مجھے کوئی بتائے کہ آج کا تماشہ لگانے کی کوئی ضرورت تھی
؟ سانحہ ماڈل ٹاون کیا پہلے کم تھا ؟ جو پورے ملک کو سیل کرکے عوام کی
ٹینشن بڑھا ئی گئی ؟آنا تو ’’ایک فرد‘‘ نے ہی تھا ناں…… کیا کینڈا سے
براستہ لندن اسلام آباد پہنچنے والا اکیلا فرد کیا اتنا ہی طاقتور تھا کہ
اسکے اسلام آباد لینڈ کرتے ہی تخت تحتہ میں بدل جاتے ؟ اور تاج ہواوں میں
اچھلنے لگتے ؟ حکمرانوں کے پاس سب کچھ تھا…… ریاست کی طاقت تھی ،اور حکومتی
مشینری بھی …… غرض سب کچھ تھا حکمرانوں کے پاس۔ اگر کسی شے کا فقدان تھا،یا
کمی تھی تو یہ کہ حکمرانوں اور انکے وزرا کے پاس عقل کے خانے خالی تھے۔ورنہ
یہ سب کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی……طیارے کا رخ موڑ کر عالمی سطح پر الگ
پاکستان اور اپنی رسوائی کا سامان کیا گیا۔
بالکل ایسے ہی بیانات جنرل مشرف اور انکے وزرا نے بھی دئیے تھے ،جب نواز
شریف اور شہباز شریف کے طیاروں کو لینڈ کرنے کی اجازت مرحمت فرمانے کی
بجائے طیاروں کو واپس لندن اور جدہ بھیج دیا گیا تھا۔جنرل مشرف کے وزراء
اور موجودہ حکومت کے وزرا کے بیانات نکال کر دیکھ لیے جائیں تو انیس بیس کے
فرق کے ساتھ ہوبہو ملیں گے۔
وفاق کے وزرا سے لیکرپنجاب کے نئے وزیر قانون رانا مشہود سمیت کوئی تسلیم
کرے یا نہ کرے لیکن اس حقیقت کو جھٹلانا اتنا آسان نہیں کہ عوامی تحریک کے
سینکڑوں کارکنوں کو پابند سلاسل کیا گیا……لاٹھی چارج اور بے رحمانہ شیلنگ
کی گئی…… لیکن انتہائی ڈھٹائی سے اس حقیقت سے انکار کیا جا رہا ہے…… ارے
بابا!!!! ایسا نہیں کیا گیا تو پھر پورے ملک کو یرغمال کیوں بنایا گیا……آپ
نے اپنے قول فعل سے ثابت کردیا ہے کہ بیرون ملک سے آنے سے ملک کی سلامتی
داو پر لگ سکتی ہے۔اور جنرل مشرف نے جو 2004 میں شہباز شریف کو واپس بھیج
کر کیا تھا وہ بالکل درست اقدام تھا؟ آپ نے جنرل مشرف کے اس فیصلے پر بھی
مہر تصدیق ثبت کردی کہ 2007 میں نواز شریف کو اسلام آباد کے ہوائی اڈے سے
زبردستی واپس جدہ بھیجنا بھی مشرف کا مثبت فیصلہ تھا۔23جون کو جو سرکس
لگایا گیا اگر اس کی بجائے سانحہ لاہور کے شہدا اور زخمیوں کے ورثا کے زخم
مندمل کرنے کی کوشش کی جاتی تو حکومت اندرون ملک اور بیرون ملک ہونے والی
بدنامی سے بچ سکتی تھی۔
طاہر القادری بھی وہیں ہیں،اور ہمارے حکمران بھی وہیں ہیں……دونوں ایک دوسرے
کے لیے اجنبی بالکل نہیں ہیں ۔ بلکہ دونوں یعنی علامہ طاہر القادری
اورہمارے پنجاب اور وفاق کے حکمران ایک دوسرے سے اس قدر شناسا ہیں کہ شائد
اپنی ذات اقدس سے بھی اس قدر شناسائی نہ رکھتے ہوں۔اگر یوں کہا جائے تو بے
جا نہ ہوگا کہ دونوں ’’لنگوٹیے یار ‘‘ہیں۔یہی علامہ طاہر القادری ……جو آج
