ساڑھے پانچ ماہ بعد یکدم دوبارہ
امریکہ کی جانب سے ڈرون اٹیک کی پالیسی ختم کرنے باوجود پاکستان کے شمالی ؑعلاقوں
میں حملہ یقینی طور پر کئی محرکات اور خدشات کو ابھار رہا ہے ۔ اس کیلئے
ہمیں جذباتی ہونے کے بجائے زمینی حقائق کو دیکھنا ہونگے کہ کیا وجہ ہے کہ
کراچی ائیرپورٹ حملے کے بعد پاکستان کے بجائے امریکہ کی جانب سے ڈرون حملہ
شمالی وزیرستان میں دوبارہ ہوجاتا ہے۔جبکہ اس سے قبل امریکہ کی جانب سے
واضح کردیا گیا تھا کہ ڈرون حملے اب نہیں کئے جائیں گے کیونکہ اس سے شدت
پسندی کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے اس لئے اوبامہ انتظامیہ نے ڈرون اٹیک کی
پالیسی تبدیل کردی ہے۔لیکن اچانک دوبارہ غیر متوقع طور پر ڈرون حملہ کئے
جانا ماضی کے اس امریکی روئیے کی عکاسی کر رہا ہے جب امریکی انتظامیہ
متواتر کوشش کرتی رہتی تھی کہ طالبان کوئٹہ شوری کے نام پر بلوچستان اور
پاکستان کے بعض پر امن قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کیلئے حکومت پاکستان
سے توسیع حاصل کرلی جائے ، کچھ عرصہ قبل جب امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے
یہ خبر شائع کی تھی تو ترجمان وزارت خارجہ کے سختی سے واضح الفاظ میں کہا
کہ "پاکستان اپنے علاقے میں امریکہ کو ڈرون حملے" بڑھانے "کی کبھی اجازت
نہیں دے گا ، کیونکہ یہ ایک سخت گیر نسل کو جنم دینے کا موجب بن رہے ہیں۔اس
لئے امریکی حکومت کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنے چاہیے اور یہ حملے بند
کردینے چاہیے،"۔
2012ء میں ایک امریکی ریڈیو کی رپورٹ میں دعوی کیا گیاتھا کہ" امریکی ڈرون
حملوں کو چھ ماہ قبل تک پاکستانی حکومت کی خاموش حمایت حاصل تھی "، جبکہ
سابق فوجی آمر پرویز مشرف نے تو پہلے امریکی درون حملے کو چھپاتے ہوئے اسے
پاکستانی کاروائی بتایا تھا اور ہ بھی کہا کہ" امریکہ کو پاکستان پر ڈرون
حملوں کا بین الاقوامی قانونی جواز حاصل ہے"۔امریکی ریڈیو این پی آر یا
نیشنل پبلک ریڈیو نے یہ دعوی پاکستان میں ڈرون حملوں سے متعلق امریکی حکومت
کے ساتھ منسلک رہنے والے سابق عملداروں کے حوالے سے کیا۔ ریڈیو نے اپنی
رپورٹ میں کہا کہ" گذشتہ آٹھ سال سے پاکستان میں ہونے والے امریکی ڈرون
حملوں کو فوجی صدر جنرل پرویز مشرف سے لیکر صرف چھ ماہ قبل تک موجودہ (سابقا
پی پی پی) حکومت کی بھی تائید حاصل رہی ہے"۔
ڈرون حملوں کے حوالے سے یہ عمومی تاثر رہا ہے کہ ڈرون حملوں کو پاکستانی
حکومت کا آشیر باد حاصل رہا ہے ، ظاہری طور پر پرویز مشرف کے علاوہ کسی بھی
حکمران نے اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا لیکن ممکنہ حد تک یہ بات خارج
ازامکان نہیں رہی ہے کہ لاجسٹک سپورٹ سے لیکر حساس معلومات کی شراکت تک
ڈرونز کی آمد اور واپسی کے تمام شیدول کسی خفیہ معاہدے کے تحت ہی ممکن
ہیں۔گو کہ ایبٹ آباد واقعے میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت ، سلالہ چیک پوسٹ پر
حملے سمیت امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے واقعات کے بعد دونوں
ممالک کے اسٹریجک معاملات میں تلخی اور دوری پیدا ہوئی ، لیکن اس کے باوجود
ڈرون حملوں کی مکمل ممانعت اور تنبہیہ کا عمل نہیں اپنایا گیا۔حکومت کی
