اتنا ظلم، توبہ!!

اب تو شیخ رشید کو سیاسی گروہ تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔ وہ شروع سے کہتے آرہے ہیں کہ نوازشریف حکومت کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں بلکہ وہ خود اپنے لیے خطرہ ہے۔ عام طور پر تجزیہ کاروں کا یہ خیال تھا کہ شمالی وزیرستان آپریشن نے اپوزیشن کی احتجاجی تحریکوں کو بہت حد تک ٹھنڈا کردیا ہے۔ اپنے گزشتہ کالم میں اس پر تفصیلی بات کی تھی، مگر شاید حکومت خود ہی سکون سے نہیں رہنا چاہتی، اسی لیے اس نے لاہور میں 11لاشیں گراکر طاہرالقادری کے پنکچر انقلاب میں ہوا بھردی ہے۔ دوسری طرف عمران خان اور شیخ رشید بھی جو لمبی تان کر سونے ہی والے تھے، انہیں بھی جھنجوڑ کر اٹھادیا گیا ہے۔

اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان میں طاہرالقادری کے مخالفین کی تعداد حامیوں سے درجنوں گنا زیادہ ہے۔ قادری صاحب کی باتیں بہت میٹھی ہیں اور ان میں سے بیش تر سو فیصد درست بھی ہیں، لیکن ان کی شخصیت میں اتنے جھول ہیں کہ کوئی بھی معقول شخص ان کے پیچھے چلنے کا رسک نہیں لے سکتا۔ وہ جس طرح کے انقلاب کی بات کرتے ہیں، وہ ضرور آنا چاہیے مگر اس کے لیے فی الحال میدان تیار ہے اور نہ ہی ان کی تنازعات سے بھری شخصیت امام انقلاب کے معیار پر پوری اترتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بے وقت کی راگنی کو سنجیدہ حلقوں نے خطرناک قرار دیا ہے، یہ سب باتیں اپنی جگہ ٹھیک ہیں لیکن اس سب کچھ کے باوجود طاہرالقادری کے کارکنان کے ساتھ لاہور میں جو سلوک کیا گیا وہ کھلا ظلم ہے۔ ریاستی غنڈہ گردی کے اس مظاہرے نے پہلے سے سیاہ جمہوریت کو مزید بھیانک بنادیا ہے۔کسی شخص یا گروہ سے اختلاف کا مطلب یہ تو نہیں کہ اسے گولیوں سے چھلنی کردیا جائے، ہاتھ پاؤں توڑ اور سرپھاڑ دیے جائیں، خواتین اور بوڑھوں کی پیٹھوں پر بھی ڈنڈے برسائے جائیں۔

حکومت کا یہ موقف کتنا بودا ہے کہ پولیس تو محض تجاوزات ہٹانے گئی تھی، طاہرالقادری کے کارکنان کی مزاحمت کی وجہ سے بات خراب ہوئی۔ اس معاملے میں حکومت کی بدنیتی اور انتقامی جذبہ صاف طور پر نظر آرہا ہے۔ آخر ایسی کیا ایمرجنسی ہوگئی تھی جو کئی تھانوں کی نفری پر مشتمل لشکر رات کے 2 بجے طاہرالقادری کی رہائش کے اطراف کی سڑکیں کھلوانے حملہ آور ہوا۔ چلیے، اگر پورے شہر میں تجاوزات کے خلاف آپریشن چل رہا ہوتا تو مان بھی لیتے کہ قادری صاحب اس آپریشن کی زد میں آگئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پورا لاہور تجاوزات سے بھرا پڑا ہے، اسی ماڈل ٹاؤن میں جہاں خونی کھیل کھیلا گیا، میاں صاحبان کی کوٹھیوں کے اطراف کی سڑکیں مدتوں سے بند پڑی ہیں، وہاں بھی قدم قدم پر ناکے لگے ہوئے ہیں، پولیس کے سورما اس طرف کیوں نہیں گئے؟ صرف لاہور ہی کیا، پورے ملک میں بیرئیر لگاکر سڑکیں بند کرنے کا کلچر عام ہے۔ کوئی وزیر، مشیر، ساہوکار اور جماعت اس سے مستثنیٰ نہیں، سب کو چھوڑکر صرف طاہرالقادری کو نشانہ بنانا انتقامی کارروائی نہیں ہے تو پھر آپ ہی بتائیے اسے کیا نام دیا جائے؟

دوسری بات، حکومت کہتی ہے کہ پولیس پر پتھراؤ ہوا جس کا جواب دیا گیا۔ اچھا بھئی، کیا میاں برادران نے کوئی نیا ’’جمہوری فارمولا‘‘ متعارف کرایا ہے کہ جو احتجاج کرے گا ،اس پر گولی چلے گی۔ حکومت یہ تاثر دینے کی بھی کوشش کررہی ہے کہ فائرنگ دونوں طرف سے ہوئی ہے، میڈیا گھنٹوں لائیو کوریج کرتا رہا ، اس میں کوئی ایک فوٹیج بھی ایسا نہیں جس میں کسی کارکن کے ہاتھ میں اسلحہ نظر آرہا ہو۔ ہاں فوٹیج میں گلوبٹ ضرور نظر آرہا ہے، ن لیگ کا یہ ’’شیرلاہور‘‘ ڈنڈا اٹھاکر پولیس کی قیادت کرتا رہا، اس طرح کے کئی اور غنڈے بھی پولیس ساتھ لے کر آئی تھی۔ یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ تجاوزات تو باہر سڑکوں پر تھیں، پولیس نے طاہرالقادری کے گھر اور دفتر میں گھس کر گولیاں کیوں چلائیں؟ اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ پولیس کا اصل مشن کیا تھا۔

