کیانی زرداری ملاقات اور نوازشریف کا مشورہ

نواز شریف٬ زرداری سے ملاقات سے پہلے کہہ رہے تھے کہ برف پگھلے گی کھانا بڑا گرم بلکہ گرما گرم تھا مگر برف پگھلنے کا نام نہیں لے رہی خواجہ آصف نے بہت پتے کی بات کردی۔ کھانا بڑا اچھا تھا۔ یہ بھی تکلفاً کہا ورنہ سندھی کشمیری کھانے کیا پکائیں گے۔ اس کے بعد آرمی چیف جنرل کیانی اور صدر زرداری کی ملاقات ہوئی اور برف ساری پگھل گئی۔ ایک بچے سے کہا گیا کہ برف کو جملے میں استعمال کرو۔ بچے نے کہا۔ پانی ٹھنڈا ہے۔ کہا گیا کہ برف کہاں ہے۔ اس نے کہا کہ برف پگھل گئی ہے۔ سیاسی برف بھی کہیں بالکل ہی نہ پگھل جائے۔

قمر الزمان کائرہ نے اعلانیہ کہا ہے کہ صدر زرداری 58 ٹو بی اور سروسز چیفس کی تقرری سمیت بہت سے اختیارات میں کمی پر تیار ہیں۔ گویا پہلے تیار نہ تھے۔ اختیارات میں کمی بیشی سے کیا مراد ہے۔ اختیار ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے اچھے دل و دماغ کے ڈاکٹر بابر اعوان نے کہا ہے کہ ہم سب 73 کا آئین اصل شکل میں بحال کرنے پر متفق ہیں۔ یہ شکل خود بھٹو صاحب کی ترمیموں سے پہلے والی شکل ہے۔ سترھویں ترمیم پوری ختم ہونی چاہئے۔اس طرح کے کاموں کیلئے زرداری صاحب بڑی دیر کے بعد تیار ہوتے ہیں۔ قبل از وقت اور بعد از وقت کاموں میں گڑ بڑ ہو جاتی ہے۔ جس طرح چیف جسٹس کی بحالی کے حوالے سے گڑ بڑ ہو رہی ہے یا گڑ بڑ کی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس ڈوگر کی ریٹائرمنٹ کیلئے چند دن کا انتظار اب انتشار پیدا کر رہا ہے منیر نیازی نے ہمارے جیسے آدمی کیلئے کہا تھا۔ کہ لوگ کاہل ہوتے ہیں۔ ہم بحرالکاہل ہیں۔

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنا ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اُسے آواز دینا ہو اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

اسے آواز دینے واپس بلانے میں کبھی میں نے دیر نہیں کی۔ اس کام میں جلدی بھی اچھی نہیں۔ مگر جو کام ایک حکمران اور صدر کے کرنے والے ہیں۔ ان میں تو بالکل دیر نہیں ہونی چاہئے یہی دیر ہے جس کیلئے کہا گیا ہے کہ دیر اندھیر بن جاتی ہے۔ اندھیر نگری اور چوپٹ راج....آجکل میرا وطن ایسا ہی منظر بنا ہوا ہے۔ ہمارا قصور یہ ہے کہ صحیح طرح سے محب وطن نہ بن سکے۔ ہم ایک دوسرے کے ہموطن بھی نہیں بن سکے۔ وہ کتنے بدقسمت ہیں کہ جو جلاوطن رہنے کے بعد بھی ہم وطن ہونے کی کیفیت پیدا نہیں کرسکے۔ یہی لوگ ہیں جو حکومت پاکستان میں کرتے ہیں اور دولت پاکستان کے باہر رکھتے ہیں۔ ان کے اصل رشتے رابطے وغیرہ بیرون وطن ہیں۔ یہ تو مہمان ہیں۔ انہیں مہمان عزیز بننا نصیب نہیں ہوتا یہ صرف مہمان خصوصی بننا پسند کرتے ہیں۔