جانب سے ظاہری طور پر دو ٹوک رویہ دکھایا گیا پارلیمنٹ میں قراردادیں اور
عوامی احتجاج کے ساتھ سرکاری تمام مذمتوں کو امریکہ نے جوتے کی نوک پر رکھا
اور ہمیشہ اپنی من مانی کرتا رہا۔یہاں تک کہ جب بھی پاکستان نے پاکستانی
عسکریت پسند طالبان سے امن مذاکرات شروع کئے تو بیت اﷲ محسود ، حکیم اﷲ
محسود کو ڈرون حملوں میں ہلاک کرکے ڈیڈ لاک پیدا کردیا گیا اور پاکستانی
حکومت نے امریکی انتظامیہ سے شدید احتجاج بھی کیا ، لیکن امریکہ کی جانب سے
سنی ان سنی کا عمل دوہرایا جاتا رہا ۔
امریکی ڈرون طیاروں نے 2014ء کی پہلی کاروائی میں شمالی وزیرستان میں چھ
گھنٹوں کے دوران دو ڈرون حملے کئے جس میں 16افراد جاں بحق ہوئے۔اسی ماہ
دوسری کاروائی میں امریکی ڈرون طیاروں نے درگاہ منڈی اور طوری خیل میں ایک
مکان اور گاڑی پر چار میزائل داغے جس میں چھ ازبک ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے
۔ یقینی طور پرامریکی ڈرون حملوں نے حکومتی دعوؤں کی قلعی بھی کھول دی کہ
ان کی حکومت نے ڈرون حملوں کے مکمل خاتمے کیلئے امریکی انتظامیہ کو قائل
کرلیا ہے۔مگر امریکہ کی جانب سے ڈرون حملہ پاکستانی خود مختاری پر ، اس کے
حکمرانوں پر زوردار طمانچہ ثابت ہوا ہے۔ مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کی
جانب سے ڈرون حملوں کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ امریکہ کی
روش اس بات کی غمازی کر رہی ہے کہ امریکہ پاکستان میں دہشت گردی کی مذمت کے
بجائے حمایت کر رہاہے ، ورنہ امریکہ کو کراچی ائیر پورٹ حملے کے بعد اس قسم
کی کاروائی سے گریز کرنا چاہیے تھا جس میں موجودہ حکومت کو محفوظ راستہ مل
جاتا ہے کہ عسکریت پسندوں کے ساتھ امن مذاکرات میں امریکی پالیسی حائل ہے
یہی وجہ ہے کہ پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کامیاب نہیں ہو رہے۔سابقا
پی پی پی حکومت کے حوالے سے یہ انکشاف بھی ہوا تھا کہ انھوں نے امریکہ کو
یقین دہانی کروادی تھی کہ آ پ حملے جاری رکھیں ہم عوام کو ملک کی سا لمیت
اور خود مختیاری پر حملے قرار دیکر مذمتی بیانات جاری کردیا کریں گے۔پہلے
تو یہ ہی تسلیم نہیں کیا جاتا تھا کہ ڈرون حملوں کیلئے امریکی طیاروں کو
پاکستانی سر زمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ، لیکن جب یہ منکشف
ہوگیا کہ پاکستانی سرزمین سے ہی حملے کروائے جاتے ہیں تو حکومت کے پاس کوئی
جواب نہ تھا ، لیکن سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے کے نتیجے میں 24فوجیوں
کی شہادت کے بعد پاکستانی عسکری قیادت نے پاکستانی حکومت کے ساتھ امریکی
حکومت کو بھی مجبور کردیا کہ ڈرونز کا سیٹ اپ پاکستان سے منتقل کردیا جائے
، اس کیلئے فوج کے دباؤ پر نیٹو سپلائی کی بنش کی گئی اور یہ ایک اہم
کامیابی تو حاصل کرلی گئی لیکن ڈرون حملوں میں کمی واقع نہیں ہوئی اور
امریکہ وقتا فوقتا ڈرون حملے کرتا رہا۔
پاک فوج عسکریت پسندوں کی جانب سے پاکستان میں کی جانے والی ہر کاروائی
پرجوابی ردعمل دے رہی ہے اور ٹارگٹڈ اپریشن میں سرجیکل سٹرائیکس کیلئے پاک
فوج نے بھی ڈرون استعمال کئے لیکن شدت پسندوں کے خلاف پاک فوج کی جانب سے
