ملک کا درجہ حرارت سیاسی طور پر
اور موسم کے لحاظ سے گرم ہوتا جارہا ہے پچھلے دنوں ڈاکٹر طاہرالقادری کی
آمد آمد تھی تو پولیس نے مسلح غنڈہ گردی کرتے ہوئے جن رکاوٹوں کو ختم کرتے
ہوئے 19لاشیں گرائی وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی آمد کے بعد دوبارہ رکھ دی گئی
ہیں مگر جو لوگ اس دنیا سے چلے گئے ہیں انکا کون کس کے ہاتھوں پر تلاش کیا
جائیگا جس طرح حکومت نے قادری صاحب کی آمد پر سب کچھ کنٹرول کرلیا تھا کیا
رکاوٹیں اٹھانے پر پولیس کو بندے مارنے کا اختیار دینے کی بجائے بات چیت کے
زریعے اس مسئلہ کو بھی ختم کیا جاسکتا تھا مگر پتہ نہیں بٹوں کی اس حکومت
میں کون کون گلو بٹ شامل ہیں جو ڈنڈے لیکر عوام کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں بات
ہو رہی تھی موسم کی تو گذشتہ روز لاہوبارش کی وجہ سے لاہور کا موسم بڑا
پیارا تھا میں بھی شاہی قلعہ چلا گیا مگر جاتے ہوئے جو مشکلات اٹھانی پڑی
وہ بڑی ہی تکلیف دہ تھی کوئی راستہ سیدھا اس طرف کو نہیں جاتا اورپھر وہاں
جاکر جن جن حکومتی کارناموں کا نکشاف ہوا وہ زرا آپ لوگ بھی ملاحظہ فرما
لیں مگر سب سے پہلے یہ بھی لکھتا چلوں کہ مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت نے
جہاں بہت سے اور اداروں اور شخصیات کو بے توقیر کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا
ہے وہی پر پاکستان کے اثاثہ جات کو بھی بری طرح تباہ و برباد کرنے کا کام
شروع کردیا ہے میرٹ سے ہٹ کر اور اپنوں کو نوازنے کی پالیسی نے ملک کو پستی
کی طرف دھکیل رکھا ہے جو سرکاری ملازم جس کام سے جتنا زیادہ لاعلم اور عوام
دشمن ہوگا اسے ہی ڈھونڈ کر اس محکمہ کا سربراہ لگا دیا جاتا ہے آپ مختلف
اداروں کے سربراہوں اورپنجاب کے شہروں کے ڈی سی اوز کو دیکھ لیں جن کوصرف
میرٹ سے ہٹ کر اس لیے لگایا گیا ہے کہ وہ وہاں کے اراکین اسمبلی کو قابو
میں رکھیں اور اپنے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر عوام کی بے عزتی کرتے رہیں اب
آپ حکومت کا نیا کارنامہ بھی ملاحظہ فرمالیں کہ انہوں نے قومی ورثہ کو بھی
شدید نقصان پہنچانے کا کام شروع کردیا ہے شاہی قلعہ لاہور کوچار سرکاری
محکموں کے درمیان سینڈوچ بنادیا گیا ڈی جی آثار قدیمہ ڈاکٹر عصمت طاہرہ کی
لاپرواہی اور وال سٹی منصوبہ کے کامران لاشاری کی ناتجربہ کاری نے مغلیہ
دور کے قدیم قلعہ کو تباہی سے دوچار کردیا 30جون سے قبل بجٹ ختم کرنے کے
شوقین افسران نے شاہی حمام کو بھی عام مزدوروں سے تباہ کروادیاشالامار باغ
،مقبرہ جہانگیر اور شاہی قلعہ کے بجلی کے بلوں کی عدم ادائیگی کے باعث ان
اہم مقامات کی بجلی منقطع ہو چکی ہے لاکھوں روپے سے لگائے گئے واٹر کولر
اور سی سی ٹی وی کیمرے خراب ہو چکے ہیں مگر کسی افسر کے کان تک جوں تک نہیں
رینگی اور ایک طویل عرصہ سے افسران کی ملی بھگت سے کنٹین حاصل کرنے والے
ٹھیکیدارنے بھی شاہی قلعہ کی سیر کو آنے والوں کو لوٹنے کا ٹھیکہ بھی حاصل
کررکھا ہے جبکہ نئی سڑکیں بننے سے مناسب راستہ اور گاڑیوں کی پارکنگ ختم
ہونے کی وجہ سے شہری اس قومی ورثہ کو دیکھنے سے محروم ہو گئے ہیں حکومت نے
قومی ورثہ کی حامل ان عمارتوں کو پی ایچ اے ،آرکیالوجی ،اوقاف اور متروکہ
اوقاف کے درمیان بانٹ رکھا ہے اور افسران کے درمیان جاری اختیارات کی رسہ
کشی نے اس قومی ورثہ کو اسکے اصل حسن سے محروم کرنا شروع کردیا ہے قلعہ کے
ساتھ سڑک بنانے پر محکمہ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ایک لمبا عرصہ دریائے
راوی قلعہ کی دیوار کے ساتھ بہتا رہا تھا اور اسکی کھدائی کے دوران محکمہ
آثار قدیمہ کے ماہرین کو یکسر نظر انداز کر کے قومی ورثہ کو شدید نقصان
پہنچایا اگر دریائے راوی کی اس جگہ کی کھدائی کے دوران ماہرین ہوتے تو
اربوں روپے کے نوادرات مل سکتے تھے مگر افسر شاہی اور ڈی جی آثار قدیمہ کی
عدم دلچسی کے باعث یہ باب اب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیاقلعہ سے ملحقہ تاریخی
بیگم شاہی مسجد جو اکبر بادشاہ کی بیگم مریم زمانی نے تعمیر کروائی تھی کے
اردگرد قبضہ مافیا نے حکومتی آشیر باد سے قبضہ جما رکھا ہے اور اسکی
تاریخیں اینٹیں غائب ہو چکی ہیں جبکہ قلعہ کی دیوار کے ساتھ مختلف پریس اور
ڈائی کٹر والوں نے بھی افسران کی سرپرستی میں قبضے جما رکھے ہیں جن کی دھمک
سے قلعہ کی دیوار کی اینٹیں گرنا شروع ہوچکی ہیں قلعہ میں فوٹو گرافی کا
ٹھیکہ افسران اور ٹھیکدار کی مرضی سے جان بوج کر لیٹ کیا جارہا ہے تاکی عید
سے کچھ دن قبل اسے جاری کیا جائے اور وہ تین عیدیں یہاں پر آنے والے سیاحوں
کو لوٹ سکیں جبکہ ابھی محکمہ آثار قدیمہ کے افسران نے اپنے غنڈوں کو کیمرے
دیکر عوام کو لوٹنے کیلیئے قلعہ کے اندر بھیج رکھا جن کی بدمعاشیوں کی وجہ
سے لڑائی جھگڑے روز کا معمول بن چکے ہیں محکمہ کے ملازمین اور یہاں پر سیر
کے لیے آنے والے لوگوں کی ڈھیروں شکایتیں ہیں جسے انہوں نے بھی متعدد بار
حکام بالا تک پہنچایا مگر یہاں پر جو زنیر عدل تھی وہ تو کب کی غائب ہو چکی
ہے اس لیے اب کسی کی بھی شنوائی نہیں ہوسکتی اور ہمارے موجودہ حکمران تو
ویسے بھی اپنے وزیروں کی بھی نہیں سنتے عوام کی کیا سنیں گے ۔ |