میں بھی کسی کی ترجیح ہوں؟

ایک اور ملاقات.... نشستند، گفتند، برخواستند.... ایک دوسرے سے گلے شکوے ہوئے، سینے سے سینہ ملا کر ”جپھیاں“ ڈالی گئیں، کھانا پیش کیا گیا، ڈرائی فروٹ سے سرد مہری کو گرمی میں بدلنے کی کوشش کی گئی، لیکن نتیجہ؟ کچھ بھی نہیں۔ وجہ ملاقات کیا تھی؟ سمجھدار لوگ، ذہن رسا رکھنے والے سمجھ چکے ہیں، باقی وہ ہماری طرح کے لوگ جو خود سمجھ نہیں پاتے، سمجھداروں کو آپس میں سرگوشیاں کرتے دیکھ کر ویسے ہی سر ہلاتے رہتے ہیں جیسے ساری سمجھ آگئی ہو لیکن اصل بات یہ ہے کہ کسی بات کی سمجھ کسی کو بھی نہیں آرہی۔ پاکستان ایک مرتبہ پھر امریکہ، اسرائیل اور بھارت کی سازشوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ ہمارے لیڈران (چند ایک سر پھروں کو چھوڑ کر....!) امریکہ بہادر کے اشاروں پر ناچنے کو ایسے سمجھتے ہیں جیسے کچھ لوگ پاکپتن کے بہشتی دروازے سے پولیس کے ڈنڈے کھاتے ہوئے گزر کر اپنے آپ کو جنتیوں میں شمار کر لیتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق نواز، زرداری تازہ ترین ملاقات میں این آر او زیر بحث نہیں آیا، میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کی بابت بات چیت کی گئی، نواز شریف کی جانب سے حکومت کو نہ گرانے کی ایک اور یقین دہانی کرائی گئی۔ یہ بیان ان ذرائع کا ہے جو یہی بات عوام کو باور کرانا چاہتے ہیں، لیکن کچھ بیانات دیگر ذرائع کے بھی ہیں کہ سارا کھڑاک ”ملکہ عالیہ“ہیلری کلنٹن کو ”سب ٹھیک ہے“ باور کرانے کے لئے کیا گیا تھا ورنہ دونوں رہنماﺅں کی سات جولائی والی ملاقات کے بعد دونوں جماعتیں ”بظاہر“ نہ تو ایک قدم آگے بڑھی ہیں نہ پیچھے، حکومت این آر او کو پارلیمنٹ سے سند دلوانا چاہتی ہے لیکن نواز لیگ اس کی مخالفت کررہی ہے۔ یہ اسی طرح کی مخالفت محسوس ہوتی ہے جس طرح کا واویلا مشرف کے مواخذہ پر کیا جاتا رہا ہے لیکن جیسے ہی کسی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا جاتا ہے تو مکمل خاموشی چھا جاتی ہے، مثلاً دس سال تک سیاست میں حصہ نہ لینے کا ”مبینہ“ معاہدہ اور سعودی عرب کی طرف سے بلاوے کے بعد آئین کے آرٹیکل 6 کو یکسر بھلا دینا، امن و امان کو بہانہ بنا کر ضمنی الیکشن کی منسوخی بھی اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور کچھ دیگر سیاسی جماعتیں، جنہوں نے این آر او کی بہتی گنگا میں بھرپور اشنان کئے ہیں، این آر او جیسے بدنام زمانہ آرڈی ننس کو موجودہ پارلیمنٹ سے منظور کروانے کے چکر میں اس لئے ہیں کیونکہ ان کے ذاتی مفاد اس سے وابستہ ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) سترھویں ترمیم کے صرف اس حصے کو ختم کروانے پر بضد ہے جس میں تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ پر پابندی عائد کی گئی ہے کیونکہ نواز شریف کی ذات کو سترھویں ترمیم کے اسی حصہ سے زک پہنچتا ہے جس میں تیسری بار وزارت عظمیٰ پر پابندی ہے!

