ہلیری آئی ہے اور اسے پشاور میں
بم دھماکہ کرا کے 107 لاشوں کی سلامی دی گئی ہے۔ اس واقعہ کے بعد وہ سیدھی
پشاور جاتی مگر یہ امریکہ تو نہیں۔ امریکہ میں ایک چوہا مر جائے تو ماتم
برپا ہو جاتا ہے مگر عالم اسلام جنوبی ایشیا اور ایٹمی پاکستان میں ہزاروں
لوگ مر رہے ہیں۔ مکھی مچھر کی طرح۔ کیڑے مکوڑے بھی اتنی بے چارگی سے نہیں
مرتے ہونگے۔ جب پشاور خون میں نہا رہا تھا تو وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن وزیر
خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ پریس کانفرنس کر رہی تھی۔ کوئی سوگواری نہ
آئی بلکہ خوشگواری بڑھ گئی۔ خارجہ پالیسی تو امریکہ کی ہے پھر ہم نے کیوں
وزیر خارجہ رکھا ہوا ہے۔ خدا کی قسم وہ سیکرٹری آف سٹیٹ کا پرائیویٹ
سیکرٹری لگ رہا تھا۔ اس وقت اس نے پشاور کے مظلوم لوگوں کے ساتھ اظہار
ہمدردی نہیں کیا مگر ہلیری کو یقین دلایا کہ ہم دہشت گردوں کے خلاف لڑتے
رہیں گے۔ یہ ہماری جنگ ہے۔ یہ جنگ جو امریکہ نے ہم پر مسلط کی ہے جس طرح اب
کیری لوگر بل مسلط کر رہے ہیں۔ قریشی کے چہرے پر غلامانہ لجاجت سے رٹی
رٹائی انگریزی بولتے ہوئے افتخار کا احساس تھا۔ بے شک غلام بھی فخر کر سکتے
ہیں ہمارے ہر وزیر خارجہ نے ایسی ہی باتیں امریکی وزیر خارجہ کے سامنے کی
ہیں۔ صرف بھٹو صاحب استثنیٰ مگر تب وہ وزیراعظم تھے۔ بھٹو کو وزیراعظم ہی
اسی لئے بنایا گیا تھا کہ ان کا برا حشر کیا جائے۔ وزیر خارجہ کو مارنا
امریکیوں کے شایان شان نہیں۔ ہلیری کے دائیں بائیں صدر کرزئی اور صدر
زرداری اسی طرح مؤدب بیٹھے تھے جس طرح وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کھڑا تھا۔
بے نظیر بھٹو کے بعد شاید کوئی نہیں جسے امریکہ عبرت کا نشان بنا سکے۔
ہمارے حکمران خواہ مخواہ دہشت گردوں سے ڈرتے ہیں۔ وہ جس امریکہ سے امیدیں
لگاتے ہیں خطرہ بھی اسی سے ان کو ہوتا ہے۔ آہ! بے چارے پاکستانی حکمران۔
پشاور میں خودکش دھماکے کے بعد بھی ہلیری نے بڑے والہانہ پن سے خطاب کیا۔
ان کے چہرے پر مسکراہٹیں رقص کر رہی تھیں۔ شاہ محمود قریشی بہت مسرور تھے
مگر سہمے ہوئے تھے۔ رات کو ایوان صدر کے عشایئے میں مسکراہٹوں کا مقابلہ
صدر زرداری کے ساتھ تھا اور وہ جیت گئے۔ ایک دن پہلے چار امریکیوں کو افغان
دہشت گردوں کے لباس میں اسلحے سمیت روک کے تھانے لے جایا گیا۔ حیرت ہے کہ
ہماری پولیس میں ایسے لوگ بھی ہیں۔ پھر انہوں نے رحمان ملک کی مداخلت پر
انہیں جانے دیا۔ وہ امریکیوں کو جانے نہ دیتے اور حوالات میں بند کر دیتے۔
وہ امریکیوں سے اگلوا لیتے کہ جی ایچ کیو پر حملہ کس نے کیا۔ بریگیڈیئر کو
شہید کس نے کیا اور پشاور میں دھماکے کون کرا رہا ہے۔ ہر دہشت گردی سے پہلے
غیرملکیوں کی ایسی ہی گاڑی پکڑی جاتی ہے۔ جو پکڑی نہیں جاتی وہ کہاں جا رہی
ہوتی ہے؟ پشاور دھماکے کے لئے کالعدم تحریک طالبان نے حیرانی اور پریشانی
کا اظہار کیا ہے۔ اسفندیار ولی نے بھی دہشت گردوں کے خلاف بڑھکیں ماری ہیں۔
انہیں معلوم ہے کہ اصل دہشت گرد کون ہیں مگر پٹھان بزدل تو نہیں ہوتا۔ وہ
بولتے کیوں نہیں۔ یہاں بھی امریکی سفارت خانے سے کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔
