عورتوں کا قتل عام
(mohsin shaikh, hyd sindh)
چند روز قبل لاہور کے علاقے ماڈل
ٹائون میں جو کچھ ہوا پوری قوم یہ مناظر میڈیا پر دیکھ رہی ہیں لاہور ماڈل
ٹائون میں پنجاب پولیس نے عوامی تحریک کے کارکنان کو ظلم بربریت کا نشانہ
بنا کر ظلم کی ایک نئی تاریخ رقم کردی، علامہ طاہرالقادری نے 23 جون کو وطن
واپسی کا اعلان کیا ہے ابھی تو وہ وطن آئے بھی نہیں کہ پنجاب پولیس نے
لاہور کو لہو لہان کردیا اب تو انہیں ضرور آنا پڑے گا ان کی آمد سے قبل ہی
خونی سیاست کا بازار گرم کردیا، حکومتی محاذ آرائی غیر دانشمندانہ آمریت سے
بھی بد تر اقدام ہیں، منہاج سیکرٹریٹ کے لیے رکاوٹوں سے پولیس کو کیا تکلیف
تھی، پولیس نے اپنی نگرانی میں یہ بیرئیر لگوائے تھے تھے، وہ خود سڑکوں پر
بیرسٹر لگاتے ہیں خلق خدا کو ذلیل و رسوا کرتے ہیں عورتوں کو بھی معاف نہیں
کرتے، دہشت گردوں کو روک نہیں سکتے، اس موقع پر جب ملک میں ایک طرف آپریشن
ضرب عضب ہورہا ہے پنجاب حکومت کو یہ دہشت گردی کرنا ضروری تھا یہ ہنگامہ
کیوں ضروری تھا، اگر بیریئر ہٹانے ہی تھے تو ان لوگوں سے مذاکرات کیے جاتے
طالبان سے بھی تو مذاکرات کرتے ہیں۔ پرویز رشید تو ابھی تک مذاکرات کے لیے
تڑپ رہے ہیں، رانا ثنا اللہ بیان دینے میں احتیاط کریں-
ساری رات پولیس والے منہاج القرآن کے کارکنان سے لڑتے رہے جگھڑتے رہے۔
علاقہ میدان جنگ بنا رہا، آخرکار پولیس نے سیدھی سیدھی گولیاں چلائيں سروں
پر گردن پر سینے پر نشانے لے لے کر گولیاں ماری گئیں، میڈیا پر دیکھایا کہ
ایک شخص کو سڑک پر لٹا کر مارا گیا گرفتار لوگوں پر تھپڑوں اور ٹنڈوں کی
بارش کی گئی، ایک سفید داڑھی والے خوبصورت بزرگ کو بالوں سے پکڑ کر گھیسٹ
کے لایا گیا، دو عورتوں کو گولیوں سے بیھانک طریقے سے مارا گیا ایک عورت کا
منہ خون میں تر تھا یہ تصویر میں نے سوشل میڈیا میں دیکھی تو میری روح بھی
کانپ گئی جہاں تک میرے علم کی بات ہے یہ عورت تین بچوں کی ماں اور حاملہ
بھی تھی ن لیگ کا غنڈا جیسے عرف عام میں گلو بٹ کہا جاتا ہے ساری رات
گاڑیوں کے شیشے توڑتا رہا جیسے پنجاب پرلیس کی سپورٹ حاصل تھی، پنجاب پولیس
نے اس پر ہی بس نہیں کیا اس خونی کھیل کے دوران قانون کے محافظوں نے
سنیکڑوں دکانوں کو لوٹا بوتلیں جوس کے ڈبے اور کھانے پینے کی اشیاء بھی ہڑپ
کرگئے، پولیس کیا ہوتی ہے یہ لوگوں کی عزت اور حفاظت کے لیے ہوتی ہے اور آج
یہی قانون کے محافظ ان کی عزت اور زندگی کو تار تار کررہے ہیں بظاہر تو یہ
قانون کے محافظ ہیں مگر کام چور ڈاکوں کے کیے-
اس خونی کھیل میں منہاج القرآن کے کارکنان کی اب تک کی نیوز کے مطابق مرنے
والوں کی تعداد 12 ہوگئی ہیں جن میں دو خواتین بھی شامل ہیں،پنجاب پولیس
مبارک باد کی مستحق ہے کہ عورتوں پر ہاتھ اٹھانا ان کی عزت تار تار کرنا
اور پھر قتل کردینا بہادری ہے جو ہماری پولیس کارویہ شیوہ اور کردار ہے، ان
کی معرکہ آرائیوں سے میرا دل سمیت پورا ملک تڑپ رہا ہے، اس تمام واقعے کی
ذمہ دار پنجاب حکومت اور اس میں شامل تمام لوٹے ہیں، شہباز شریف کو اب فوری
طور پر مستعفی ہونا چاہیے رانا ثنا اللہ کو بلا کسی تاخیر کے فوری جیل
