خدا نہ کرے کسی کو سوئی گیس سمیت کسی پبلک
ڈیلنگ والے محکمے کے ساتھ واسطہ پڑ جائے ۔اگر ایسا ہوجائے تونہ صرف پہلے
کئی کئی گھنٹے کھڑے ہونے کی پریکٹس کرلینی چاہیئے بلکہ دو اڑھائی کلومیٹر
مسلسل چلنے ٗ سراغ رسانی کرکے متعلقہ ڈیلنگ کلرک / افسر تک پہنچنے کی
پریکٹس کرنا بہت ضروری ہے ۔جن لوگوں کے گھٹنوں میں درد ہو یا ان کو قوت
سماعت میں کمی کا مسئلہ درپیش ہو یا بائی پاس کا آپریشن کروایا ہو یا جن کو
پیچش کی شکایت ہو یا جن کو سانس اکھڑے کا مرض لاحق ہو یا جن کی بینائی
کمزور ہو ۔ضرورت کتنی بھی شدید کیوں نہ ہو انہیں نہ تو سوئی گیس کے پبلک
ڈیلنگ والے دفتر جانا چاہیے اورنہ ہی کسی لائسنسنگ اتھارٹی ٗ رجسٹریشن
اتھارٹی ٗ پراپرٹی ٹیکس کے دفتر میں جانے کی خواہش دل میں رکھنی چاہیئے ۔کیونکہ
پاکستان میں پبلک سے ووٹ تو لچھے دار تقریریں کرکے ہر الیکشن میں مانگ لیے
جاتے ہیں اقتدار میں آکر عوام کے مسائل اور پریشانیوں کو ایسے بھلادیتے ہیں
جیسے انسان اپنے برے دنوں کو بھول جاتا ہے ۔عمران خان سے سیاسی اختلاف کیا
جاسکتا ہے لیکن کسی کو شوکت خانم ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا ہو تو وہاں آنے
والوں کے ساتھ جو بہترین سلوک کیا جاتا ہے اسے دیکھ کر دل خوش ہوجاتا ہے ۔موبائل
کمپنیوں کے فرنچائز دفاتر میں جونہی کوئی شخص داخل ہوتا ہے تو جس طرح چہرے
پر مسکراہٹ بکھیرے پبلک ریلیشنز آفیسر ( نوجوان مرد / خوش مزاج لڑکیاں)خوش
آمدید کہتی ہیں پھرایک شخص آنے کا مقصد پوچھ کر متعلقہ مشین سے ٹوکن نکال
کر انہیں ائیرکنڈیشنڈ ماحول میں خوشنما کرسیوں پر بیٹھنے کے لیے کہہ دیتاہے
ہر کاؤنٹر پر نمایاں لفظوں میں نمبر اور بڑی سکرین پر ٹوکن نمبر مسلسل
تبدیل ہوتے دکھائی دیتے ہیں یہ سب کچھ اتنا تیزی اور خوبصورتی سے ہوتا ہے
کہ نہ توسفارش کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ ہی انتظار کی کوفت اٹھانی پڑتی ہے ۔شوکت
خانم ہسپتال میں دو مرتبہ جاچکا ہوں دونوں مرتبہ موبائل فرنچائز جیسا ماحول
اور خوش مزاج عملے کی بہترین کارکردگی نے مجھے بے حد متاثر کیا ہے وہاں
انتہائی پڑھے لکھے امیر اور غریب مرد و زن دیکھنے کو ملے لیکن کسی کے ماتھے
پر پریشانی کے آثار دکھائی نہیں دیئے ہر شخص مطمئن دکھائی دے رہا تھا ۔بات
کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتاہوں کہ مجھے گزشتہ دس پندرہ
سال سے گھٹنوں میں شدید دردکا احساس اور کانوں میں قوت سماعت میں کمی کا
مرض لاحق ہے ایک فرلانگ کا فاصلہ بھی میرے لیے دس میل بن جاتا ہے۔جنرل
محمدضیاء الحق کو اﷲ تعالی غریق رحمت کرے ان کی ایک بیٹی(زین ضیا) ابنارمل
تھی جس کو درد ہوتا ہے اس کی شدت وہی جانتا ہے ضیاء الحق نے ہر دفتر( بطور
