دو ہائی جیکرز: نواز حکومت اورطاہرالقادری

گیارہ مئی سے شروع ہونے والی ہنگامہ خیزی نے ابھی تک سکون نہیں لیا ہے، نواز شریف حکومت کو اس ہنگامہ خیزی کا فاہدہ بھی ہوا ہے اور نقصان بھی ، مثلا بجٹ کب پیش ہوا یہ تو شاید سب کو معلوم ہوگا، لیکن بجٹ کب منظور ہوا یہ صرف نواز شریف اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو ہی معلوم ہے۔ عام لوگوں کو نہیں معلوم کہ بجٹ نے اُن کے اخراجات کو کم کیا یا بڑھا دیا، یہ تو انکو پرچون ، گوشت اور سبزی کی دوکان پر پہنچ کر ہی پتہ چلتا ہے۔آٹھ جون کو کراچی ایئرپورٹ پر ہونے والی دہشت گردی کے بعد پندرہ جون کو افواج پاکستان نے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا، وزیراعظم نے بعد میں پارلیمینٹ میں ایک تقریر کردی جس میں آپریشن کی اطلاع دئے دی، لیکن اس قوم کو یہ پتہ نہیں چل سکا کہ گذشتہ چار ماہ سے طالبان دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کا جو ڈرامہ چل رہا تھا وہ اچانک کیسے ختم ہوگیا۔ پوری قوم ابتک منتظر ہے کہ کوئی اسکو بتائے کہ کراچی میں دہشت گردی کس کی غفلت یا نااہلی کی وجہ سے ہوئی۔ ابھی فوجی آپریشن کو تین دن بھی نہیں ہوئے تھے کہ پنجاب حکومت ادارہ منہاج القران کے مرکز ماڈل ٹاون لاہور پر چڑ ھ دوڑی،بقول حکمراں پولیس منہاج القران سے غیرقانونی تجاوزات کا خاتمہ کرنے گی تھی، رات ڈیڑھ بجے سے اگلے بارہ تیرہ گھنٹے گھمسان کا رن پڑا اور نتیجہ میں آٹھ لاشیں ملیں جن میں دو خواتین بھی تھیں۔ بعد میں ان لاشوں میں اور بھی اضافہ ہوا۔ پولیس کی طرف سے یہ الزام لگایا گیا کہ منہاج القران کے ورکروں اور طالبعلموں نے پہلے پولیس پر گولی چلائی مگر اگلے دن جو لاشیں ملیں وہ منہاج القران والوں کی ملیں۔ ماڈل ٹاون حادثہ کے ذمیداروہ ہیں جو ماڈل ٹاون لاہور کے واقعہ کو لیڈ کررہے تھے، بقول وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف انہیں تو پتہ ہی نہیں کہ اتنا بڑا حادثہ ہوگیا، غالبا وہ سو رہے تھے مگر انہوں نے جو نادان دوست پالے ہوئے ہیں وہ یہ سب کررہے تھے جو اب ثابت بھی ہوچکا ہے۔ یہ بات بھی صحیح ہے کہ طاہرالقادی اور اُنکے مرید اتنے بھی ہنسا کے پجاری نہیں ہیں جتنا وہ پروپگنڈہ کرتے ہیں، اسلام آباد ایئرپورٹ پر طاہر القادری کی آمد کے موقعہ پر اُنکے مریدوں نے پولیس پر جو تشدد کیا وہ قابل مذمت ہے، اس تشدد کو تمام ٹی وی چینل پر دیکھا گیا۔ ایک بات یاد رکھیں پاکستان کے سیاستدان لاشوں کے اوپر سیاست کرتے ہیں یہ لاشوں کے سوداگر ہیں، شہید بھٹو، شہید بنظیر کی سیاست تو اس ملک میں عرصے سے چل رہی ہے۔ماڈل ٹاون میں وہی ہوا جو پلان کا حصہ تھا ۔ مرئے بیچارے تقلید کے مارے مریدین۔ فاہدہ کس کا ہوا؟ سیدھا سیدھا طاہرالقادری کا، آٹھ لاشیں کم نہیں ہوتی سیاست چمکانے کےلیے۔نقصان کس کو ہوا؟ مسلم لیگ ن کی حکومت کو مرکزی اور صوبائی دونوں سطع پر، وجہ ہے نادان دوست یا شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں پر بھروُسہ۔

