عرا ق میں اچانک دن کے اجالے میں
جو قتل عام ہوا۔وہ ایک سنگین شرارت تھی۔عراق پر امریکہ نے فوجی یلغار کرکے
صدام حسین کو اقتدار سے بے دخل کرکے وہاں خود قابض ہوگیا تھا۔اس نے وہاں
قابض ہوکر عراق کو ، اور وہاں کے عوام کو اس قدر لاغر و کمزور کردیا کہ وہ
اب کسی سے مقابلہ آرائی کی جسارت وہمت نہیں رکھتے ہیں۔ عراق میں ہمیشہ متحد
رہنے والے دو فرقہ شیعہ و سنی جن کو عراق کا باوقار شہری سمجھا جاتا ہے ۔آج
ان کو باہم ایک دوسرے کا دشمن بنانے کیلئے طرح طرح کے ہتھکنڈے اپنائے جارہے
ہیں۔ آج ہر عراقی ۔امریکہ کو اپنا دشمن نمبر اول سمجھتا ہے۔ اس کا بہ خوبی
علم امریکی انتظامیہ کو بھی ہے۔ وہ عراقی عوام کی اس دشمنی کوشیعہ و سنی
میں تبدیل کرنے کوشیشوں میں منہمک ہے۔ جس سے عراق مذید حد درجہ کمزور
ہوجائے۔تازہ خونی ریز واقعات کے منظر عام پر آنے سے یہ بات اجاگر ہوتی ہے۔
کہ امریکہ اب عراق کو حد درجہ کمزور کرنے کیلئے اس کو دو متوازی حصوں میں
تقسیم کرنے کے فراق میں سرگرم عمل ہے۔یہ کام کس طرح اور کس کی سرپرستی میں
ہوگا۔ اس کیلئے بڑے ممالک پلان مرتب کررہے ہیں۔ جوکچھ گذشتہ دنوں میں
ہوا۔ایسالگتا ہے یہ ایک تماشہ تھا جس کی نگرانی خود عراقی حکومت نے کی۔ یہ
بھی بڑی عجیب بات ہے کہ حملہ آور سنی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر جن
امریکی مخالف فوجیوں کو قتل ہوا ۔ان میں اکثریت سنی فرقہ کے لوگوں وفوجیوں
کی تھی۔اس سے واضح ہوتا ہے۔ امریکی مخالفین وہ چاہے سنی ہو یا شیعہ ان پر
نظر رکھی جارہی ہے۔ اور ان ہی کو چن چن کرختم کرایا جارہاہے۔ یہ سب کھیل
عراق کو دوٹکروں میں بانٹنے کیلئے کھیلا جارہا ہے۔اور مزے کی بات یہ ہے۔کہ
امریکہ دونوں ہی کی سرپرستی بھی کرنا چاہتا ہے۔اب امریکہ کو ایران کی
خودشنودی بھی چاہئے اور سعودی حکمرانوں کا ساتھ بھی۔اس کیلئے ایک ملک ’’سنی
عراق‘‘ اور دوسرا ملک ’’شیعہ عراق‘‘ ایک ملک کیلئے سعودی حکمرانوں کے
کندھوں کا استعمال ہوگا۔ ایک دوسرے ملک کیلئے ایرانی حکمرانوں کے کندھوں کا
استعمال ہوگا۔جس سے ایک متحد عراق کا ہر باشندہ بلکل زمین دوز ہوجائے۔وہ
فقط ایک زندہ لاش کی مانند باقی رہے۔دیکھنا یہ ہے کہ عراق کو توڑنے کی یہ
چال کتنی کارگرثابت ہوتی ہے۔امریکہ یہ کام نوری المالکی سے لینا چاہتا
ہے۔اگر یہ کام ان کے ذریعہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا تو پھر امریکہ عراق
کو منقسم کرنے کیلئے ہی اس خطہ میں اپنی فوج کو بھیج نے کا پروگرام مرتب
کرے گا۔ |