من رضی عن نفسہ کثر الساخط علیہ ترجمہ: جو شخص اپنے کو
بہت پسند کرتا ہے وہ دوسروں کو ناپسند ہوجاتا ہے
تشریح: اس جملہ میں خود پسندی سے پیدا ہونے والے نتائج و اثرات کا ذکر کیا
ہے کہ اس سے دوسروں کے دلوں میں نفرت و حقارت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے .
خودپسندی کیا ہے؟
خودپسندی نام ہے اپنے آپ کو بڑھانے چڑھانے کا اپنے اعمال کو بڑا سمجھنے
اور ان پر اعتماد کرنے کا،اور ان اعمال کی نسبت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی
توفیق کی طرف نہ کرکے اپنے آپ کی طرف ان کی نسبت کرنے کا۔
خودپسندی انسان میں پائی جانے والی عظیم آفت اور ایک خطرناک بیماری ہے، جو
انسان کو خالق کے شکر بجالانے سے ہٹا کر اپنے نفس پر اعتماد کرنے اور اسی
کو سب کچھ سمجھنے پر مجبور کرتی ہے، اللہ تعالیٰ کی تعریف سے توجہ ہٹاکر
خود کی تعریف کرنے پر آمادہ کرتی ہے، یہ بیماری خالق ارض وسماں کے سامنے
عاجزی وانکساری کے بجائے کبروغرور، عجب وبڑائی اورلوگوں کے احترام اور ان
کے درجات کا پاس ولحاظ رکھنے کے بجائے انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھنے اور
ان کے حقوق کو پامال کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
چنانچہ جو شخص اپنی ذات کو نمایاں کرنے کے لے بات بات میں اپنی بر تر ی کا
مظاہر ہ کرتا ہے وہ کبھی عزت و احترام کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتااور لو گ
اس کی تفو ق پسندانہ ذہنیت کو دیکھتے ہوئے اس سے نفر ت کرنے لگتے ہیں اور
اسے اتنا بھی سمجھنے کو تیار نہیں ہوتے جتنا کچھ وہ ہے چہ جائیکہ جو کچھ وہ
اپنے آپ کو سمجھتا ہے وہی کچھ اسے سمجھ لیں .
خودپسندی کے نقصانات:
خودپسندی کے نقصانات بہت سے ہیں ہم کچھ کی طرف اشارہ کرتے ہیں
(۱) عبادتوں کی نابودی
اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس کے نیک اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔ آدمی
کے اچھے اعمال اور اچھائیاں ختم ہوجاتی ہیں اور اس کے حصہ میں صرف مذمت ہی
ہاتھ آتی ہے۔
امام سجاد علیہ السلام ایک دعا میں عجب اور خودپسندی کو عبادات کی نابودی
کا باعث قرار دیتے ہیں اور خدا سے فرماتےہیں:
"خدایا، مجھے عزت عطا فرما اور تکبر اور برتری جوئی میں مبتلا نہ کر، مجھے
اپنی بندگی کیلئے رام کر دے اور میری عبادت کوعجب اورخودپسندی کے ذریعے
نابود نہ کر"۔[صحیفہ سجادیہ،دعا17]
ایک اور دعا میں فرماتے ہیں: "بار الہا، محمد اور آل محمد پر درود بھیج اور
مجھے لوگوں کے درمیان بڑا رتبہ عطا نہ فرما مگر اس وقت جب اسی قدر مجھے
اپنی نظر میں حقیر اور پست بنا دے اور مجھے واضح برتری عطا نہ کر مگر اس
وقت جب اسی قدر میرے نزدیک میرے نفس کو ذلیل و خوار کر دے"۔ [صحیفہ سجادیہ،
دعا 20]۔
(۲) اخلاق حسنہ کا غائب ہوجانا، خرابیوں اور برے اخلاق کا عام ہوجانا۔