وہ بھی ایسی ہی کارروائی تھی جب وہ خودکش حملے کے بعد اپنے گھر سے ایوان
صدر بھاگ گئے تھے۔
ہلیری ہماری پسندیدہ خاتون ہیں۔ ہم نے تو ان کے لئے پہلی خاتون امریکی صدر
ہونے کی بھی خواہش کی۔ کالے صدر کے لئے ہماری خواہش اس کے بعد شروع ہوئی جب
امریکی عوام نے ایک اچھی خاتون کو مسترد کر دیا۔ امریکہ ہمارے لئے عورتوں
کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ ہمارے ملک میں بے نظیر بھٹو دو بار وزیراعظم بنی۔
پھر اسے شہید کرا دیا کہ وہ تیسری بار وزیراعظم نہ بن جائے۔ ہلیری نے ایک
بے وفا شوہر صدر کیلئے مشکل وقت میں ایک باوفا بیوی کا کردار ادا کیا جو
ہمیں بہت پسند آیا مگر امریکی وزیر خارجہ بن کر اس نے کچھ مایوس کیا ہے۔ اس
نے ثابت کیا ہے کہ وہ امریکی وزیر خارجہ ہے۔ خاتون وزیر خارجہ مگر خاتون تو
کنڈولیزا رائس بھی تھی۔ وہ ٹیکنوکریٹ تھی‘ یہ ڈپلومیٹ ہے۔ فرق صاف ظاہر ہے۔
وہ پاکستان کیلئے اپنی پیشرو کالی وزیر خارجہ کی طرح نہیں اور نہ کالا صدر
اوباما اپنے پیشرو گورے صدر بش جیسا ہے مگر؟ افغانستان اور پاکستان میں
امریکہ کی پالیسی ظالمانہ ہے اور ’’طالبانہ‘‘ ہے۔ امریکی طالبان دنیا کے سب
سے بڑے دہشت گرد ہیں اور ہلیری کہتی ہے کہ بش اور اوباما کی پالیسی میں
زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اللہ کرے یہ صحیح ہو! خوشی ہوئی کہ شاہی مسجد پر
حاضری کے وقت بہادر اور صوفی افسر اور کالم نگار اوریا مقبول جان ساتھ تھے۔
لگ رہا تھا کہ اس کی باتیں ہلیری کی سمجھ میں آ رہی تھیں‘ قریشی کی سمجھ
میں نہیں آ رہی تھیں۔ امام مسجد عبدالخبیر آزاد بڑے وقار اور اعتبار کے
ساتھ ہلیری کے ساتھ تھے۔ مولانا نے انگریزی میں بات کی ہوگی اور یہ مخدوم
گیلانی کی انگریزی سے یقیناً اچھی ہوگی۔ اسلام آباد آجکل امریکیوں کی
جولانگاہ ہے۔ اسے امریکی وزیر خارجہ کیلئے سیرگاہ بنا دیا گیا ہے جہاں کسی
اور کو آنے کی اجازت نہ تھی۔ لاہور تو ہلیری کے لئے خالی کرا لیا گیا۔ اجڑے
پجڑے لہولہان خالم خالی‘ بھوکے پیاسے اور دہشت زدہ پاکستان میں ہلیری کو آ
کے کیسا لگا۔ع
گلیاں ہون سنجیاں تے وچ ہلیری یار پھرے!
شاید ساٹھ برسوں میں پہلی بار لاہور کی مال روڈ بند کی گئی! تعلیمی ادارے
پہلے ہی بند ہیں۔ ٹریفک کا برا حال ہو گیا۔ لاہوریوں کو ہلیری کے آنے کی
خوشی ہوگی۔ امریکی وزیر خارجہ ہونے کے باوجود ہلیری کی خوبصورتی٬ دھیمے پن
اور انکسار میں کمی نہیں آئی۔ ایک مشرقی خاتون کا تاثر اس کے چہرے پر اب
بھی ہے مگر ہمارے حکمرانوں٬ افسروں اور پولیس افسروں کو لوگوں کی خوشی
ناخوشی میں بدلنے کے علاوہ کچھ آتا ہی نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت صرف
یہی ہے۔ حکومتی آمریت اور افسر شاہی نے لوگوں کو بڑے دکھ دیئے ہیں۔ ہلیری
کے آنے پر ایک ہی صف میں سلمان تاثیر اور شہباز شریف کھڑے تھے۔ وہ امریکہ
کے عالمی ایجنڈے کیلئے اکٹھے ہیں۔ جب آپس میں لڑتے ہیں تو بھی اشارہ امریکہ
کی طرف سے آیا ہوتا ہے۔ بہرحال امریکہ سے نفرت کے باوجود ابھی پاکستانی٬
صدر اوباما اور ہلیری سے نفرت نہیں کرتے۔ دونوں ذاتی طور پر اچھے ہیں۔
ہلیری بہت اچھی ہے اللہ کرے وہ سیاسی طور پر اور ’’امریکی طور‘‘ پر بھی
اچھے ہوں! |