خاص پبلک ڈیلنگ والے سرکاری اداروں ٗ بنکوں) میں معذوروں کے لیے الگ کاؤنٹر
اور وہاں تک پہنچنے کے لیے آسان راستے بنوائے تھے ان کے بعد کسی حکمران کو
معذوروں اور بیماروں کی تکلیف کااحسا س نہیں ہوا ۔حال ہی میں مجھے ایک ایسے
مکان میں شفٹ کرنا پڑا جس میں گیس کا کنکشن نہیں تھا ڈیمانڈ نوٹس کی رقم
جمع ہوچکی تھی۔بہت بھاگ دوڑکے بعد ناکامی کاسامنا کرنا پڑا تو سوچا نوائے
وقت اخبار سے وابستگی ہی شاید میرے لیے آسانی پیدا کردے یہ سوچ کر میں
لاہورمیں سوئی گیس کے ہیڈ آفس ایجرٹن روڈ جا پہنچا۔ ایک سنئیر افسر کی
مہربانی سے دفتر کے اندر تو پہنچ گیا لیکن ایم ڈی اور ڈی ایم ڈی صاحبان سے
ملاقات نہ ہوسکی ۔سنیئر جنرل مینجر ساؤتھ کے کمر ے میں پہنچا تو ان کاکمرہ
اتنا بڑا تھا جتنا میرا گھر ۔پھر فائیوسٹار ہوٹل جیسے ماحول میں انہوں نے
میری درخواست پر دستخط کرکے جنرل مینجر لاہور کو مارک کردی۔ میں اپنی اس
کامیابی پر بہت خوش تھا کہ 80 فیصد کا م ہوچکاہے اب میں جی ایم لاہور
گورومانگٹ روڈ گلبرگ پہنچاؤں تو وہاں کے ملازمین خوشدلی سے میرااستقبال
کرتے ہوئے چند دنوں میں کنکشن لگادیں گے اس خوش فہمی کا شکار جب میں اگلی
صبح وہاں پہنچا تو ہر کھڑکی اور کاؤنٹر پر انسانوں کی لمبی قطار دکھائی دی
جبکہ جی ایم سے ملنا تو مینجنگ ڈائریکٹر سوئی گیس سے ملنے سے بھی زیادہ
مشکل تھا۔ ہرافسر سے درخواست کی لیکن بھی دفتر کے اندر جانے کا پروانہ دینے
کو تیار نہیں تھا ایک ہمدرد افسر جلال صاحب کے توسط سے پروانہ حاصل کرنے
میں کامیاب تو ہوگیا لیکن جی ایم کے بالائی دفتر تک پہنچتے پہنچتے گھٹنوں
کے درد کی وجہ سے میں گرنے والا ہوگیاہانپتا کانپتا وہاں پہنچا تو پتہ
چلاکہ جی ایم موجود ہیں اس وقت ساڑھے دس کا وقت تھاکمرے کے باہر ملاقات کا
وقت دس سے بارہ بجے لکھاتھا۔سیکرٹری نے مجھے ٹرخانے کی حتی المقدور کوشش کی
لیکن میں تو طارق بن زیادہ کی طرح کشتیاں جلا کر گیا تھامیں یہ کہتے ہوئے
وہاں بیٹھ گیا جی ایم جب بھی آئیں گے مل کر ہی جاؤں گا۔ ایک شناسا شخص نے
بتا دیاتھاجب تک جی ایم کو خود نہیں مل لیتے اس وقت تک گیس کنکشن ڈروانا
خواب ہی رہے گا ۔ پھر زیارت کروائے بغیر ہی جی ایم نے درخواست چیف انجینئر
کو فاروڈ کردی جنہوں نے ڈویلپمنٹ سیکشن کے انچارج فرازصاحب کو انہوں سلمان
کو انہوں نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک اور شخص کو پھر وہاں سے ایک اور
سیکشن میں چلی گئی ۔میں پانچ منٹ سے زیادہ کھڑا نہیں رہ سکتا تھا لیکن یہاں
دربدر ٹھوکریں کھاتے ہوئے پونے دوگھنٹے ہوچکے تھے یقین اب بھی نہیں تھا کہ
کام ہوجائے گا ۔ وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی جو سوئی گیس کے
