ماہ رمضان کی آمد ہے اور یہ وہ مہینہ ہے جو رحمت ‘ نعمت
اور مغفرت کا مہینہ کہلاتا ہے مگر افسوس کہ پاکستان میں اس ماہ سے استفادے
کی بجائے اس کی مخالفت میں ابلیسیت کی چاہت کا رواج عام ہے اور اس ماہ
مبارک کو دولت کمانے کا بہترین و آسان ذریعہ جان کر مہنگائی ‘ گرانفروشی
اور ذخیرہ اندوزی جیسے کار شیطانی سے رغبت کا بھرپور اظہار کیا جاتا ہے جس
کے باعث اس ماہ صیام میں صوم و صلوٰة کے ذریعے مغفرت کی طلب و چاہ کرنے
والوں کیلئے یہ مہینہ انتہائی سخت اور تکلیف دہ بن جاتا ہے جبکہ حکمران
طبقات تمام تر دعووں ‘ اعلانات اور حکومت کی جانب سے دیئے گئے پیکجز کے
باوجود اس ماہ میں گرانفروشی اور ذخیرہ اندوزی جیسے کار ابلیسی کو روکنے
میں اسلئے بری طرح ناکام دکھائی دیتے ہیں کہ ذخیرہ اندوزوں اور گرانفروشوں
کی پشت پر حکمران طبقہ ہی ہوتا ہے جس سے الجھنا نہ تو کسی کمشنر و ڈپٹی
کمشنر کے بس میں ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی اور ادارہ اس قسم کی جرات رندانہ
کا ثبوت پیش کرتا ہے کیونکہ اسیا کرنے والوں کی تنزلی ‘ ٹرانسفر اور ان
کیخلاف جھوٹے الزامات کے تحت تادیبی کاروائی کے سابقہ واقعات دیگر جراتمند
و دیانتدار افسران کیلئے یقینا سبق آموز ہیں ۔اسلئے حکمرانوں کو اپنی حکومت
بچانے کیلئے سرمایہ داروں اور جاگیرادروں کے ہاتھوں بلےک میل ہوکر عوام کو
منافع خوروں کے سامنے لاوارث چھوڑنے کی بجائے حکومت کی جانب سے دی گئی
سبسڈی کے تحت سستی اشیاءکی فراہمی کو ہر صورت یقینی بنوانا ہوگا کیونکہ اس
نے اس مقصد کیلئے قومی خزانے اور عوام کے خون پسینے کی رقم سے چہ ارب روپے
مختص کئے ہیں جن میں کمیشن و حصہ خوری اور بندر بانٹ یقینا اللہ کو ناخوش
کرکے حکومت کے مستقبل کو تاریک کرنے کا باعث بن سکتی ہے !
|