پچھلے کچھ دنوں سے اس مخمصے و تزبزب میں مبتلا ہوں کہ آیا
ہم عوام اصل میں بڑے بے وقوف ہیں یا پھر وہ بازاری و مداری سیاسی و مزہبی
رہنما بڑے جادوگر واقعہ ہوۓ ہیں جن کے سحر میں ہم بے پناہ جکڑے ہوۓ ہیں اور
نکلنے کا نام تک نہیں لیتے۔
میرے خیال سے دونوں باتوں میں ہی صداقت ہے۔ بجاۓ زیادہ طویل بحث کے دونوں
کو درست مان لینا چاہیے۔
اب آتے ہیں ان باتوں کی حقیقی تصویر کشی کی کی طرف۔ کوشش ہوگی کہ دو تین
مثالوں سے اصل مدعے پر روشنی ڈالی جاۓ (ویسے تو ڈھیڑوں مثالیں مل جائیں گی)
پچھلے سال جنوری ٢٠١٣ میں علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے انکلاب کے لئے
کینیڈا سے پاکستان کا رخ اختیار کیا اور ٢٣ دسمبر کو لاہور میں مینارِ
پاکستان کے مقام پر بھرپور عوامی اجتماع سے خطاب سے کیا اور آئندہ کا لائحہ
عمل دیا کہ نظام کی تبدیلی ناگزیر ہے اور انکلاب کی اشد ضرورت ہے لحاظہ ١٤
جنوری کو اسلام آباد میں دھرنا دیا جاۓ گا۔ قادری صاحب کے اس موقف پر دوسری
جماعتوں کے اذہان میں تو کافی انتشار تھا کیونکہ الیکشن سر پر تھے اور سبھی
جماعتیں چاہتی تھیں کہ الیکشن ہر صورت اپنے وقت مقررہ پر ہی ہوں۔ البتہ ایک
واحد جماعت متحدہ قومی مومنٹ کی قادری صاحب کو بھرپور تائید و حمایت حاصل
تھی۔ دونوں جماعتں نے دھرنے کو کامیاب کرنے کیلئے چندہ مہم چلائی جسکے لئے
دونوں جماعتوں کے کارکنوں نے کثیر تعداد میں زیورات و نقدی رقوم جمع
کروائیں۔ دھرنے سے چند روز قبل متحدہ قومی مومنٹ نے تو دھرنے میں شرکت سے
معاذرت کرلی۔ اللہ جانے کہ چندے کا کیا بنایا گیا۔ ایسی کوئی خبر نہیں آئی
کہ متحدہ نے کارکنوں کو اُن کا چندہ واپس کردیا۔
کھیل ختم پیسہ ہضم۔
پر مجھے یقین ہے جن لوگوں نے چندہ دیا تھا اگر جماعت ایک مرتبہ پھر مانگے
گی تو یہ عقلمند کارکن دوبارہ بھی لبیک کہیں گے۔ بدلے میں ملے گا کیا ؟؟؟؟
خیر دوسری طرف قادری صاحب کے عزم و ہمت میں رتی بھر کمی نا آئی۔ اُنھوں نے
اپنے لئے بھرپور آسائش والا بلٹ پروف کنٹینر بنوایا اور اسلام آباد جا
دھرنا دیا۔ یاد رہے اُن دنوں شدید ٹھنڈ پڑا کرتی تھی۔ خیر عام کارکنوں کے
لئے سردی سے بچاؤ کے لئے ٹینٹ وغیرہ کا بندوبست تھا پر سردی کھلے آسمان تلے
ٹینٹوں سے کہاں رکتی ہے؟
یہ سلسلہ ٥ـ٤ روز تک چلا اس دوران قادری صاحب اپنے کنٹینر سے باہر نکلے
بغیر وقفے وقفے سے خطاب فرماتے رہے اور کارکن بیچارے کھلے آسماں تلے فقط
اپنے قائد کی گرما گرم اور جوشیلی تقاریر سے تمازت پاتے رہے۔ گو اُن دنوں
بارش بھی ہوئی لیکن کارکنوں کے حوصلے قطعاً متزلزل نا ہوۓ۔ سب سے اہم اور
دلچپ بات قادری صاحب کی وہ تقاریر تھیں جن میں وہ ربِ کعبہ کی قسم اور اس
طرح کی قسمیں کھا کر کہتے رہے کہ یہ دھرنا قطعاً اپنی جگہ سے نہیں ہلے گا
جب تک انکلاب نہیں آجاتا اور اسمبلیاں تحلیل نہیں ہوجاتیں اور یزیدی ٹولے
کو حسینیت سے شکست نہیں ہو جاتی۔ خیر اللہ معاف کرے اُن قسمیں کھا کر بھی
نا ہٹنے والے کو اپنی باتوں کی خود اپنے ہی قول و فعل کی نفی کرنی پڑی جب
بڑی دھٹائی سے انھیں یزیدیوں کے ساتھ بغل گیر ہوۓ۔ تو یوں یزیدی ٹولے کی
خوب توصیف کے ساتھ یہ حق و بطل کا معرکہ بڑے پرامن طریقے سے اتمام پزیر
ہوا۔
اُن قسموں اور وعدوں کا کیا ہوا جو کہ سو فیصد سچ بولنے والے قائد کی مبارک
زبان سے ادا ہوئی تھیں؟؟؟
اور عوام کو ٤ـ٥ روز شدید سردی میں ٹھٹھرنے کے بعد کیا حاصل ہوا ؟؟؟
آگیا انکلاب ؟؟؟
اس واقعے کو ڈیڑھ سال ہونے کو ہے اور قادری صاحب کو پھر سے وہی پرانا
انکلاب والا خواب و خیال وارد ہوا ہے۔