بھجا جائے، پرویز رشید کے منہ کو لگام دی جائے، وہ بے لگام گھوڑا ہے-
یہ کیسے شیر ہیں جو پہلے 40 کروڑ قومی خزانے سے اپنی سکیورٹی کے لیے خرچ
کرتے ہیں پھر بھی تسلی نہیں ہوتی تو غریبوں کے پیسوں سے 22 کروڑ کی بلٹ
پروف گاڑیاں خرید لتیے ہیں۔ پھر 24 لاکھ کے حفاظتی کتے بھی خریدتے ہیں۔ ڈر
ان کا پھر بھی نہیں جاتا، اب شہباز شریف نے اپنی حفاظت کے لیے فوج سے مدد
مانگ لی ہے، اگر یہ 30 سال میں اپنی حفاظت کے لیے با اعتماد پولیس بھی نہیں
بنا سکے تو روشن پاکستان خاک بنائے گئے، بقول معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر شاہد
معسود کے ن لیگ کے غنڈے بدمعاش گلو بٹ کو سپاری دی گئی تھی کہ طاہرالقادری
کے بیٹے کو مار دیا جائے اور نام طالبان پر لگا دیا جائے تاکہ طاہرالقادری
پاکستان نہ آئیں۔ جب گلو بٹ ناکام ہوگیا اس منصوبے پر تو ماڈل ٹائون کو خون
میں رنگ دیا گیا تاکہ طاہرالقادری کے گھر میں گھس کر ان کے بیٹے کو قتل
کردیا جائے یہ سب ن لیگ کے کہنے پر ہوا اور گلو بٹ کے ذریعے پنجابی طالبان
رانا ثناءاللہ نے لاہور کو خون سے رنگنے کا حکم دیا۔ نواز شریف نے پاکستان
کی تاريخ کا بد ترین دہشت گردی کی مثال قائم کردی اب اس حکومت کا مزید
اقتدار میں رہنا ممکن نہیں ہے، پوری قوم کا فرض بنتا ہے کہ وہ اب حکومت کا
تختہ الٹے، اب جو کچھ ملک میں ہوگا اس کی ذمہ دار لاہور پولیس ہوگی، علامہ
طاہرالقادری نے حکمرانوں اور پولیس افسران کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی
ہدایت کی، الطاف بھائی نے بھی اس فیصلہ کی تائید کی، اب یہ معاملہ خاصہ
گھمبیر ہوگیا ہے، ایسے حالات میں یہ سانحہ نہیں ہونا چاہیے تھا، وزیرستان
میں جاری آپریشن ضرب عضب کو ناکام بنانے کے لیے یہ سازش کی گئی، ریاستی
دہشت گردی اور ظلم کی انتہا کردی گئی-
وزیر اعلی پنجاب نے اس تمام واقعہ سے لا علمی کا اظہار کیا ہے تو پھر اس
واقعہ کا ذمہ دار کون ہے لاہور شہر کے اندر واقعہ ساری رات دن بھر ہوتا
رہا، پولیس افسران نے اپنے صوبے کے چیف ایگزیٹو کو حالات سے آگاہ کرنے کی
زحمت گوارہ نہیں کی ہماری پولیس اتنی خود مختار ہوگئی ہے اسے فری ہینڈ مل
گیا ہے، تو اب ہمیں اطمینان ہونا چاہیے ہمیں پولیس کو اب فری ہینڈ دینے کی
ضرورت نہیں، مگر فری ہینڈ کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں کو جان سے مار دیا
جائے، الطاف حسین عمران خان چوہدھری پرویز الہی بلاول بھٹو دیگر سیاستدانوں
نے اس الم ناک واقعہ کی شدید مذمت کی، چوہدھری پرویز الہی نے بتایا کہ
انہوں نے 1112 کی گاڑیوں پر بھی فائرنگ کی شدید نقصان پہنچایا اور میڈیا نے
یہ سب دیکھایا-
سی سی پی لاہور شفیق گجر نے پریس کانفرنس میں منہاج القرآن سیکرٹریٹ میں
اسلحے کی موجودگی کی اطلاع دی، وہ اسلحہ اتنی آسانی سے پولیس کے ہتھے کیسے
لگ گیا، وہ اسلحہ چلایا کیوں نہیں گیا کسی بھی پولیس والے کو گولی کیوں
نہیں لگی۔ شفیق گجر کہتے ہیں کہ سارے لوگ اپنوں کی گولیوں سے مرے ہیں تو
پولیس والے بندوقیں لہراتے ہوئے کیا کررہے تھے؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے، عذر
گناہ بدتر از گناہ - |
|