ملک کے حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں۔ پہلے تو عسکری اور نیم عسکری قوتوں پر خود کش حملے ہوتے تھے اب نوبت تعلیمی اداروں تک پہنچ گئی ہے۔ میڈیا جتنا بھی آزاد ہو ابھی تک صحیح صورتحال سامنے لانے کی ہمت نہیں کرپا رہا۔ ہر حملے کے بعد ذمہ داری ”طالبان“ پر ڈال دی جاتی ہے۔ پاکستانی عوام کی اکثریت اب بھی یہ سمجھتی ہے کہ فوج، پولیس، عام جگہوں اور تعلیمی اداروں پر حملے کوئی مسلمان اور پاکستان کا ہمدرد نہیں کر سکتا۔ قوم تو طالبان انہی لوگوں کو سمجھتی ہے جو افغانستان میں امریکہ کے خلاف نبرد آزما ہیں، یہ ”تحریک طالبان پاکستان“ کس کی پیداوار ہیں؟ ان کی حرکتوں سے کس کو فائدہ پہنچ رہا ہے؟ کیا ان کی پشت پرامریکہ، اسرائیل اور بھارت محسوس نہیں ہوتے؟ عام آدمی جس کی پہنچ بم اور میزائل پروف بنکروں تک نہیں ہے، جو دیہاڑی دار مزدور ہے، جو روزانہ کی بنیاد پر اپنے بچوں کے لئے اللہ کا فضل تلاش کرنے نکلتا ہے، جس کا نہ تو کوئی سروکار این آر او سے ہے نہ سترھویں ترمیم سے، آرٹیکل 6 سے ہے نہ ضمنی الیکشن سے، وہ عام آدمی یہ سوچتا ہے کہ کیا میں بھی کسی کی ترجیح ہوں؟ میرے مسائل اور معاملات حل کرنے کے لئے کون آگے آئے گا؟ وہ عام آدمی زرداری کو تو جیسا بھی سمجھتا ہے لیکن اسے یہ سمجھ نہیں آتی کہ آخر نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کس ڈگر پر چل رہے ہیں، وہ اللہ اور عوام کو چھوڑ کر اپنا دامن طلب امریکہ کے سامنے کیوں پھیلاتے ہیں؟ کیا شریف برادران اور مسلم لیگ (ن) نے جلاوطنی کے دور میں بھی کچھ نہیں سیکھا؟ وہ اللہ کے گھر کے اتنا نزدیک ایک لمبا عرصہ گزار کر آئے ہیں، بھاگم بھاگ مکہ اور مدینہ کے لئے رخت سفر باندھتے ہیں تو آخر کیوں انہوں نے بھی اپنا ”حاجت روا“ اور ”مشکل کشا“ امریکہ کو سمجھ لیا ہے؟ جب کبھی نواز شریف کے منہ سے کوئی ”غلط“ بات نکلتی ہے فوراً امریکہ بہادر کا کوئی نمائندہ یہاں پہنچ جاتا ہے اور میاں صاحب کی بے چین روح کو جیسے قرار آجاتا ہے۔ انہیں یقین دہانی کرادی جاتی ہے کہ اگلی باری آپکی ہے لیکن اس شرط پر کہ ابھی موجودہ حکومت کو کھل کھیلنے کا موقع دیا جائے! اسی لئے بار بار یہ بیان دہرایا جاتا ہے کہ ”ہم نوے کی دہائی واپس نہیں لانا چاہتے، ہم حکومت کو گرانا نہیں چاہتے اور حکومت کو گرانے کے لئے نہ تو اپنے کندھے پیش کریں گے نہ کسی سازش کا حصہ بنیں گے“ ۔

ملک میں جاری فوجی آپریشن، بلیک واٹر کی آمد، کیری لوگر بل اور خصوصاً عام آدمی کی مشکلات بارے جس طرح کا رویہ نواز لیگ اور نواز شریف نے روا رکھا ہوا ہے اس سے ان کی ساکھ دن بدن متاثر ہورہی ہے لیکن امریکہ کی اس قدر چاپلوسی، جی حضوری اور ملازمت تو ”مردانہ کمزوری“ کی نشاندہی کرتی ہیں۔ دونوں بڑی جماعتوں کی ان ”حرکتوں“کے باوجود تیسری طاقت کیوں سامنے آنے میں ناکام ہورہی ہے یہ بھی اس قوم کا ایک المیہ ہے کہ عام آدمی اپنی روزی روٹی کے چکر میں اتنا الجھا دیا گیا ہے، اس کی ترجیحات میں سے ملک کو نوچ کر نکال دیا گیا ہے کہ اب وہ آزمائے ہوئے لوگوں پر مزید اعتبار کرنے کو تیار نظر نہیں آتے البتہ اگر انہیں محسوس ہو کہ کوئی اخلاص اور سچائی کے ساتھ اس ملک اور یہاں کے بسنے والوں کو جن کی جڑیں یہیں ہیں، کی بھلائی کے لئے، امریکہ کی غلامی ختم کرنے کے لئے سنجیدہ ہے تو وہ اپنے گھروں سے اسی طرح نکلیں گے جیسے تحریک پاکستان میں نکلے تھے اور جیسے پاکستان بچاﺅ عدلیہ بحالی تحریک میں نکلے تھے۔ اگر کوئی لیڈر امریکہ کو خوش کرنے کی بجائے اللہ کو خوش کرے، یہاں کے عوام کو خوش کرے، ان کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے تو یقیناً عوام اس کا ساتھ دیں گے، اپنے سروں پر کفن باندھ کر نکلیں گے لیکن کوئی اپنے آپ کو اہل ثابت تو کرے۔ میں بھی اسے ہی اپنا لیڈر سمجھوں گا جسے میرا خیال ہوگا، جس کی ترجیحات میں میرا شمار ہوگا، ہر عام آدمی یہی سمجھتا ہے، لیکن ”خاص “ لوگوں کو سمجھ کیوں نہیں آتی؟
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222472 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.