(۳) اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور غضب کا باعث بننا ۔
(۴) جہالت اور نادانی کا آنا۔
(۵) غضب ، حسد اور کینہ کا پیدا ہونا۔
(۶) لوگوں کی نظر میں ناپسند ہوجانا ۔ جس کی طرف حضرتؑ نے بھی اشارہ کیا
ہے۔
(۷) خودپسندی کفر کا سبب بنتی ہے۔اور دین اسلام سے خارج کرنے کا سبب بن
جاتی ہے جیسا کہ ملعون ابلیس کے ساتھ ہوا، جب اس نے اپنی اصلیت اور اپنی
عبادت پر فخر کیا، لہٰذا خودپسندی نے اسے کبراورآدم کو سجدہ سے متعلق اللہ
تعالیٰ کے حکم سے روگردانی پر آمادہ کیا۔
خودپسندی کی علامات
خودپسندی کی بہت ساری علامتیں ہیں، چند ہم ذیل میں بیان کررہے ہیں
(۱) حق کو ٹھکرانا اور لوگوں کو ذلیل وحقیر سمجھنا۔
(۲) دانشمندوں اور فضلاء سے مشورہ نہ لینا۔
(۳) اپنی اطاعت کو بہت زیادہ خیال کرنا۔
(۴) اپنے علم پر فخرکرنا۔
(۵) طعنہ وتنقید کرنا۔
(۶) حسب،نسب اور خوبصورتی پر اترانا۔
(۷) متقی پرہیزگارعلماء کی شان میں کمی خیال کرنا۔
(۸) خودکی تعریف کرنا۔
(۹) گناہوں کو بھلادینا اور اسی حالت پر قائم رہنا۔
(۱۰) غلطی کو باربار دھرانا۔
(۱۱) کمال کے درجے پر پہنچنے کے گمان سے اطاعت وفرمانبرداری میں کمی کرنا۔
خودپسندی کے اسباب
(۱) جہالت
(۲) تقوی کی کمی
(۳) خیرخواہی کی کمی
(۴) بدنیتی
(۵) کسی کی حد سے زیادہ تعریف کرنا جس کی وجہ سے وہ شخص شیطان کے فریب کا
شکار ہوجائے۔
(۶) دنیا کے فتنے میں پڑنا، خواہشات کی اتباع کرنا۔
(۷) کم سوچنا، کیونکہ اگر وہ سوچے اور غوروفکر کرے تو اسے معلوم ہوجائے گا
کہ اس کو عطا کردہ ہر نعمت اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے۔
(۸) کم شکر کرنا۔
(۹) کم ذکر کرنا۔
(۱۰) قرآن اور حدیث میں غوروفکر نہ کرنا۔
(۱۱) اللہ تعالیٰ کے عذاب سے مطمئن رہنا اور اس کی مغفرت ومعافی کا سہارا
لانا۔
خودپسندی کا علاج
(۱) اپنے نفس کی خوبصورتی وجمال پر توجہ دے۔
(۲) اپنی خلقت کے بارے میں سوچے، اپنے پیٹ میں موجود گندگیوں کے بارے میں
غور و فکر کرے۔
(۳) موت اور قبر کی تنہائی کو یاد کرے۔
(۴) اپنی کمزوری پے نظر کرے۔
(۵) ظالم، متکبر اور خودپسند انسانوں کے انجام پے نظر کرے۔
(۶) تواضع و انکساری
خودپسندی کا علاج ایک اہم چیز تواضع و انکساری بھی ہے۔ متواضع انسان کو
غرور اور خودپسندی کا مرض لاحق نہیں ہوتا کیوں کہ وہ جانتاہے کہ میں کچھ
بھی نہیں ہوں علم، طاقت، صحتمندی، مال و دولت، عزت و شھرت ، اولاد غرض کے
ہر چیز جو میرے پاس ہے میری نہیں ہے وہ خداوند کی عطا کردہ ہے کبھی بھی لے
سکتا ہے پھر خودپسندی ، تکبر اور غرور کس لئے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی عظمت
و کبریائی کو جان لے وہ کبر اور گھمنڈ میں مبتلا نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے
اندر خشیت ، خوف ،تقویٰ اور خاکساری کی صفات پیدا ہوں گی ۔ |