اس مرتبہ بھی کہانی وہی ہے مگر اب کے نئی حکومت اپنا کردار ذرا مختلف انداز
سے نبھا رہی ہے۔ قادری صاحب نے ٢٣ جون کو پاکستان آکر انکلاب لانے اور
حکومت گرانے کی بات کی تو ادھر حکومت نے بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر قادری صاحب
کے گھر کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کے بہانے کارکنوں کو بیہمانہ تشدد کا
نشانہ بنا ڈالا جس سے درجن بھر افراد ہلاک اور بہت سے بیچارے انگ انگ تڑوا
بیٹھے۔ پنجاب حکومت کو اس حرکت کے بعد اخلاقی طور پر استعفٰی دے دینا
چاہیئے تھا۔ مگر ایسا نہیں کیا۔ اور انکے عوامی متوالے بھی کسی طور غلطی پر
ان سے خفا نہیں۔
اس کاروائی کے دوران قادری صاحب کے صاحبزادے ڈاکٹر محی الدین صاحب بھی
لاہور میں تھے پر ان کو خراش تک نا آئی اور آتی بھی کیسے وہ کونسا کارکنوں
کے شانہ بشانے لڑنے کی ٹریننگ رکھتے ہیں۔ ماریں کھانے اور مرمٹنے کیلئے
سیاست دانوں کی اولادیں نہیں بےوقوف کارکن ہوتے ہیں۔
کارکن بیچارے کیا جانیں اِن کی لاشوں کے سہارے ہی تو سیاسی دھندہ چلتا
ہے؟؟؟
٢٣ کو جب قادری صاحب نے اسلام آبد تشریف فرما ہونا تھا تو اس روز بھی
کارکنوں اور پولیس کے مابین جھڑپیں ہوئیں۔ حکومت نے ایک مرتبہ پھر اپنی
نااہلی کا ثبوت دیتے ہوۓ بوجہ ڈر و بوکھلاہٹ قادری صاحب کے طیارے کا رخ
اسلام آباد کی بجاۓ لاہور موڑنے کا حکم دے دیا حالانکہ حکومت نے ایک روز
قبل بڑے واشگاف الفاظ میں ایسی حرکت نا کرنے کا عندیا دیا تھا جو کہ اس
کاروائی کے بعد سفید جھوٹ ثابت ہوا اور دوسری طرف جناب محترم قادری صاحب
بھی لاہور پہنچنے کے بعد بضد تھے کہ لاہور کیوں اُتارا گیا واپس اسلام آباد
لیکر جائیں اور جب تک فوج کے اعلٰی عہدیدار تحفظ کی ظمانت نہیں دیتے تب تک
جہاز سے کسی صورت نہیں اُتریں گے۔ پھر کیا ٢ گھنٹوں بعد اُترنا پڑا کیؤنکہ
فوج نا آئی تحفظ کی یقین دھیانی کروانے اور قادری صاحب نہ اُترتے تو طیارہ
اغوا کیس میں پھنس جاتے اور لینے کے دینے پڑجاتے۔ پس غور و خوض کے بعد
گورنر پنجاب کو بلوا لیا اور ان سے دکھاوے کے مزاکرات کامیاب ٹھہرے تو
طیارے سے باہر اُتر آۓ۔
فوج نہیں آئی توکیا ہوا ؟ اس مرتبہ طیارے سے نا اُترنے کی کوئی قسمیں تو
نہیں کھائیں تھیں ؟؟؟
کارکنوں کو سلام ہے جو ایسے بیمثال قائد کے لیے ڈنڈے سوٹے کھاتے اور اپنی
جانیں بھی گنواتے ہیں۔
حکومت کے متوالوں کو بھرپور تحسیں مبارک کہ ابھی بھی حکومت کے کندھے سے
کندھا ملاۓ کھڑے ہیں ۔ سب جانتے بوجھتے سچ سے نظریں پھیرے ہوۓ ہیں شائد
اسلئے کہ سچ کڑوا ہوتا ہے۔؟؟؟
انکو بھی ملنا ہرگز کچھ نہیں سواۓ جھوٹ، خود فریبی اور دھوکے کے۔
اس کے علاوہ ملک و قوم کو بھی ایسی اندھی تقلید سے سواۓ اندیروں اور بدنامی
کے ہاتھ کچھ نہیں لگنا۔ اگر ہمیں حقیقت میں ملک کی ترقی منظور و مقصود ہے
تو ہمیں ہر قسم کے تعاصب سے خود کو پاک کرنا ہوگا، خود فریبی اور بےوقوفی
کا لبادہ اُتار پھینکنا ہو گا اور آنکھیں کھولنی پڑیں گی، ان میں سچ کا
سرمہ ڈالنا ہوگا۔ ہمیں اپنی سوچوں کو ہر طرح کے شکلی، نسلی، فقری ، سماجی
اور ثقافتی و علاقائی امتیازات سے بالا کرنا کی اشد ضرورت ہے۔ ورنہ دونوں
باتیں ہی لوہے پر لیک کی مانند ہو جائیں گی اور پھر ہم اس میں مقید ہو کر
اپنی دھرتی کی پستی کا اپنی آنکھوں سے تماشہ دیکھا کریں گے۔
آئیں اللہ پاک کے فرمان کی روشنی میں ہوش پکڑیں اور یک جاں ہوجائیں۔
واعتصمو بحبل للہ جمیعا ولا تفرقوا
ترجمہ: اور اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔
|