آج کل انتخابی دھاندلی اور انتخابی اصلاحات نے
سیاسی میدان گرم کر رکھا ھے۔اور مزے کی بات یہ ھے۔کہ پورے ملک میں کوئی
سیاسی جماعت یا سیاستدان نھی ھے۔جن کو 2013 کے انتخابات پر تحفظات نہ
ھوں۔لیکن پھر بھی ان تمام برائیوں سمیت اقتدار کے بھوکے سیاسی خاندان اور
الیکٹیبل سیاستدان اس کرپٹ نظام کو پٹری سے اتارنا نہی چاہتے۔حالانکہ شکوک
و شبہات بھی انتہائی زیادہ ھیں دوبارہ گنتی اور انگوٹھوں کے نشانات کی
تصدیق کے مطالبات بھی کر رھے ھیں۔الیکشن کمیشن سے مستعفی ھونے کی باتیں بھی
ھو رھی ھیں۔انتخابی اصلاحات کی باتیں بھی لوگ کر رھے ھیں۔ انقلاب کی باتیں
بھی کچھ لوگ کر رھے ھیں۔ لیکن صورتحال تاحال واضح نہی ھے۔لوگ کئی قسم کی
باتیں کر رھے ھیں۔تو میں بھی کچھ کہوں۔سال 2010 میں جب میں پی آر ایس پی
میں ریجنل جنرل مینیجر لاھور تعینات تھا۔ تو شرقپور (شیخوپورہ) میں دیہات
میں عوام کے ساتھ ڈائیلاگ کئے۔جس کے نتیجے میں کئی دیہی تنظیمیں بنیں۔پھر
ان تنظیموں کے صدور و منیجران کیلئے انتظامی صلاحییتوں کے ٹریننگ کا انعقاد
کیا گیا۔یہ لوگ بڑے جوش اور ولولے کے ساتھ اس ٹریننگ مین شریک ھوئے۔میرا اس
ٹریننگ میں ایک سیشن "دیہی ترقی میں عوام کی شمولییت کا فلسفہ" پر رکھا گیا
تھا۔اس سیشن میں شرکاء نے بڑی دلچسپی لی۔لیکن انہوں نے یہ سوال اٹھایا۔کہ
ھم تو اپنے محلے اور گاوں کی حد تک تو کچھ کر لیں گے۔لیکن پھر یہ سیاستدان
آکے جھوٹے وعدے کر کے سارہ کام خراب کر دیں گے۔میں نے انھیں کہا کہ آپ ووٹ
صحیح استعمال کریں۔ ان کا جواب تھا کہ وہ تو سبھی ایسے ھی ھوتے ھیں۔ ان میں
فرق صرف 19/20 کا ھو سکتا ھے زیادہ نہی۔ میں نےان میں سے ایک آدمی کو مخاطب
کرکے پوچھا۔کہ آپ اپنی تنظیم میں کیا ھیںاس نے جواب دیا کہ مینیجر۔پھر میں
نے پوچھا کہ آپ مینیجر کیسے بنے؟وہ شاید سوال نہی سمجھا۔ میں نے وضاحت کرتے
ھوئے کہا۔کہ آپ نے لوگوں سے کہا کہ مجھے مینیجر بنا دو۔ اس نے کہا نہی۔ میں
نے نہی کہابلکہ لوگوں نے میرے انکار کے باوجود زبردستی بنا دیا۔ میں نے پھر
پوچھا۔ کہ آپ میں ایسی کیا بات تھی۔کہ لوگوں نے زبردستی بنا دیا۔اس نے تو
نہی کہا۔ لیکن اس کے آس پاس کے تنظیموں کے صدور و مینیجروں نے کہا کہ یہ
بہت ایماندار ھے۔اس لئے لوگوں نےاسی کو ھی بنا دیا۔ میں نے ان سب کو کہا کہ
ھر گاوں میں اس طرح تنظیمیں بنیں۔پھر ھریونین کونسل کی سطح پر اور پھر
تحصیل اور ضلع کی سطح پر۔تو پوری ایک زنجیر بن جائے گی۔پھر لوگ ھی صحیح اور
ایماندار لوگوں کو ایم پی اے،ایم این اے،یونین کونسل، تحصیل کونسل اور
ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبران، چیئرمین وغیرہ بطور امیدوار نامزد کریں گے۔پھر
مقابلہ ھوگا ایمانداروں کے درمیان۔اس میں دھاندلی بھی نہی ھوگی۔اور حقیقی
جمہوریت قائم ھو جائیگی۔اور عوام کی بالادستی ھوگی اس میں غصب اور موروثیت
اپنی موت آپ مر جائے گی۔اس نظام میں امیدواران اور الیکشن کمیشن کا خرچہ
بھی انتہائی کم ھو سکتا ھے۔یعنی یہ نظام کم خرچ بالا نشیں ھو گا۔اس میں
آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی خلاف ورزی سے بھی بچا جا سکتا ھے۔ بہرحال ان
خطوط پر سوچ کے اس کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ھے۔ |