میں پاکستان ہوں۔میرے منصہ شہود پہ آنے اور میری آپ بیتی
سے تو آپ بخوبی واقف ہیں۔اس کی تفصیل کیا بیان کروں۔میں نے بہت مدوجزر
دیکھے۔میں نے پیدائش کے دوسرے سال ہی اپنے بنانے والے کی میت ایک کھٹارہ
ایمبیولینس میں سڑک کنارے کھڑی دیکھی۔پھر میں نے اپنے بچوں کو اس بابے کے
جنازے کے ساتھ دھاڑیں مارتے اور روتے بھی دیکھا۔میں نے اس کے بعد سیاسی عدم
استحکام دیکھا اور نہرو کا وہ طعنہ بھی سنا کہ اتنی جلدی تو میں دھوتیاں
نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستان میں حکومتیں بدل جاتی ہیں۔میں اپنے کسی ایک
بیٹے کی تھانیداری کے خلاف ہوں لیکن میری بین الاقوامی برادری میں کوئی عزت
تھی تو وہ ایک فوجی کی مرہونِ منت تھی۔صنعتی ترقی بھی اسی کے دور میں
ہوئی۔یہ جو مجھ میں تھوڑی بہت روشنی ہے یہ بھی اسی کے زمانے میں بنائے گئے
ڈیموں کی وجہ سے ہے۔اس سے بہت ساری غلطیاں بھی ہوئیں ۔اس کے باوجود اس فوجی
کا دور میری سابقہ تاریخ کا سنہرا دور ہے۔
اس کے بعد جو بھی آئے خواہ وہ جمہور کے نمائندے تھے یا بندوق کے،سبھی نے
میرا کبھی نہیں سوچا۔اپنی سیاست کا سوچا،اپنے اقتدار کی طوالت کا سوچا یا
اپنے کاروبار کا۔ان کی اس سوچ کی وجہ سے آج میں لہو لہو ہوں۔گلی گلی محلے
محلے خون بہہ رہا ہے اور کوئی روکنے والا نہیں۔کراچی سے لے کے خیبر تک اور
چاغی سے لے سکردو تک کہیں سے اب مجھے خیر کی خبر نہیں آتی۔پچھلوں کا بویا
ابھی کٹ رہا ہے اور ابھی کا بویا کل کٹے گا۔میرا ایک حصہ تو اپنی بد
اعمالیوں اور بے اعتدالیوں کی وجہ سے میرے بچے پہلے ہی کاٹ کے پھینک چکے۔اس
کے باوجود کسی نے کچھ نہیں سیکھا۔پہلے بھی سب سے پہلے میں اور مجھے نے یہ
دن دکھائے تھے اب بھی بنیادی سوچ وہی ہے۔مجھے کیا ملے گا؟ اب بچت اسی میں
ہے کہ یہ سوچ بدلی جائے۔میں اپنے دوسرے بھائی کے لئے کیا کر سکتا ہوں؟جب تم
یہ سوچنے لگو گے تو اﷲ کی نصرت اور اس کا کرم بھی تمہارے شاملِ حال ہو
گا۔ذات کے حصار سے نکلو۔خدمت کو شعار بناؤ۔وہ جو گونگے ہیں بہرے ہیں اور
نابینا۔۔۔جنہیں تمہارے نظام میں بولنے کی اجازت نہیں نہ سننے کی۔۔۔۔جو دیکھ
نہیں سکتے۔جو وہی کچھ دیکھ سکتے ہیں سن سکتے ہیں اور بول سکتے ہیں جو تم
چاہتے ہو انہیں کان دو انہیں آنکھیں اور زبان دو اگر نہیں تو پھر خون یونہی
بہتا رہے گا۔قربانی ختم نہیں ہو گی۔
سنا ہے تمہارا دشمن تمہارے اس کالے ڈیم کی تعمیر میں رکاوٹ ڈالنے کو بارہ
ارب روپیہ سالانہ خرچ کرتا ہے۔ کیا تم میں کوئی ایک بھی ایسا مردِ مجاہد
نہیں جو دشمن کی اس چال کا توڑ کرے۔جو ٹھیکداروں سے نہیں براہ راست عوام سے
بات کرے۔کیا تم ذاتی مفادات سے اٹھ کے میرے مفاد کا نہیں سوچ سکتے۔میرے وہ
بچے جن سے تم نے ہر اختیار اور ہر اعتبار چھین لیا ہے مجھ سے بہت پیار کرتے
ہیں۔تم ان سے بات تو کر کے دیکھو۔کہنے کو تو تم نے مجھے ایٹمی کر دیا
ہے۔میرے پہلو میں اب تم دنیا کے جدید ترین میزائیل لے کے چلتے ہو لیکن کبھی
