سمجھ نہیں آرہا.... پاکستان کب
تک خون آلود ہوتا رہے گا؟
قوم اور حکمران یقین کریں پاکستان کی خونریزی میں بھارت، امریکہ اور
اسرائیل ملوث ہیں
حضرت شیخ سعدی رحمتہ اﷲ علیہ کا ایک قول ہے ”اگر تجھے دوسروں کی تکلیف کا
احساس نہیں ہے تو تُو اِس قابل نہیں کہ تجھے انسان کہا جائے“ اور اسی طرح
جارج برنارڈشا کا ایک قول ہے ”جب تک ہم میں بنی نوعِ انسان کی خوبیاں پیدا
نہیں ہوتیں اُس وقت تک حقیقی انسانی سماج کی تشکیل محال ہے“ یہ دونوں اقوال
آج واقعی امریکیوں کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں جو ناپاک جانوروں (کتے اور
سور) کی تو قدر کرتے ہیں۔ مگر یہ اپنی بقا اور سلامتی اور دنیا کو دہشت
گردی سے پاک کرنے اور اِسے امن کا گہوارہ بنانے کی جدوجہد میں ایسے مگن ہیں
کہ وہ یہ بھی بھول بیٹھے ہیں کہ اِن کے علاوہ بھی کوئی انسان ہے۔ اور وہ
ساری دنیا میں اپنی حکمرانی قائم کرنے اور اِس جیسے بہت سے دوسرے گھناؤنے
عزائم کی تکمیل کے خاطر جدید ترین اور مہلک ایٹمی ہتھیاروں سے مسلمانوں کو
یوں آسانی سے قبر میں اتارنے کا سامان کررہے ہیں کہ جیسے مسلمان اِن کے
ہاتھوں بیدردی سے قتل ہونے کے لئے ہی پیدا ہوا ہے۔ اور امریکا آج انسانی
تکالیف کا اپنے اندر سے احساس ختم کر کے مسلمانوں کے سروں سے دنیا میں ایسا
معاشرہ تشکیل دینے کی جستجو میں لگا ہوا ہے کہ وہ یہ چاہتا کہ دنیا میں اگر
مسلمانوں کو ختم کردیا جائے۔ تو دنیا میں دائمی امن قائم ہوسکتا ہے۔ جو کہ
میرے نزدیک اِس کی ایک بہت بڑی بھول ہے۔ میں امریکیوں سے یہ کہتا ہوں کہ
دنیا میں صرف ایک مسلمان ہی دہشت گرد نہیں ہے۔(اِس لئے کہ مسلمان نہ تو
کبھی دہشت گرد رہا اور نہ کبھی ہوسکتا ہے ) بلکہ اگر امریکی اپنے ہی ملک
میں نظریں دوڑائیں تو اِنہیں اپنے ہی یہاں اتنے دہشت گرد مل جائیں گے کہ جن
کی تعداد اِس کی نظر میں آج کے مسلمان دہشت گردوں سے بھی کہیں زیادہ ہوگی۔
مگر پہلے امریکی اپنے دہشت گردوں کو گولی ماریں تو پھر یہ امریکی اپنے
تصوراتی مسلمان دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے کچھ کریں۔
اور اِس کے ساتھ ہی مجھے یہ بھی کہنے دیجئے! کہ 28 اکتوبر کی دوپہر پشاور
میں ہونے والے سانحہ نے پوری پاکستانی قوم کو خون کے آنسو رُلا دیا ہے۔ آج
اِس المناک اور دلدوز واقعہ کے بعد کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ میں اپنا کالم
کہاں سے شروع کروں اِس سانحہ پشاور جس میں انسان نما درندوں نے اپنے ناپاک
عزائم کی تکمیل کے خاطر کار بم دھماکہ کر کے 110 نہتے اور معصوم انسانوں جن
میں زیادہ تر تعداد خواتین اور بچوں کی تھی انہیں شہید کردیا اور 250 سے
زائد افراد کو شدید زخمی کر کے انسانیت کو لرزا دیا ہے۔ اِس واقع کے پیچھے
بھی امریکا، بھارت، اسرائیل اور افغانستان کی سازش ہے۔ یہ پاکستان کے حاسد
اپنے مقاصد کے حصول کے خاطر یوں ہی نجانے کب تک پاکستان کو لہولہان کرتے
رہیں گے۔
اور آج ایک بار پھر ساری قوم یہ کہنے پر مجبور ہوچکی ہے کہ پاکستان کی بقا
و سالمیت اور اِس کی خودمختاری کے حاسدوں نے پاکستان کے چپے چپے کو لہولہان
کردیا ہے اور حکمران کہیں کیری لوگر بل سے حاصل ہونے والی ڈالرز کی شکل میں
امریکی امداد کے منتظر ہیں۔ تو وہیں یہ ہمارے حکمران چین کی بانسری بجا رہے
