اچھے حکمرانوں کی خوبی تو یہ ہوتی ہے کہ وہ عوامی جذبات
کی نبض کو محسوس کرتے اور اس کے خلاف کوئی بھی کام کرنے سے گریز کرتے ہیں
لیکن یہاں تو عجیب صورت ہے۔ مزید ان حالات میں نابالغ اور عقل و دانش سے
عاری وزیر اور مشیر صورتحال کو خراب سے خراب تر کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کوئی
اچھے کلمات ادا نہ ہو سکتے ہوں تو چپ رہنا بہتر ہوتا ہے۔ مگر شاہ سے زیادہ
شاہ پرستی کا تاثر دینا ضروری ہے اور ستم یہ کہ جن کا نقصان ہو رہا ہے وہ
بھی ایسے نا عاقبت اندیشوں کے بیانات پر خوش ہیں۔ سزا اور جزا کا وجود اسی
لئے ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔ غلطی کر سکتا ہے اور غلطی کرتا ہے۔ جس سے
غلطی نہیں ہوتی وہ پیغمبر ہے اور اب پیغمروں کا دور نہیں فقط انسانوں کا
دور ہے اور پیغمبروں کی تعلیمات۔ انسان کی عظمت اور برتری اسی میں ہے کہ
اگر غلطی ہو جائے تو اس کا اقرار کرے۔ غلطی کے مضمرات سے آگاہ ہو اور
دیانتداری سے غلطی کے ازالے کی سعی کرے۔ غلطی پر مزید غلطی تو تباہی اور
بربادی کا پیغام لاتی ہے۔ غلطی کا نہ ماننا، ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی سے غلطی
کا دفاع کرنا آج کے دور میں اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ پتہ
ہے کہ کیمرے کی آنکھ ہر اچھی بری حرکت کو محفوظ کرنے کے بعد ساری دنیا پر
عیاں کر دیتی ہے پھر بھی پچھلی صدی جیسی حماقتیں اور غلطیاں کرنا اور میڈیا
پر صاف دکھائی جانے والی چیزوں کو نہ ماننا کچھ سمجھ نہیں آتا۔
منہاج القرآن کے قلعے کو سر کرنے کے لئے جس انداز میں ماڈل ٹاؤن کے علاقے
میں پولیس کشی کی گئی۔ انتہائی قابل مذمت ہے۔ کئی گھنٹے تک محاصرہ کیا گیا۔
جنگلی کتے بھی شکار کے ساتھ ایسا بُرا سلوک نہیں کرتے جیسا سلوک گلو بٹوں
نے بوڑھوں، بچوں اور ماؤں بہنوں کے ساتھ کیا۔ انسانیت ان کے سلوک سے شرمسار
ہی نہیں خون کے آنسو روتی رہی۔ مجھے عوامی تحریک، منہاج القرآن اور علامہ
طاہر القادری سے کبھی کوئی ہمدردی نہیں رہی۔ مگر آفرین ہے ان لوگوں پر۔
سلام ہے ان کی جرات اور ہمت پر کہ اپنے قائد کے اشارے پر انتہائی بے سر و
سامانی کی حالت میں انہوں نے سیدھی سینوں پر آنے والی گولیوں او رپولیس
گردی کا تمام وقت ڈٹ کر مقابلہ کیا اور بالآخر پولیس کو پسپا ہونا پڑا۔ اس
جانکاہ حادثے میں پندرہ کے قریب لوگ جن میں بچے عورتیں اور بوڑھے بھی شامل
ہیں، شہید ہوئے جو یقینا ایک بہت بڑا قومی المیہ ہے مگر حکومت کی طرف سے
اپنے د امن پر لگنے والے اس داغ کو دھونے کی کوئی سنجیدہ کوشش کرنے کی
بجائے مزید مقابلے کا تاثر دکھائی دے رہا ہے۔
ریاست عوام کے لئے والدین کی طرح ہوتی ہے اور عوام ریاست کی اولاد کی طرح۔
