انقلابی اور اس کا ایجنڈا

ہم ہر بے گھر کو گھر دینگے، جو گھر تعمیر کرنے کی سکت نہیں رکھتے ان کو 20 سے 25 سالوں کیلئے بلا سود قرضہ دیا جائیگا۔ جو واپس نہ کر سکے ان کو معاف کر دیا جائیگا، ہر ایک پاکستانی شہری کو نوکری ملے گی، نوجوانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کیلئے مدد فراہم کی جائیگی،پانی، بجلی، گیس کو ٹیکسز سے مثتثنیٰ قرار دیا جائیگا۔ غریبوں کو صحت کی مفت سہولت دی جائیگی۔یکساں نصاب کے ساتھ میٹرک تک مفت تعلیم یقینی بنائی جائیگی،50ملین ایکڑ زمین غریب کسانوں میں تقسیم کرینگے،ملک سے دہشتگردی،انتہا پسندی ختم کرنے کیلئے دس ہزار تربیتی سنٹرز قائم کیے جائیں گے،خواتین کو سماجی تحفظ کے ساتھ ساتھ گھروں میں صنعتی کام کے مواقع فراہم کیے جائیں گے، نجی اور سرکاری شعبہ کے تمام ملازمین کے سروس سٹرکچر میں اضافہ کرینگے۔

بڑا دلکش اور منفرد اس(انقلابی) کا ایجنڈا ہے، اس نے آج سے کئی برس قبل 25 مئی 1989 میں اسی لئے تحریک کی بنیاد رکھی تھی، اس نے اپنی پارٹی کی بنیاد رکھتے ہی واضح کر دیا تھا کہ ہم ملک میں جمہوری کلچر کو فروغ دینگے۔ معیشت کی مضبوطی، انسانی حقوق کا تحفظ اور خواتین کا پاکستانی سیاست میں کردار بنیادی مقاصد ہونگے۔ اس نے 1990ء کے قومی انتخابات میں بھرپور حصہ لیا لیکن منتخب نہ ہو سکا، 12 اکتوبر 1999ء کے فوجی اقدام کا بھرپور ساتھ دیا۔ سابق صدر پرویز مشرف کو ریفرنڈم میں بھی پر جوش کردار رہا۔ 2002ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے لیکن دو سال بعد ہی 2004 ء میں اسمبلی رکنیت کو خیر باد کہہ کر کینیڈا میں ڈیرے ڈال لئے اور سات سال تک وہیں رہے۔ 2012ء میں انقلاب کا ایجنڈا لیکر وطن واپس لوٹے، اسلام آباد میں 2 سے اڑھائی لاکھ افراد کے ساتھ ’’ملین مارچ‘‘ کیا، 4 دن تک اسلام آباد میں دھرنا دئیے رکھا، آخر کار یہ دھرنا ایک مفاہمتی معاہدے کے تحت ختم ہوگیا، جو بعد میں ایک کاغذ کا ٹکڑا ثابت ہوا، اس نے 2013ء کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور واپس کینیڈا چلے گئے، ایک سال تک مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو وقت دیا اور موصوف نے 23 جون کو پاک سر زمین پر قدم رنجہ فرمائے۔ پہلے اسلام آباد اترنے کا پروگرام تھا لیکن حکومت نے اترنے نہ دیا، ان کے طیارے کا رخ لاہور کی جانب موڑ دیا گیا، انہوں نے ساڑھے 6 گھنٹے تک طیارے کو ہائی جیک کئے رکھا۔ فوج فوج پکارتے رہے۔ فوج مدد کو نہ آئی تو گورنر پنجاب کی گاڑی میں بیٹھ کر ماڈل سیکرٹریٹ پہنچ گئے۔ اگر دنیا بھر کے انقلابیوں کی زندگیوں اور جدوجہد کا اندازہ لگایا جائے تو ان والی ایک خوبی بھی موصوف میں نہیں، نیلسن منڈیلہ ایک کیمونسٹ انقلابی ،جس نے رنگ و نسل کی تفریق ختم کروانے کے لئے اپنی زندگی لگا دی اس جدوجہد میں دربدر کی ٹھوکریں کھائیں، سالوں جیل میں رہے، افریقہ کے صدرمنتخب ہوئے، جدوجہد میں زندگی گزاردی۔ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ نے امریکہ میں سول رائٹس سماجی تبدیلی کی جدوہد میں اپنی زندگی قربان کر دی۔ برما کی آن سان سو کائی سے کون واقف نہیں، ہر ایک جانتا ہے جس نے فوجی آمریت کیخلاف جدوجہد کی تو 21 سال تک اپنے گھر میں نظر بندی میں گزار دئیے لیکن فوجی آمریت کی ملک سے باہرجانے کی آفر کو قبول نہ کیا۔ ایران کے آیت اﷲ خمینی کی جدوجہد بھی سب کے سامنے ہے، مصر کے اخوان نصف صدری سے زائد کا عرصہ انقلابی جدوجہد میں گزار چکے ہیں۔ اخوان کے بانی حسن البنا کو شہید کیا گیا، سید قطب سے بڑا دنیا میں شاید ہی کوئی بڑا عالم ہو نے بھی اسی جدوجہد میں زندگی قربان کر دی۔چین کا ماؤزے تنگ بھی ناقابل فروش انقلابی تھا، ہمارے پاکستان میں کئی نام ہیں۔ دنیا میں صدی کا سب سے بڑا انقلاب پاک و ہند کی تقسیم تھی، جس کی جدوجہد اور کامیابی کا سہرا ایک نحیف اور جسمانی طور پر کمزور لیکن ارادوں میں کوہ ہمالیہ سے زیادہ مضبوط قائد اعظم محمد علی جناحؒکے سر پر ہے، جنہوں نے ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کی زندگیاں قربان کرکے ملک حاصل کیا، خود مہلک بیماری میں مبتلا ہونے کے باوجود تحریک آزادی میں پیش پیش رہے، سید مودودی، ذوالقفار علی بھٹو، کئی ایسے نام ہیں جنہوں نے انقلابی جدوجہد کی، زندگی نہیں نظریے کو ترجیح دی، پسپائی کی بجائے تختہ دار کو چوما۔

