت پڑنے پر تبدیلی ہوئی ۔اگر واقعی نیک نیتی سے مسلمان آرٹیکل 341پر سے پابندی ہٹانے کی کوشش کرے تو کوئی بعید نہیں کہ انہیں بھی کامیابی مل جائے ۔ آپ کو بھی یاد ہوگا کہ مراٹھیوں اورگجروں نے ریزرویشن کے حصول کے لیے کس طرح متفقہ طور پر کوشش کی اور وہ ریزرویشن حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوئے ۔ مسلمانوں کو بھی متفقہ طور پر کوشش کرنی پڑے گی ، دبے لفظوں میں چلانے اور ٹو لیوں میں بٹ بٹ کر مطالبہ کرنے سے حق نہیں مل سکتا ہے ۔ متفقہ طور پر ریزرویشن مانگنے کی نہیں بلکہ اب چھینے کی ضرورت ہے ۔
یہ بزم مے ہے ، یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھالے ہاتھ میں مینا اسے کا ہے

مہاراشٹر میں مسلمانوں کو ریزرویشن ملنے کے آغاز کے بعد اب یہ دیکھنے کی بات ہوگی کہ مسلمان کس حد مستفید ہوتے ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دلچسپ بات ہوگی کہ ریاستی حکومتیں مہاراشٹر حکومت سے کس طرح سبق لیتی ہیں اور متفقہ طور پر کب مسلمان آرٹیکل 341پر سے مذہبی پابندی ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 91971 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More