ہیں کہ امریکی امداد کی آمد کی شروعات کے ساتھ ہی سب بلکل ٹھیک ہوجائے گا۔
تو اُدھر ہی دوسری طرف یہی حکمران اور ہمارے سیاست دان اپنے اپنے اقتدار کے
اکھاڑے میں لنگوٹ کسے کھڑے ہیں۔ انہیں عوامی تکالیف سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
عوام جیئے یا مرے .....اگر انہیں کوئی فکر ہے تو بس اتنی کہ اِن کا اقتدار
اِن کے ہاتھ سے نکل کر سامنے والے لنگوٹ کسے اُس سیاسی پہلوان کے پاس نہ
چلا جائے جو کبھی فرینڈلی اپوزیشن کے روپ میں نظر آتا ہے تو کبھی یہ خالصتاً
حزبِ اختلاف کا کردار ادا کرتا ہوا اپنی ملی اور قومی ذمہ داریوں کا نبھا
رہا ہوتا ہے۔
الغرض کہ ایوانوں میں حاضر حکمرانوں اور ماضی کے حکمرانوں کے درمیان نورا
کشتی کا دنگل جما ہوا ہے۔ اور عوام یوں ہی اِن سے کچھ اچھا.... اور کبھی
بہت اچھا ہونے کی آس لگائے اِس انتظار میں کبھی راتوں میں تو کبھی یہی پاگل
عوام دن میں بھی تارے گننے میں لگی بیٹھی ہے۔ مگر حکمرانوں کے تو کانوں پر
جوں تک نہیں رینگ رہی ہے کہ وہ عوام کی جانب بھی اِس کی خیر خواہی سے متعلق
بھی کچھ سوچیں۔ وہ تو بس یوں ہی K2 کی دھن میں مگن اپنے اقتدار کی گاڑی کو
جیسے تیسے گھسیٹے جارہے ہیں۔ کہ یہ کسی بھی طرح سے اپنی پانچ سال کی مدت
پوری کرلے اور بس.....مگر اِس کے ساتھ ہی یہ حقیقت بھی اَب پوری طرح سے
عیاں ہوچکی ہے کہ ہمارے حکمران صرف زبانی جمع خرچ کرنے کے تو بڑے ماہر ہیں
اِس کے علاوہ یہ عملی طور پر تو بلکل ڈبہ پیر ہیں۔
بہرکیف!اِس خبر جس کے مطابق طالبان اور القاعدہ کے ذرائع نے پشاور بم
دھماکوں میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم بازاروں اور مساجد
میں کبھی بم دھماکے نہیں کرتے القاعدہ کے مطابق وہ بے گناہوں کے قتل عام
میں ملوث نہیں ہے۔ اور اِس کے ساتھ ہی کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے
میڈیا کو بھیجی گئی ایک ای میل میں دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ
تحریک طالبان مینا بازار میں ہونے والے اِس بم دھماکے میں ملوث نہیں ہے۔
اِس سے یہ بات بلکل واضح ہوجانی چاہئے کہ یہ لوگ پشاور کے واقع میں ملوث
نہیں ہیں اور اَب پاکستانی عوام سمیت ہمارے حکمرانوں کو بھی یہ سمجھ لینا
چاہئے کہ جب اِن کی جانب سے کھلی تردید آگئی ہے تو پھر انہیں یہ جاننے کی
بھی اشد ضرورت ہے کہ پھر پاکستان میں مساجداور بازاروں میں وہ کون لوگ ہیں۔
جو بم دھماکے اور خودکش حملے کروا رہے ہیں۔
اِس کے بعد تو پھر یہ بھی خیال کیا جاسکتا ہے کہ اِس سارے گھناؤنے عمل کے
پیچھے طالبان اور القاعدہ نہیں ہے تو کیا امریکا، بھارت، اسرائیل اور
افغانستان کے ایجنٹ ملوث ہیں۔ جو مسلمانوں کا روپ دھار کر اپنے اِن گھناؤنے
عمل کی تکمیل میں مصروف ہیں۔ جو وہ چاہتے ہیں۔
اِن حالات میں اَب وقت آگیا ہے کہ حکومت ِپاکستان اور عوام کو اِس کا اظہار
ساری دنیا کے سامنے برملا کر دینا چاہئے کہ پاکستان کے اصل دشمن وہ نہیں
ہیں جن پر شک کیا جارہا ہے بلکہ پاکستان کے دشمن تو وہ ہیں جو دوست بن کر
ایک طرف تو ڈالرز کی شکل میں مدد کررہے ہیں تو دوسری طرف پاکستان میں معصوم
اور نہتے انسانوں کی خون کی ندیاں بہانے میں بھی پیش پیش ہیں۔