بہرحال، حکومت کو داد دینی چاہیے کہ اس نے فوری طور پر ایک رکنی عدالتی کمیشن تشکیل دے دیا ہے، جو واقعات کی تحقیقات کرکے ملوث ملزمان کی نشاندہی کرے گا۔ اگلے پندرہ، بیس سال میں کمیشن کی رپورٹ آہی جائے گی اور ملزمان کو ’’قرار واقعی‘‘ سزا بھی مل جائے گی۔ آخر اتنی جلدی کی بھی کیا ضرورت ہے؟ عوام کو صبر سے کام لینا چاہیے، صرف 11لوگ ہی تو مرے ہیں اور یہی کوئی 85 لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ افسوس ہے، حکومت اتنے المناک واقعہ کے بعد بھی مخول کررہی ہے۔ خادم اعلیٰ تحقیقاتی کمیشن اور دو، چار پولیس افسران کو معطل کرکے اپنی ذمہ داری پوری کرچکے ہیں۔ یہ تو سیدھا سیدھا مذاق ہے، طاہرالقادری کے 3 ہزار کارکنان کے خلاف ایف آئی آر کاٹ دی گئی ہے جبکہ مقتولین کے ورثاء کو کہا جارہا ہے کہ تمہاری ایف آئی آر تحقیقات مکمل ہونے کے بعد درج ہوگی۔

طاہرالقادری 23 جون کو انقلاب کی قیادت کے لیے کینیڈا سے پاکستان آرہے ہیں۔ حکومت مخوا ہ مخوا ان سے خوفزدہ ہوگئی ہے، انتقامی کارروائی کے پیچھے بھی دراصل قادری فوبیا ہے۔ میاں برادران اس فوبیا کا باآسانی سیاسی علاج کرسکتے تھے، سیاسی اور مذہبی قوتوں کو اپنے ساتھ ملاکر مسٹر کینیڈوی کو دو، چار شو دکھانے کے بعد دوبارہ کینیڈا جانے پر مجبور کرنا کوئی بہت مشکل کام نہیں تھا، حکومت نے بلاوجہ طاہرالقادری کو طاقت کا انجکشن لگادیا، سمجھ نہیں آتا کیا میاں صاحبان اپنی حکومت کو اتنا کمزور سمجھتے ہیں جو قادری صاحب کے دو، چار جلسوں سے ہی دھڑام ہوجائے گی۔

میاں صاحبان ابھی تک ماضی سے نہیں نکل پائے ہیں، وہ آج بھی لاٹھی اور گولی سے معاملات حل کرنے کی خطرناک کوشش کررہے ہیں۔ مخالفین کے حوالے سے میاں برادران کا ریکارڈ خاصا خراب ہے، وہ مخالفین کے لیے ہمیشہ ڈنڈا تیار رکھتے ہیں، واجپائی کے لاہور آنے کا منظر مجھے آج بھی یاد ہے، اس موقع پر جماعت اسلامی نے قاضی حسین احمد کی قیادت میں احتجاج کیا تھا، نوازشریف نے جماعتوں کو اسی طرح پٹوایا تھا جس طرح منظر چند روز قبل لاہور میں دیکھا گیا۔ قاضی صاحب جس عمارت میں موجود تھے، اس پر اتنی شیلنگ کی گئی کہ ان کا براحال ہوگیا، حتیٰ کہ انتقال تک کی افواہیں پھیل گئی تھیں۔ جماعت اسلامی نے اس واقعہ کے خلاف بڑی تحریک چلائی تھی جس میں پولیس تشدد کی ویڈیو بھی دکھائی جاتی تھی، جماعتی احباب اسے دیکھ کر شام غریباں کی طرح رویا کرتے تھے۔ شاید ہی کوئی ایسا سیاسی مخالف ہو جو میاں صاحبان کے انتقام کا نشانہ نہ بناہو۔ شہبازشریف پر تو مخالفین کو پولیس مقابلے میں مروانے کے مقدمات چلتے رہے ہیں۔ پنجاب میں سپاہ صحابہ ایک عرصہ تک ان بھائیوں کے نشانے پر رہی ہے، اس جماعت کی قیادت اور کارکنان کے ساتھ جو ظلم ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ میاں برادران اس سے انکار نہیں کرسکتے۔ ڈاکٹر، کلرک، اساتذہ ہر صوبے میں مظاہرے کرتے ہیں لیکن پنجاب وہ واحد صوبہ ہے جہاں پولیس کے ذریعے ان کی کٹ لگوائی جاتی ہے۔ دنیا بدل رہی ہے، نہ جانے میاں صاحبان کب بدلیں گے؟
munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 101974 views i am a working journalist ,.. View More