انچارج وزیر ہیں اور مینجنگ ڈائریکٹر سے یہ درخواست کرناچاہتا ہوں کہ جن
لوگوں کے ٹیکسوں سے آپ لوگ ائیرکنڈیشنڈ گاڑیوں فائیوسٹار ہوٹلوں جیسے
پرتعیش ماحول میں لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں وصول کرکے خوب انجوائے کررہے
ہیں کیا ان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے شوکت خانم ہسپتال اور موبائل
فرنچائزجیسا ماحول فراہم کرنا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ جی ایم لاہور کے
دفتر میں بلوں کو درست کرنے کی صرف ایک ہی افسر کی ڈیوٹی کیوں لگائی جاتی
ہے اگر ایسا ممکن نہیں توایسی مصروف ترین سیٹ پر ہر گھنٹے بعد تازہ دم خوش
مزاج افسر تبدیل کیوں نہیں بٹھایا کیا جاتا۔ عمر رسیدہ افراد اورجسمانی
معذوروں کے لیے الگ کاؤنٹر کیوں نہیں لگائے جاسکتے پھر گیٹ سے جی ایم آفس
تک پہنچنے کے لیے معذور افراد کے ویل چیئر کیوں رکھی نہیں جاسکتی ۔جی ایم
ہو ٗچیف انجینئر ہو یا ڈویلپمنٹ افسر ان تمام کو مین گیٹ سے ملحقہ دفاتر
میں صبح آٹھ بجے سے 1 بجے بیٹھ کر عوام کی براہ راست شکایات کاازالہ کرنے
کا پابند کیوں نہیں بنایا جاسکتا یہ سب کچھ ہوسکتا ہے اگر نیت صحیح ہو اور
دل عوام کی خدمت سے سرشار بھی ہو۔ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ میں جس
نشست پر بھی گیا وہاں بیٹھے ہوئے ملازمین سائلین کو چھوڑ کر مسلسل موبائل
انٹرنٹ پر چیٹنگ اور مسیجنگ کرنے میں اپنا زیادہ وقت صرف کررہے تھے۔ پبلک
ڈیلنگ کے محکموں(بطور خاص سوئی گیس)میں دفتر اوقات کے دوران کسی بھی افسر
یا ملازم کو موبائل رکھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے ۔صرف کام اور کام پر
ہی توجہ مرکوزہونی چاہیئے۔تاکہ مصیبت کے مارے ہوئے سائلین کی جلد اور بروقت
داد رسی ہوسکے۔وزیر بننا صرف لاکھوں روپے مالی مراعات اور سہولتیں حاصل
کرنے کا نام نہیں ہونا چاہیئے بلکہ پاکستان بھر کے جتنے بھی سوئی گیس کے
حوالے سے پبلک ڈیلنگ کے دفاتر ہیں وہاں وفاقی وزیر کو کم ازکم مہینے میں
ایک مرتبہ ضرور عوام کی شکایات کے ازالے کے لیے موجود ہونا چاہیئے قدم قدم
پر ٹیکس دینے والے تو ذلیل و خوار ہوں گھنٹوں کھڑے کھڑے تھک جائیں کام پھر
بھی نہ ہو لیکن عوام کے ٹیکسوں سے بھاری تنخواہیں وصول کرنے ٹھاٹ سے
ائیرکنڈیشنڈ دفتر میں بیٹھ کر کام کرنے کی بجائے موبائل پر چیٹنگ سے
انجوائے کریں اب اس روایت کو ہرحال میں ختم ہونا چاہیئے وگرنہ عوام کا
بڑھتا ہوا غصہ انقلاب کی صورت بھی اختیار کرسکتا ہے ۔یہ انقلاب عمران خان
والا نہیں اصلی والا انقلاب ہوگاجس میں عوام کا ہاتھ حکمرانوں اور افسروں
کے گریبانوں تک پہنچ سکتا ہے ۔ |