اگر پاکستان میں یہ ہی حالات رہے تو اگلے چند برسوں کے بعد صرف اُس سیاستدان کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی جو پیر بھی ہو اور اُسکے مرید بھی ہوں، سیاسی ورکر ہوں نہ ہوں لیکن مرید جتنی زیادہ تعداد میں ہونگے پیر کی کامیابی کی اسقدر زیادہ ہی امید ہوگی۔ ایک مضمون جو گذشتہ سال طاہرالقادری کے اسلام آباد کے دھرنے کے موقعہ پر لکھا تھا ، اُس کا بہت تھوڑا سا حصہ کچھ یوں تھا، " کل بڑی آپا واپس آگیں آج وہ ملنے آئیں تو بہت خوش نظر آرہی تھیں ۔ مگر جب میں نے ان سے پوچھا کہ عام لوگوں کو اس دھرنے سے کیا فائدہ ہوا تو انہوں نے کہا جناب طاہر القادری شیخ الاسلام ہی نہیں،علامہ، ڈاکٹر، پروفیسر، مدبر، مفکر،فقیہ اور صاحبِ کشف و کرامات بزرگ بھی ہیں، لہٰذا یقینا انہیں علم ہوگا کہ قومی اصلاح کا عمل کب پورا ہوگا، اسکے بعد وہ غصے میں یہ کہتی ہوئی چلی گیں کہ مھجے تو لگتا ہے کہ تم بہت ہی بے عقیدہ ہو"۔ "عارف صاحب بولے اب آپ میری بات غور سےسنیں آپ ایسا کریں کہ آج سے پیر بن جایں۔آپ کو معلوم ہے کہ صدر آصف زرداری گذشتہ ایک ماہ سے اپنے پیر صاحب کے کہنے پر کراچی میں ہیں، پیرصاحب پگارا پہلے حکومت میں تھے اب نہیں ہیں ، کیا اُنکے کسی مرید نے سوال کیا۔ مخدوم امین فہیم گدی نشین ہیں، وزیر بھی ہیں، ٹیکس دینا تو دور کی بات وہ تو بجلی کا بل تک نہیں دیتے، کیا انکا کوئی مرید کم ہوا۔ سابق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں چلے گے انکے مرید بھی انکے ساتھ تحریک انصاف میں چلے گے اور تو اور سابق بدترین کرپٹ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی جن کو سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا کیا انکے کسی مرید نے اس بات کو مانا"۔

طاہر القادری نے کافی دن پہلے ہی 23 جون کو پاکستان آنے کا اعلان کیا تھا، اُنہوں نے پاکستان پہنچنے کےلیے اسلام آباد ایئرپورٹ کا انتخاب کیا جس کے بعد جی ٹی روڈ کے راستے ایک رات گجرات میں ٹھیرکر وہ 24 جون کو لاہور پہنچتے۔ پاکستان پہنچنے سے چار روزقبل ہی طاہرالقادری کو آٹھ لاشیں مل گیں تھیں جنکو اُنہوں نے بھرپور طریقے سے کیش کرانے کی کوشش کی، اس سلسلے میں میڈیا کے کچھ چینل بھی خرید لیے گے تھے جنکی رپوٹنگ صاف بتارہی تھی کہ یہ وہی کچھ رپورٹ کررہے ہیں جو طاہرالقادری کی سیاسی ضررورت ہے۔ پیر 23 جون کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر طاہر القادری کے جہاز آنے سے قبل اُنکے چند ہزار ڈنڈا بردار مریدجسطرح ایئرپورٹ پردندنا تے پھر رہے تھے اُسکی بنیادی وجہ ماڈل ٹاون لاہور میں ہونے والی قتل و غارت گری تھی، حکومت نے جہاں امن وامان کا کوئی مسلئہ نہیں تھا وہاں لاشیں گرادیں اور جہاں امن وامان کا مسلئہ پیدا کیا گیا، قانون کے رکھ والوں کے سر پھاڑئے گئے اور اُن کو مارا پیٹا گیا، جہاں قانون شکنی کی گی وہاں بزدلی کا مظاہرہ کیا، قانون پر عملدرآمد کرانے کےلیے شیر کا دل چاہیے شیر کا انتخابی نشان نہیں۔

