لال مسجد اپریشن اور نائن الیون کے بعدملک میں دہشتگردی
نے ایک نیا باب کھول دیا تھا۔دھماکوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوچکا
تھا۔فوج، عوام اور سیاستدانوں کے درمیان غلطی فہمیاں پیدا ہوگئی تھیں۔یہ سب
پرویز مشرف صاحب کی غلط پالیسیوں کے ثمرات تھے۔لوگ امریت سے تنگ ہو چکے
تھے۔2008 کے عام انتخابات ہوئے اور پی پی پی نے کامیابی حاصل کر کے وفاق
میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔لوگوں نے خوشیاں منائی اور پی پی پی
حکومت کا دل کھول کر استقبال کیا لیکن پی پی پی نے بھی ملک میں امن وامان
کی صورتحال کو قابو لانے کیلئے کوئی حکمت عملی اپنائی اور نہ ہی عوام کیلئے
کوئی مثبت اقدامات کیں۔البتہ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان
کی تاریخ میں پی پی پی کی حکومت نے پہلی مرتبہ پانچ سال مدت پورا کیا۔پھر
2013 کے عام انتخابات ہوتے ہیں اور پاکستان مسلم لیگ(ن) بھاری اکثریت سے
کامیابی حاصل کرتا ہے۔پی ایم ایل این نے قوم کی کشتی کو بیج منجدھار سے
کنارے تک لانے کیلئے طرح طرح کے منصوبے شروع کیے۔دہشتگردی کو قابو کرنے میں
بہت حد تک کامیاب ہوگئے۔ایک سال میں ملک نے اتنی ترقی کی کہ شاید اس سے
پہلے کبھی کی ہوگی۔اب ہمارے لیے بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ ہر کوئی پی ایم
ایل این سے نا خوش نظر آرہا ہے اور اس کی حکومت کو توڑنے کی کوششیں کر رہے
ہیں۔سانحہ ماڈل ٹاون لاہور کی وجہ سے سب سیاستدانان صاحبان نے پنجاب اور
وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ہر جگہ انتشار کا محاز کھول
دیا ہے۔ایک بات سمجھ سے باہر ہے کہ جب سندھ میں صوبائی حکومت کی نا اہلی کی
وجہ سے کئی بچے بھوکے مر گئے، جب کراچی میں روزانہ درجنوں افراد قتل کر دیا
جاتا تھا ، جب پشاور چرچ میں متعدد لوگوں کی جانیں لی گئیں اور جب ملک میں
دہشتگردی عروج پر تھی تو کہاں تھے یہ لوگ اور کہاں تھا ان کا انقلاب ؟؟؟؟؟اس
وقت شائد سب خوش ہورہے تھے کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ اگر یہی حالت رہی تو ان
کو اگلے انتخابات میں جیتنے کے مواقع ذیادہ ہونگے۔اس وقت انہیں پاکستان کے
بارے میں سوچنا چاہیے تھا نہ کہ صرف اور صرف اپنی ذات ۔کرسی اور مفادات
کیلئے۔۔۔
ہمارے پیارے سیاستدانان صاحبان پی ایم ایل این حکومت کے خلاف شائد ا س لئے
اکٹھے ہو گئے ہیں کہ انہیں پتہ ہیں کہ اگر پی ایم ایل این پانچ سال مدت
پورا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو وہ ملک میں امن لا سکتے ہیں، بجلی کی بحران
پر قابو پا سکتے ہیں، تجارت کو بڑھا سکتے ہیں اور ملک کو ہر طرح کی ترقی
اور خوشخالی دے سکتے ہیں۔اس لئے بہت لوگ یہ نہیں چاہتے کہ پی ایم ایل این
کی حکومت میں یہ سب کچھ ہو جائے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر یہ سب پی ایم
ایل این کی حکومت میں ہوا تو ملک میں ہر دفعہ انتخابات میں کامیابی انہی کی
ہوگی۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ انہوں کو اپنی پارٹی کی فکر ہورہی ہے نہ کہ
اپنی ملک اور غریب عوام کی۔۔۔اگر پنجاب میں پی ایم ایل این کی حکومت ہے تو
باقی صوبوں میں کسی اور کی حکومت ہے۔ اب ہمارے سیاستدانوں کو کام اور
منصوبوں میں ایک دوسرے کیساتھ مقابلہ کرنا چاہئے تاکہ ملک اور عوام کو
فائدہ پہنچ سکے۔تنقید کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ملک کی تاریح میں پہلی
مرتبہ ایک سال میں اتنے کام اور منصوبے شروع ہو چکے ہیں کہ پہلے کبھی نہیں
ہوا۔اب اگر پاکستان اور عوام کا کوئی فائدہ چاہتا ہے تو انہیں پی ایم ایل
این کی حکومت کی تعریفیں کرنی چاہئے اور خود بھی ایسے کام اور منصوبے شروع
کرنی چاہئے جس میں ملک اور عوام کا فائدہ ہو۔
ڈاکٹر صاحب کی انقلاب کا ڈرامہ لوگوں میں عیاں ہوگئا ہے اس لئے انہوں نے
گورنر پنجاب چودھری محمد سرور پر اعتماد کا اظہار کیا اور ان کے ساتھ طیارے
سے باہر آنا مناسب سمجھا۔مسلم لیگ نون کی حکومت پر تنقید کرنے والا اور
حکومت کو ختم کرنے کی دھمکی دینے والا ڈاکٹر صاحب اسی حکومت کے گورنر پر
اعتماد کا اظہار کر کے انقلاب سے لو ٹرن لینے لگا۔اب بھی اگر ڈاکٹر صاحب کے
اس ڈرامہ کو کوئی نہیں سمجھ پاتا تو مجھے ان پر ترس آتا ہے۔سانحہ ماڈل ٹاون
لاہور کے واقعہ پر حکومت پر تنقید کرنے والے اب کہاں کھو گئے جب راولپنڈی
اور لاہور میں عوامی تحریک کے کارکنان قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پولیس
والوں پر پتھراو اور ملک میں انتشار پھیلانے کے در پے ہیں۔ اب اس کا ذمہ
دار کون ہیں؟؟شائد اس کا ذمہ دار بھی نواز شریف اور شہباز شریف صاحب ہیں نا؟؟؟؟؟
انتشار،تنقید، جلسوں اور دھرنوں کا صرف ایک ہی مطلب ہے کہ کسی طرح مسلم لیگ
(ن)کی حکومت ختم ہوجائے، چاہے ملک کا فائدہ ہو یا نقصان، چاہے عوام کا بیڑہ
غرق کیوں نہ ہو جائے اور چاہے پھر مہنگائی آسمان سے باتیں کیوں نہ کرے لیکن
ہمیں تو صرف نواز حکومت کو کسی بھی طرح سے ختم کرنا ہے۔ہم عوام وزیر اعظم
صاحب اور ان کے وزراء کو سلام پیش کرتے ہیں کہ وہ اس مشکل حالات میں ملک کو
بچھانے کیلئے ہر قسم کی تنقید، جلسوں اور دھرنوں کا مقابلہ استقا مت کے
ساتھ کرتے ہیں اور کرتے رہینگے۔ |