میرے پیٹ سے کپڑا بھی اٹھا کے دیکھو۔میں بھوکا ہوں۔میرے بچے بھوکے ہیں۔تم
نے میری طاقت چھین لی ہے۔ میری روشنیاں گل کر دی ہیں۔میرا پہیہ جام ہو گیا
ہے۔پہیہ جام ہو جائے تو بھوک ڈیرے ڈال لیتی ہے میرے بچو۔امن ضروری ہے لیکن
امن کے لئے در بدر ہونے والے میرے ان بچوں کا خیال بھی رکھو جو آمدِ رمضان
کے اس تپتے موسم میں اپنا گھر بار چھوڑ کے بے آسرا پڑے ہیں۔ تم جو اپنے
گھروں میں سکون سے رہ رہے ہو آخر کب ان کی مدد کو نکلو گے؟سنو وہ مجھے سے
پیار کرتے ہیں۔ وہ اﷲ کے ماننے والے ہیں۔ وہ اپنی قربانی سے تمہیں امن کا
تحفہ دینا چاہتے ہیں۔ان کی معصوم کلیوں اور نوخیز پھولوں کا خیال رکھنا۔
باتیں بہت ساری ہیں جو تم سے کہنی ہیں جو تم نے کرنی ہیں لیکن آج مجھے تم
میں سے کوئی ایک ایسا کمپیوٹر کا ماہر پروگرامر مانگنا ہے جو میرے لئے دو
پروگرام بنا سکے۔پہلا پروگرام ، کوئی ایسی ایپلیکیشن جس سے بجلی چوری رک
جائے۔کوئی ایسی مشین جس میں موبائل فون کی طرح کا کارڈ استعمال ہو۔بجلی
کمپنیاں اسی کار ڈ سے بجلی خریدیں اور پھر چھوٹے چھوٹے کارڈ۔ہر بندہ اپنی
ضرورت کے مطابق کارڈ خریدے اور بجلی جلائے۔مجھے پتہ ہے تم میں جو زور آور
ہیں بجلی وہ جلاتے ہیں اور پیسے کمزوروں سے وصول کرتے ہیں۔ یہ ظلم
ہے۔معاشرہ کفر کے ساتھ قائم رہتا ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں۔کیا تمہارے
حکمران کبھی تم سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ملک میں چھ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہو گی
اور ان چھ گھنٹوں میں ہم بھی عوام کے ساتھ ہوں گے۔لوڈ شیڈنگ جس دن لوڈ
شئیرنگ بن گئی تو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔
جب یہ پروگرام بن جائے تو پھر ایک پروگرام ایسا بنانا ہے یا ایسی ایپ جو
دماغوں سے انقلاب کا کیڑا نکالنے یا اسے اسی جگہ مارنے کی اہلیت رکھتی ہو۔
بچو! تم نے صرف انقلاب کا نام سنا ہے۔میں ایک انقلاب ہی کی وجہ سے وجود میں
آیا تھا۔میں نے انقلاب دیکھ رکھا ہے۔لاکھوں سر کٹتے ہیں تو کہیں انقلاب کی
ایک جھلک دکھتی ہے۔انقلاب پہلے آتا ہے اور پھر اسی کے اندر سے اس کی قیادت
جنم لیتی ہے۔باقی سب استحصالی ہتھکنڈے ہیں اور حیلے اپنے اپنے مفادات
کے۔انقلاب کے ستم دیکھنا چاہو تو لاہور میں میری ایک چہیتی بسمہ کو جا کے
دیکھو جس کی ماں کے جبڑے اور پیٹ میں تم لوگوں نے گولیاں ماریں جہاں ایک
اور ننبی سی جان اس دنیا میں آنے کی منزلیں سر کر رہی تھی۔اس کی زندگی میں
انقلاب آ چکا۔انقلاب نیچے کی شے کو اوپر اور اوپر کی شے کو نیچے کرنے کا
نام ہے کیا کبھی ایسا ہو گا کہ نوازا نائی وزیر اعظم بن جائے۔۔۔۔۔چھوڑو ناں
یار۔۔۔۔۔جب میری چھاتی پہ تم میں سے کسی کا بھی خون بہتاہے تو میں جانکنی
کے عذاب سے گذرتا ہوں۔۔۔۔ہے کوئی ایسا پروگرامر جو میرے لئے یہ دو ایپس بنا
دے۔ |