جنرل کیانی پہلے وزیراعظم مخدوم گیلانی سے ملے۔ جبکہ نواز شریف نہیں ملے۔ انہوں نے صدر زرداری سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ مخدوم صاحب کو کیوں نہیں بلایا۔ اب تک ساری ایسی ملاقاتیں جن میں فیصلے کرانا تھے وہ نواز شریف نے صدر زرداری سے کی ہیں۔ جن ملاقاتوں میں فیصلے کرنا تھے وہ مخدوم گیلانی سے کی گئی ہیں۔اپنے معاملات اور مفادات کیلئے سازش مخدوم گیلانی کے ساتھ کی۔ معاملات اور مفادات کیلئے کوشش صدر زرداری کے ساتھ کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نوازشریف پارلیمنٹ اور وزیراعظم کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اختیارات کا مرکز صدر زرداری کی ذات ہے۔ وہ پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے صرف وزیراعظم سے ملتے اور صدر زرداری کے ساتھ ملنے سے انکار کردیتے۔ اتنا تو کرتے کہ ہر ملاقات میں وزیراعظم بھی موجود ہوتے۔ جو ملاقاتیں مخدوم گیلانی سے ہوئیں ان سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ وہ انہیں صدر زرداری سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیشہ جنرل کیانی نے صدر سے پہلے وزیراعظم سے ملاقات ضرور کی۔ سترھویں ترمیم کیلئے زیادہ زور اس پر تھا کہ تیسری بار وزیراعظم نہ بننے کی شرط ختم ہو۔ اپنے وزیراعظم ہونے میں یہ رکاوٹ بھی دور ہو جو وزیراعظم اب ہیں ان کو اختیارات لوٹانے کی بات اتنی اہم نہیں۔ میرا خیال ہے کہ مخدوم صاحب اور صدر زرداری میں کوئی دوری نہیں۔ کوئی مجبوری ہے تو وہ معذوری نہیں۔ ایک زبردست سیاست ہوتی ہے کہ لوگ سوچتے رہیں کہ وزیراعظم اور صدر کے تعلقات ٹھیک نہیں۔ مگر ٹھیک ہیں۔ سب ٹھیک تو نہیں۔ لوگ خوش فہمی اور غلط فہمی کے درمیان پھنسے ہوئے ہیں۔

اس سے پہلے بھی نواز زرداری ملاقات کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ نہ اب نکلا ہے۔ جنرل کیانی نے پہلے چیف جسٹس کی بحالی کیلئے ایک کردار ادا کیا۔ وزیراعظم نے بھی اس سلسلے میں ایک مثبت خدمت انجام دی۔ اب سترھویں ترمیم کے خاتمے کیلئے بھی یہی راستہ سیدھا راستہ ثابت ہوگا۔ راہ راست برو گرچہ دور است۔ (سیدھے راستے پر چلو خواہ وہ دور ہی کیوں نہ ہو) راہ راست میدان جنگ کے علاوہ میدان سیاست میں بھی کام آتا ہے۔ ورنہ یہاں تو لانگ مارچ سے بھی شارٹ کٹ کا کام لیا جاتا ہے۔ اب ایک ملاقات کیری لوگر بل پر جنرل کیانی کی وزیراعظم اور صدر کے ساتھ دو ٹوک ہو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ کیری لوگر بل پر نواز شریف نے صدر سے بات بھی نہیں کی۔ بات تو انہوں نے این آر او پر بھی نہیں کی بات نہ کرنے کا کریڈٹ بھی راجہ ظفر الحق نے لیا ہے۔؟ این آر او بھی ختم ہونا چاہئے۔ اس کا نقصان صدر زرداری کو نہ ہوگا اور فائدہ انہوں نے اٹھا لیا ہے بلکہ بہت فائدہ اٹھا لیا ہے۔ اور وہ سترھویں ترمیم چھوڑ بھی دیں تو کوئی فرق نہ پڑے گا۔ ایک بے اختیار صدر کے طور پر محمد رفیق تارڑ نے بھی بہت عزت پائی ہے۔ عزت اختیارات کے زعم میں نہیں۔ عزت بے اختیاری کو انجوائے کرنے میں ہے۔ ہمارے ہاں اختیار کا استعمال بالعموم ناجائز ہوتا ہے۔ ایک لعنت صوابدیدی اختیارات کی بھی ہے۔ ابھی وزیراعظم نے اس کا استعمال بڑے وسیع پیمانے پر کیا ہے۔ اس کیلئے کہا جاتا ہے کہ وہ کمزور اور بے اختیار وزیراعظم ہے کئی جونیئر غیر مستحق اور نالائق افسروںکو ترقی دی ہے اور خوشامدی صحافیوں کو پلاٹ دیئے ہیں۔ بے اختیاری بھی بہت بڑا اختیار ہے مگر ہمارے ہاں اختیار اور اقتدار کو گڈ مڈ کیا جاتا ہے۔ اختیار ایک نشہ ہے بے اختیاری ایک تڑپ ہے۔ع
مینوں لگ گئی بے اختیاری