انقلابی قافلے کی قیادت کون کررہا ہے؟ شیخ رشید احمد جن کی عوامی مسلم لیگ جس کے حامی ایک سالم تانگے میں پورے آجاتے ہیں۔ پرویز الٰہی جنہوں نے اپنے صاحبزادے مونس الٰہی پر پابندی لگائے رکھی کہ جب تک میں وزیرِ اعلیٰ ہوں بینک آف پنجاب سمیت کسی مالیاتی ادارے کے سامنے سے گذرنا بھی نہیں۔ چوہدری شجاعت حسین جنہوں نے لال مسجد اسلام آباد پر حملے کے فوراً بعد مشرف حکومت کے استعفے کا مطالبہ کردیا۔یہ وہ مسلم لیگی ہیں جو فوجی حکمرانی کے دور میں اقتدار میں آئے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کو قوی فریضہ اور باعث تقویت قلب و روح سمجھتے ہیں،فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں چودھری شجاعت نگران وزیر اعظم،چودھری پرویز الٰہی وزیر اعلی پنجاب اور شیخ رشید احمد وفاقی وزیر اطلاعات کے عہدوں پر متمکن رہے ہیں لیکن بعد میں فوجی حکمران کی سرپرستی کے بغیر ہونے والے دو عام انتخابات کے نتائج نے ان کی انتخابی اہلیت کا پول کھول دیا ہے،یہ رہنما بمشکل اپنی اپنی نشستوں پر ہی کامیاب ہوپائے۔۔چلیں صاحب،قادری صاحب کی پاکستان آمد کے مقاصد اور ان کے حصول کے لئے اپنائے جانے والے طریقہ کار کے بارے میں مختلف اطراف سے مزے مزے کے تجزیے اور امکانات کا اظہار کیا جا رہا ہے- تاہم اس حوالے سے کم و بیش ایک اتفاق رائے بہرحال نظر آتا ہے اور سوائے قادری صاحب کے جان نثاروں کے سبھی کا یہ ماننا ہے کہ قادری صاحب کا سیاسی قدوقامت اونچا کرنے میں خود ان کے پلان اور ہوشیاری سے زیادہ وفاقی اور پنجاب حکومت کی جانب سے اپنائے جانے والے طریقہ کار کا زیادہ ہاتھ ہے-تاریخی پس منظر تو یہی دلالی کرتا ہے کہ انقلاب بیساکھیوں کے سہارے،بلٹ پروف کیبن میں بیٹھ کر نہیں آیا کرتے،انقلاب جب بھی آیا قیادت نے پہلے کارکنوں نے بعد میں ڈنڈے کھائے،مصیبتیں اٹھائیں،انقلاب بار بار بیانات نبدیل کرنے،یوٹرن پہ یوٹرن لینے سے بھی نہیں آتے،جس راستے میں زیادہ موڑ ہوں اس کے مسافر منزل کھو دیتے ہیں!۔۔انقلابی کا تو راستہ ہی ’’یوٹرنوں ‘‘سے بھرا پڑا ہے،جس کا مظاہرہ دنیا نے پہلے ملین مارچ میں دیکھا اور اب انقلابی سفر میں۔میں نے بڑی کوشش کی،انقلابیوں کی ویب سائٹس کو بھی کھنگالا مجھے نظام میں تبدیلی والی کوئی بات نظر نہیں آئی،جو دس نکاتی ایجنڈا پیش کیا گیا ہے اس پر حکومت کسی نہ کسی صورت میں عمل پیرا ہے،غریبوں،مزدوروں کو گھر بھی دے رہی ہے،نوجوانوں کو نوکریاں،بیروزگاروں کو ہنر مند بھی بنا رہی ہے،تعلیم کو عام کرنے کیلئے بھی کوشاں ہے،معیشت بھی پہلے سے قدرے مضبوط ہو رہی ہے،انقلابی کے انقلاب کی منزل اقتدار ہے تو فوج کی مدد کے بغیر ناممکن ہے،اگر حقیقی تبدیلی منزل ہے تو وہ سیاسی یتیموں کے کندھوں پر سوار ہو کر نہیں آ سکتی،کسی اور کو ہمنوا بنانے میں ہی آئے گی۔۔۔انقلابی صاحب! یہ معاشرہ بے حس ہے،سرمایہ داروں سے مرعوب،جوتیاں کھا کر بھی سدھرنے والا نہیں،نظام جیسے چل رہا چلنے دیں،یہ آج آپ کا ساتھ دے بھی دیتا ہے تو کل آپ کو ہی کسی چوک چوراہے میں لٹکا دے گا۔
Azhar Thiraj
About the Author: Azhar Thiraj Read More Articles by Azhar Thiraj: 77 Articles with 68462 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.