آپریشن ضربِ عضب

پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ضربِ عضب کے نام سے فوجی کارروائی پوری آب و تاب سے جاری ہے،آخری اطلاعات تک اڑھائی سو کے قریب دہشتگرد ہلاک ہوچکے ہیں،جن میں زیادہ تعداد غیرملکیوں کی ہے،اس فوجی کارروائی میں تاحال بڑے پیمانے پر زمینی حملہ شروع نہیں کیا گیا، اور دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو زیادہ تر جیٹ طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں سے نشانہ بنایا جا رہا ہے،پاکستان کے بڑوں کی ملاقاتیں بھی جاری ہیں،یہ آپریشن کب اپنے انجام کو پنچے گا؟ فوجی حکام کی جانب سے اس بارے ابھی تک کوئی اشارہ نہیں ملا،تاہم کامیابی تک جاری رکھنے کا عزم کیا گیا ہے۔فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے مطابق آپریشن ضربِ عضب کے دوران فوج کے کوبرا ہیلی کاپٹرز اور دیگر جدید مشینری استعمال کی جارہی ہے،دوسری جانب ایک عرصہ بعد امریکہ کی جانب سے پاکستانی حدود میں ڈرون حملے کیے گئے جسے دفتر خارجہ نے آپریشن ضرب عضب سے جوڑنے سے انکار کرتے ہوئے مذمت کی ہے،آپریش ضرب عضب میں سب سے زیادہ مقامی آبادی متاثر ہو رہی ہے،شمالی وزیرستان میں آپریشن سے بے گھر ہونے والے افراد کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کاروائیاں کی ابتدا ایسے وقت میں کی گئی ہے جب ملک کے زیادہ تر علاقے شدیدگرمی کی لپیٹ میں ہیں۔ رمضان کی بھی آمد آمد ہے جس سے آنے والے دنوں میں متاثرین کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔علاقہ چھوڑنے والے سینکڑوں خاندانوں نے محفوظ مقامات کی جانب رخ کیاہے ،پولیٹیکل انتظامیہ کے مطابق مقامی افراد کو علاقے سے نکالنے کے لیے مرحلہ وار پروگرام ترتیب دیا گیا ہے جس کے تحت مختلف مقامات سے لوگوں کا انخلا مکمل کرایا جائے گا،بنوں میران شاہ سڑک متاثرین کی گاڑیوں کے رش کے باعث کسی جلوس کا منظر پیش کررہی ہے، متاثرین ٹرکوں، ٹریکٹروں، ہائی ایس گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر خواتین اور بچوں سمیت قافلوں کی صورت میں وقفے وقفے سے بنوں پہنچ رہے ہیں،کئی افراد گاڑیوں کی عدم دستیابی یا غربت کی وجہ سے پیدل وزیرستان سے قریبی علاقوں میں منتقل ہوئے اور ان کے ہمراہ بچے اور خواتین بھی تھیں، پیاس اور تھکن کی وجہ سے گاڑیوں میں سفر کرنے والے ننھے منے متاثرین بچوں کے چہروں پر پریشانی اور مایوسی کے آثار بھی نمایاں تھے،یہ مایوسی افریقہ کے بھوکے بچوں سے ملتی جلتی ہے،کہیں فضاء سے بارود برسانے والوں کیلئے ہم نفرت تو نہیں پیدا کررہے؟۔۔آپریشن زدہ علاقے سے ہجرت کرنے والوں نے عالمی میڈیا کو بتایا کہ کوئی حقیقت نہیں کہ آپریشن کا مرکزی ہدف صرف غیر ملکی اور طالبان شدت پسند ہیں۔ زیادہ تر علاقوں میں عام شہریوں کے مکانات بھی نشانہ بنے ہیں اور ان کے کافی نقصانات بھی ہو چکے ہیں۔ بہتر تھا کہ ایک ہی وقت میں سارے وزیرستان پر ایٹم بم گرایا جاتا اور اس طرح قصہ ہی ختم ہو جاتا اور حکومت کی خواہش بھی پوری ہو جاتی،شمالی وزیرستان سے بنوں تک تقریباً 40 کلومیٹر کے فاصلے پر محیط سڑک پر حکومت کی طرف سے متاثرین کے لیے کسی قسم کا کوئی ریلیف کیمپ یا فوڈ پوائنٹ نہیں لگایا گیا تاہم بنوں میران شاہ سڑک پر الخدمت فاونڈیشن اور مقامی افراد کی طرف سے بعض مقامات پر چھوٹے چھوٹے کیمپ بنائے گئے ہیں جہاں بے گھر افراد کے لیے شربت اور ٹھنڈے پانی کا انتظام کیا گیا ہے۔یہ ایجنسی غیر ملکیوں کیلئے جنت رہی ہے،یہ نہ بہت بڑی اور نہ ہی انتہائی چھوٹی ہے۔ اس کے جنوب میں جنوبی وزیرستان، شمال میں کرم ایجنسی اور خیبر پختونخوا کے ہنگو کرک اور بنوں کے علاقے واقع ہیں۔ شمالی وزیرستان چار ہزار مربع میل پر محیط پہاڑی علاقہ ہے جہاں مختلف قبائل صدیوں سے آباد ہیں، تین بڑی وجوہات علاقے کا نسبتا آسان جغرافیہ، شدت پسندوں اور حکومت کے درمیان سنہ 2008 کا امن معاہدہ اور سب سے اہم حافظ گل بہادر کی شخصیت رہی ہے۔حالات کس رخ کی جانب جاتے ہیں، کون جیتتا ہے؟کون ہارتا ہے؟اس آپریشن سے ایک بات واضع ہوگئی ہے کہ بات چیت کی گنجائش نہیں رہی،اب فیصلہ بارود کی بو،بندوق کی گولی،ٹینکوں کی گڑ گڑاہٹ ہی کرے گی،افسوسٖ! امن ہار گیا!!!
 
Azhar Thiraj
About the Author: Azhar Thiraj Read More Articles by Azhar Thiraj: 77 Articles with 68393 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.