جنرل کیانی کی وزیراعظم اور صدر سے ملاقات میں بے نظیر بھٹو کی بجائے قائداعظم کی تصویر موجود تھی۔ بے نظیر بھٹو شہید کیلئے میرے دل میں عزت اور محبت کسی سے کم نہیں۔ مگر کچھ لوگوں نے اس عزت اور محبت کو نیلام کردیا ہے۔ بے نظیر بھٹو کی تصویر کا استعمال بھی حکمرانوں نے اس طرح کیا ہے جیسے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ تصویر کے اتنے جا و بے جا استعمال سے لوگ بیزار ہیں۔ وہ شہادت اور قیادت کی روح سے واقف نہیں ہیں۔ نواز شریف نے کہا تھا کہ جنرل مشرف کی روح صدر زرداری کے اندر گھس گئی ہے۔ اس کے بعد وہ ان سے ملے ہیں اور ان سے جنرل مشرف کے خلاف مقدمہ چلانے کی بات بھی نہیں کی گئی۔ جنرل مشرف نے شاہ عبداللہ کے کہنے پر نواز شریف کی سزا معاف کی تھی۔ یہ کونسا قانون تھا۔ شاید این آر او کی کئی قسمیں ہیں ہمارے ملک کے حکمران معافی دینے پر آئیں یا سزا دینا چاہیں تو اس کیلئے کسی قانون یا این آراو کی ضرورت نہیں۔

جنرل کیانی کو بہترین پروفیشنل فوجی کے طور پر ایکسٹنشن دینے کی تجویز ہے۔ اس پر سب متفق ہیں۔ صدر زرداری بھی متفق ہیں۔ ورنہ جنرل مشرف جیسے جونیئر بھی ہوں گے اور چوہدری نثار جیسے آدمی صدر زرداری کے پاس بھی مشورہ دینے والے ہونگے۔ سنا ہے کہ امریکہ میں نئے آرمی چیف کے بارے میں صدر زرداری کے ساتھ کوئی بات طے ہوئی تھی؟ اس ضمن میں وہ نواز شریف کا مشورہ بھی سن لیں۔ میرے تجربے سے سیکھیں اور ”پسند“ کا آرمی چیف لانے کی کوشش نہ کریں۔ حکمران اچھے مشوروں پر کان نہیں دھرتے تاریخ اور ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھتے۔ معذرت کے ساتھ یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا انہوں نے آٹھ سالہ جلاوطنی کے دوران حاصل ہونے والے تجربوں سے خود اور شہباز شریف نے کچھ سیکھا ہے؟
Dr. Muhammad Ajmal Niazi
About the Author: Dr. Muhammad Ajmal Niazi Read More Articles by Dr. Muhammad Ajmal Niazi: 19 Articles with 19043 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.