اور اِس کے علاوہ اگر پاکستان میں جب بھی کبھی المناک واقعات کی تاریخ لکھی
جائے گی تو تاریخ کی کتاب کے اُن صفحات میں جہاں پاکستان میں پیش آنے والے
اور بہت سے ڈھیروں واقعات موجود ہونگے تو وہیں28 اکتوبر2009 کو پاکستانیوں
کی خودمختاری اور سلامتی کی سوداگر امریکی وزیر خارجہ لیڈی ہیلری کلنٹن کی
پاکستان آمد کے چند گھنٹوں کے بعد ہی دن کے ایک بجکر25منٹ پر پشاور میں
واقع پیپل منڈی چوک پر مینا بازار میں پیش آنے والے اِس واقعہ کو بھی ضرور
قلم بند کیا جائے گا۔
جہاں خواتین اور بچے اپنی خریداری میں مصروف تھے کہ ایک انتہائی خوفناک
دھماکا ہوا اور خبروں کے مطابق اس ہولناک دھماکے کے نتیجے میں خواتین اور
بچوں سمیت 110افراد شہید اور 250سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے اور اِس کے
ساتھ ہی دیکھتے ہی دیکھتے اِن معصوم اور نہتے انسانو ں کی لاشیں جل کر
کوئلہ ہوکر ہر طرف بکھری پڑیں تھی اور یہاں اِس روز دیکھنے والوں نے دیکھا
کہ ایک قیامت صغریٰ کا منظر تھا۔ اِس دھماکے نے جہاں اتنی بڑی تعداد میں
انسانوں کو موت کی وادی میں دھکیلا تو وہیں یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پشاور کے
گنجان علاقے چڑی کوبان کار بم دھماکے کے بعد لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور سے
وقفے وقفے سے تابوتوں میں لاشیں ا ٹھتی رہیں اور یہ اِس قدر زیادہ تھیں کہ
تابوت کم پڑ گئے تھے کہا یہ جاتا ہے کہ اِس روز ایک تابوت میں دو دو لاشیں
بھی رکھی گئیں تھیں۔ اور اسپتال کے برآمدے شہدا سے بھرے پڑے تھے۔ شہدا کے
لواحقین خوفزدہ آنکھیں اور کانپتے ہاتھوں سے اپنے پیاروں کو تلاش کرتے رہے
۔اور اپنے مرحومین کی شناخت کے بعد اسپتال کے برآمدے سے اِن کے رونے سے
دلدوز چیخیں بلند ہوتیں تھیں۔ اور وہاں موجود لوگ ایک دوسرے کو دلاسا دینے
کے لئے ڈور پڑتے تھے ۔ نہ صرف یہ بلکہ دھماکہ اِس قدر شدید تھا کہ اِس سے 7
بڑی عمارتیں اور 115 کے قریب دکانیں بھی پوری طرح تباہ ہوگئی تھیں۔ اور آج
ہر محب وطن پاکستان اِس واقعہ پر متاثرین پشاور کے ساتھ اُن کے غم میں
برابر کا شریک ہے اور یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ ہمارے ملک میں یہ آگ اور خون
کی ہولی کون کھیل رہا ہے اور کن کے اشاروں پر یہ سب کچھ یوں آسانی سے کیا
جارہا ہے کہ جیسے پاکستانی انسانی جانوں کی کوئی قدر ہی نہیں ہے۔ اِن کا
قیمتی خون پانی کی طرح یوں سڑکوں، بازاروں اور گلی کوچوں میں بہایا جا رہا
ہے کہ یہ انسان نہیں کسی جانور سے بھی بد سے بدتر ہیں۔ آخر یہ کرنے والے
کون سے لوگ ہیں۔؟ جنہیں زرا برابر بھی اِن معصوم انسانوں پر رحم نہیں آتا
یہ اُن لوگوں کو مار رہے ہیں کہ جن بیچاروں کا کسی بھی معاملے سے کوئی تعلق
ہی نہیں ہوتا ہے۔ بس سوائے اِس کے کہ یہ پاکستانی ہیں اور بس...اِنہیں محض
پاکستانی ہونے کی یہ سزا یوں دی جارہی ہے کہ انہیں امریکا، بھارت، اسرائیل
اور افغانستان اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے خاطر اِنہیں موت کی نیند سلا
رہے ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے۔؟ اور یہ آخر کب تک ایسا کرتے رہیں
گے...؟حکمرانوں جاگو....اور قوم کو اِس کا جواب دو......(ختم شد) |