طاہر القادری روانہ تو کنیڈا سے ہی ہوئے تھے لیکن وہ لندن میں رک گے تھے، جہاں سے اُنہوں نے پاکستان کےلیے ایمرٹس ایئرلاین سے سفر شروع کیا، دبئی میں کچھ دیر گذارکر وہ اسلام آباد کےلیے روانہ ہوئے۔ پہلے یہ اطلاعات تھیں کہ طاہر القادری کا طیارہ اسلام آباد لینڈ کر ے گا لیکن ایوی ایشن حکام نے لینڈنگ کی اجازت نہ دی اور ایک انٹرنیشنل ائیر لائینز کا بغیر کسی معقول وجہ کے رخ ہی تبدیل کر دیا۔ سول ایوی ایشن ذرائع کے مطابق طیارے نے بے نظیر انٹر نیشنل ایئرپورٹ کے 8 چکر لگائے لیکن پرواز کو لینڈنگ کی اجازت نہ دی گئی۔پاکستان نے دنیا بھر میں ایک منفرد ریکارڈ بنایا ہے جسکے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں، دبئی سے اسلام آباد آنے والے ایک غیر ملکی جہاز کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترنے سے قبل نواز شریف حکومت نے ہائی جیک کرلیا اور جہاز کو لاہور پہنچا دیا۔ لاہور پہنچنے پر طاہر القادری نے جہاز سے اترنے سے انکار کردیا اور مطالبہ کیا کہ طیارہ واپس اسلام آباد لے جایا جائے۔ طاہر القادری نے اس موقعہ پر کہا کہ وہ موجودہ حکومت کے کسی بھی اہلکار سے بات نہیں کریں گے اور صرف کسی فوج کے اہلکار سے ہی بات کریں گے۔ انقلابی طاہر القادری جو بڑئے بڑئے مطالبے کررہے تھے، صوبہ سندھ کے گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کی وزیراعظم نواز شریف، وزیر داخلہ چوہدرہی نثار اور صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف سے بات چیت کے بعد صوبہ پنجاب کے گورنر چوہدری سرور لاہورایئرپورٹ پہنچے اور تھوڑی دیر مذاکرات کے بعد وہ طاہر القادری کو جہاز سے اتار لائے۔ ائیرپورٹ سے گورنر چوہدری سرور طاہر القادری کے ساتھ جناح ہسپتال بھی گئے۔ اسطرح صبح سے اسلام آباد سے شروع والا ڈرامہ شام چار بجے کے بعدختم ہوا مگراس ڈرامے کے ختم ہونے سے پہلے ایمرٹس ایئر لاین نے پنجاب حکومت سے شکایت کی کہ طاہرالقادری نے جہاز پر قبضہ کیا ہوا ہے، لہذا ایئرلاین حکومت پاکستان سے جہاز کے ہائی جیک ہونے کی شکایت کرسکتی ہے۔ اسلام آباد ایئررپورٹ پر نواز حکومت نے جہاز نہیں اترنے دیا اور لاہور پہنچنے کے بعد اُس پر طاہرالقادی اور اُنکے حواریوں نے قبضہ کرلیا جو پانچ گھنٹے سے زیادہ جاری رہا۔ کہا جاسکتا ہے "دو ہائی جیکرز: نواز حکومت اور طاہرالقادری" کی وجہ سے پاکستان پوری دنیا میں بدنام ہوا ہے۔

Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 485297 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More