مگر اس دن ریاستی قوتوں نے اپنی اولاد سے جو سلوک کیا جس سفاکی اور بربریت
کا مظاہرہ کیا اس نے مسلمانوں کے ساتھ ہنود اور یہود کے سلوک کو بھی مات کر
دیا۔ سوچتا ہوں کیا اس حرکت کے بعد ہم کشمیر، فلسطین اور دنیا کے دوسرے
حصوں میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم اور ستم کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے
یقینا شرم محسوس کریں گے۔ موجودہ قیادت کی سفاکی اور بربریت نے ہمیں پوری
دنیا میں رسوا کر کے رکھ دیا ہے۔ عملی طور پر پنجاب میں جمہوریت نہیں شخصی
حکومت ہے۔ میاں شہباز شریف کی اجازت کے بغیر پنجاب میں چڑیا پر نہیں مار
سکتی مگر میاں صاحب کی سادگی کہ میڈیا میں آ کر بڑے جذباتی انداز میں بتاتے
ہیں کہ ان کو اس آپریشن کے بارے میں خبر نہیں تھی۔ میڈیا نے ایک ایک لمحے
اور ایک ایک واقعے کی منظر کشی اس قدر واضح اور لگاتار کی کہ دنیا بھر کے
لوگ دیکھتے رہے میاں صاحب واحد آدمی تھے جو بے خبر رہے۔ باقی سب باتوں کو
چھوڑ دیں کسی صوبے کے سربراہ کی اتنی بڑی غلطی کیسے نظر انداز کی جا سکتی
ہے اور اس کوتاہی کا مرتکب شخص کس طرح ایک صوبے کی سربراہی کا اہل ہو سکتا
ہے۔ گڈ گورننس کے دعویٰ داروں کو خود بھی اس بات پر غور کرنا چاہئے۔
عوام کے غم و غصے پر قابو پانے کے لئے میاں شہباز شریف نے اپنے دو جانثاروں
کی فرضی اور درشنی قربانی دی ہے۔ رانا ثناء اﷲ سے استعفیٰ لیا گیا ہے اور
ڈاکٹر توقیر شاہ کو او ایس ڈی بنایا گیا ہے۔ اس فیصلے سے عوام کی صحت اور
عوام کے حکومت کے بارے تاثر پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ اس فیصلے کے بارے میں
صحافیوں کو بتاتے ہوئے میاں شہباز شریف نے اپنے ان جانثاروں کے بارے میں جن
جذبات کا اظہار کیا ان سے پتہ چلتا تھا کہ یہ وقتی فیصلہ ہے اور مشتعل
لوگوں کے جذبات کو ٹھنڈ ا کرنے کی ناکام کوشش۔ عملی طور پر وہ لوگ میاں
صاحب کو عزیز تھے۔ عزیز ہیں اور عزیز رہیں گے۔ اندرون خانہ ان کی حیثیت میں
بھی شاید کوئی تبدیلی نہ آئے وہ حکومت میں اسی طرح با اثر رہیں۔ دوسرا میاں
صاحب نے ان کے لئے جس خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کیا۔ بحیثیت چیف منسٹر
میاں شہباز شریف کی موجودگی میں کون شخص ہے جو ان لوگوں کے خلاف بیان دینے
کی جرات کرے۔ خصوصاً سرکاری ملازمین تو انتہائی بے بس ہوں گے۔
میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور ان کے حواری کچھ بھی کہیں یہ فسطائی
حرکت ایک سوچا سمجھا حکومتی منصوبہ نظر آتی ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ پولیس کے
لوگ جو سرکاری ملازم ہیں۔ سرکاری اشیرباد اور بغیر سیاسی پشت پناہی کے عوام
پر فائرنگ کریں اور اپنے ہی لوگوں کو جن کی حفاظت ان کی ذمہ داری ہے، مارنے