مسلسل کاروائیوں کے بعد ، امریکہ کے لئے کوئی جواز نہیں بنتا تھا کہ وہ
اپنی پالیسی میں تبدیلی کے اعلان کے باوجود پاکستان کی مشکلات میں مزید
اضافہ کا موجب بنے۔بظاہر ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ" شریف حکومت" نے طالبان
کے ساتھ امن مذاکرات میں ناکامی کے بعد امریکی انتظامیہ کو دوبارہ گرین
سگنل دے دیا ہو ، لیکن بعض دفاعی تجزیہ نگار اس سے اتفاق نہیں کرتے ،لیکن
آپریشن ضرب عضب کے دوران دوبارہ ڈرون حملہ دفاعی تجزیہ نگاروں کو غلط ثابت
کر رہا ہے۔
ان تمام معاملات اور صورتحال میں ایک بات نہایت وضاحت کے ساتھ سامنے آئی ہے
کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کیلئے بعض ملکی و غیر ملکی قوتوں کی جانب سے
دباؤ تھا اب اس پر عمل پیرا ہونے کا وقت قریب آچکا ہے اور پاکستان کے شمالی
علاقوں کی صورتحال میں پاک فوج حتمی آپریشن کی عملی تیاریوں میں مصروف
ہوچکی ہے لیکن اس کے سامنے افغانستان حکومت کی جانب سے عدم تعاون کا وہی
پرانا مسئلہ درپیش ہے جس میں افغانستان ، پاک سرحدی علاقوں کو سیل کرنے کی
استطاعت نہیں رکھتا اور وقتا فوقتا پاکستانی علاقوں پر گولہ باری اور
افغانستان میں ہونے والی کاروائیوں پر پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے کی
پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے ، لیکن اب اطلاعات یہی ہیں کہ افغانستان نے اپنے
تعاون کی یقین دہانی کرادی ہے اور امریکہ نے بھی متاثرین کے لئے امداد کا
اعلان کردیا ہے لیکن و دوسری جانب دوغلی پالیسیوں کی بنا ء پر پاکستانی
اداروں کو کسی ممکنہ فیصلے تک پہنچنے میں حائل نظر آتی ہے، ایک جانب امریکہ
پاکستان کو یقین دلاتاہے کہ شمالی وزیرستان آپریشن میں امریکہ پاکستان کی
مدد کریگا تو دوسری جانب پاکستانی عوام میں آپریشن کیلئے فضا ساز گار بنانے
کے بجائے ڈرون حملے کرکے سیاسی جماعتوں اور مذہبی تنظیموں میں اختلافات
پیدا کردیتا ہے ، جس کی وجہ سے پاکستانی قوم بھی یکسو ہوکر کوئی فیصلہ
کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہے گو کہ پاکستانی عوام کی اکثریت شدت پسندی کے
خلاف پاک فوج کو فری ہینڈ دینے کے لئے تیار نظر آتی ہے لیکن وفاق اور کے پی
کے کی صوبائی حکومت کو شمالی وزیرستان آپریشن اب بھی تامل تھا اور وہ حتمی
فیصلے کرنے سے کترا رہی تھی۔ دوغلی پالیسی کے ساتھ ڈرون حملے پاکستان کی
بقا اور سلامتی کیلئے ایک ایسا ڈراؤنا خواب ہے جس کی تعبیر بھی خوفناک ہے۔
لیکن اب آپریشن جاری ہے ، بڑی تعداد میں متاثرین نقل مکانی کر رہے ہیں ،
کرفیو میں نرمی کے ساتھ ہی عوام شورش زدہ علاقے سے باہر نکل آئے گی۔ عسکری
اداروں کی بھرپور کوشش ہے کہ آئی ڈی پیز کے لبادے میں کوئی عسکریت پسند
محاصرے سے باہر نہ نکل جائے اور ان کی یہ بھی کوشش ہے کہ کوئی بے گناہ
آپریشن میں نقصان نہ اٹھا لے ، لیکن وزیرستان کی عوام کو بھی سمجھنا ہوگا
کہ انھیں یہ سب اس لئے برداشت کرنا ہوگا ، کیونکہ انھوں نے غیر ملکی اور
ملکی عسکریت و شدت پسندوں کو کافی عرصہ برداشت کیا تھااگر عوام تھوڑی ہمت
سے کام لے لیتی تو دوبارہ آپریشن کی نوبت نہ آتی اور انھیں ایک بار پھر
تکالیف برداشت نہ کرنا پڑتی۔ |