حکمرانوں کے نذدیک ایک فتنہ اور قابل گردن زنی قرار پا گے ہیں۔ کبھی ہمارے
حکمرانوں کے ’’ روحانی اور دینی امام ‘‘کا درجہ رکھتے تھے…… انہی طاہر
القادری کے اایک اشارہ ابرو پر پنجاب اور وفاق کے حکمران جان چھڑکنے کو
تیار و آمادہ ہوا کرتے تھے۔
جنوری 2013 میں یہی پنجاب کے حکمران شہباز شریف اپنے برادر اکبر کی ہدایت
پر اسی علامہ طاہر القادری کو تمام سہولیات فراہم کر رہے تھے……جب طاہر
القادری اس وقت کے وفاق کے حکمران ’’ زرداری اینڈ کمپنی‘‘ کو للکارتے ہوئے
اسلام آباد روانہ ہوئے…… اس وقت بھی یہی لاہور تھا اور یہی ماڈل ٹاون بھی……خادم
اعلی شہباز شریف نے پوری عزت و وقار کے ساتھ انہیں ( طاہر القادری کو)
لاہور سے اسلام آباد پر چڑھائی کے لیے رخصت کیا تھا……پورے دس کروڑ کی آبادی
والے پنجاب کے کسی ایک مقام پر بھی انہیں اسلام آباد جانے سے روکنے کی کوشش
نہ کی گئی تھی……شائد اس وقت خادم اعلی اور ان کے برادر اکبر اور موجودہ
وزیر اعظم نواز شریف کے نذدیک علامہ طاہر القادری کے’’ لانگ مارچ‘‘ اور
اسلام آباد میں دھرنے سے پنجاب حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہ تھا۔ اور شائد
انکا یہ بھی خیال ہو کہ علامہ طاہر القادری کی’’ منزل اور ٹارگٹ‘‘ اسلام
آباد پر قابض ’’ آصف علی زرداری‘‘ ہیں۔اس لیے انہیں (علامہ طاہر القادری کو)
اسلام آباد پر چڑھائی کرنے دی جائے۔
پنجاب حکومت کی جانب سے مکمل تعاون ملنے کے باوجود اسلام آباد پر قابض ’’
آصف علی زرداری‘‘ اور ان کی حکومت نے ’’ بڑے دل ‘‘ کے ساتھ طاہر القادری کو
اسلام آباد میں ’’ جی آیاں نوں ‘‘ کہا طاہر القادری نے اسلام آباد میں
دھرنابھی دیا……مطالبات بھی رکھے اور منوائے بھی…… لیکن اسلام آباد کی ہر شے
اپنی جگہ قائم ودائم اور برقرار رہی۔نظام زندگی رواں دواں رہا……اس وقت کے
نا اہل اور کرپٹ حکمرانوں نے علامہ طاہر القادری کو پورے عزت و احترام کے
ساتھ واپس لاہور روانہ کیا-
مقام فکر یہ ہے کہ اگر کل طاہر القادری کو عزت اور احترام کے ساتھ پنجاب کی
راج دھانی لاہور سے اسلام آباد روانہ کیا جا سکتا ہے ۔اور اسلام آباد میں
دھرنا اور احتجاج کے باوجود سب کچھ وہیں کا وہیں رہتا ہے۔کچھ تبدیل نہیں
ہوتا، حتی کہ ایک پتا بھی نہیں ٹوٹتا……تو پھر آج علامہ طاہر القادری خطرناک
کیسے ہوگے؟ میرے سمیت پاکستان کے تمام محب وطن حکومت کی جانب سے اس سوال کے
جواب کے منتظر رہیں گے۔ پرویز رشید ،اور دیگر وزرا کو بھی حق حاصل ہوگا کہ
وہ بتائیں کہ طاہر القادری نے کیا سازش کی ہے؟
مجھے تو حکومتی اقدامات دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ حکومت کسی انجانے خوف میں
مبتلا ہے۔ اور گھبراہٹ کا شکار ہے۔ |