کا مکروہ فعل انجام دیں۔ کوئی پولیس والا عوام پر سیدھا گولیاں نہیں برسا
سکتا تا وقتیکہ اس کو باقاعدہ حکم نہ ملا ہو۔ عدالتی ٹریبونل نے موقع پر
موجود تمام پولیس افسروں کی گرفتاری کا فیصلہ دے کر اگر اپنی فعالیت ثابت
کر دی تو وہ لوگ یا تو اس گھناؤنے فعل کی ذمہ داری قبول کریں گے یا ان
لوگوں کی نشاندہی کریں گے جن کی ہدایت پر یہ ظلم ہوا۔ میڈیا کی کوریج میں
موقع پر موجود رہ ماتحت اور ہر افسر صاف نظر آتا ہے۔ ٹریبونل کو ان کی
نشاندہی میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ میاں برادران حکومت میں ہنی مون پر آتے ہین اور
ہنی مون کا عرصہ تو بہرحال مختصر ہی ہوتا ہے۔ وہ ہنی کے متلاشی ہوتے ہیں۔
ہنی جس قدر سمیٹ سکتے ہیں سمیٹتے ہیں اور بس۔ فرق صرف یہ ہے کہ لوگ ہنی کی
تلاش میں جان کو خطرے میں ڈال کر درختوں پر چڑھتے اور ہنی حاصل کرتے ہیں
جبکہ شریف برادران ہنی کے حصول کے لئے پل بناتے اور ان پلوں کو عبور کر کے
ہنی تک پہنچتے ہیں۔ مگر لگتا ہے کہ اب پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے۔
ہنی مون کی مدت ختم ہو رہی ہے اور انجام کچھ اچھا نظر نہیں آتا۔ آج سے چار
ہزار سال قبل بابلین تہذیب کے لوگوں کا وطیرہ تھا کہ جب کسی لڑکے او رلڑکی
کی شادی ہوتی تو لڑکی کے باپ کا فرض تھا کہ وہ اپنے داماد کو پورا ایک
مہینہ شہد کی شراب (Mead) مہیا کرے اور یوں اس کا داماد شادی کا پہلا مہینہ
ہر چیز سے بے نیاز عیش و نشاط میں بسر کرے۔ بابلین کا سال چونکہ چاند سے
منسوب تھا اس لئے یہ عرصہ ہنی مون کہلایا۔ شراب چونکہ شراب ہوتی ہے چاہے
شہد کی ہو یا اقتدار کی اس کا نشہ سر چڑھ کر بولتا ہے اور نشہ جب زیادہ
چڑھتا ہے تو سانحہ لاہور جیسی حماقتیں سرزد ہو جاتی ہیں۔ سانحے کے بعد بھی
اگر نشہ کافور ہو جائے اور انسان اصلاح کا طالب ہو تو ٹھیک لیکن نشہ برقرار
رہے اور کوئی تاریخ سے سبق نہ سیکھے تو ایک فطری انجام تو بہرحال ہمیشہ
حکمرانوں کا منتظر ہوتا ہے۔
ہنی مون کی بات چلی تو جاتے جاتے یاد آیا کہاس ملک کی سیاسی جماعتوں میں سب
سے خوش قیمت جماعت مسلم لیگ (ن) ہے کہ جو اپنے ہر دور کو ہنی مون کی طرح
انجوائے کرتی رہی۔ باقی تمام پارٹیاں جب بھی اقتدار میں آئیں انہیں بہت سے
مسائل اور مصاحب کا ہی سامنا رہا۔ ان کا ہنی مون بھی اس سردار کے ہنی مون
کی طرح رہا جس کی شادی ایک مالدار بیوہ کی ان پڑھ بیٹی سے ہو گئی۔ دولت کی
ریل پیل تھی۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ کچھ دن ہنی مون پر چلے جاؤ۔ سردار
صاحب نے دس پندرہ دن کا ہنی مون پلان بنایا اور خوشی خوشی بیوی کو بتایا کہ
کل وہ دونوں دس دن کے لئے ہنی مون پر جا رہے ہیں۔ بیوی نے ناک بھوں چڑھایا
اور کہا میرا موڈ نہیں۔ تم ہنی مون کے لئے اماں کو ساتھ لے جاؤ۔ |