قدیم انسان کی طرح دور
جدید کا بظاہر ترقی یافتہ انسان بھی اپنی تمام تر ترقیوں کے باوجود زندگی
بعدموت کو لے کر توہمات کا شکار اور کج فکریوں کا گرفتار رہاہے۔ سبب یہ ہے
کہ موت کے بعد کے حالات انسانی عقل میں سما نہیں سکتے ، نہ انسان کی رسد
گاہیں، یونیورسٹیاں یا سائنسی و تحقیقاتی ادارے اسے یہ علم فراہم کرسکتی
ہیں۔اسی طرح جنت و جہنم کی کیفیت و ماہیت کے بارے میں بھی معلومات کا فقدان
ہے اور انسان تذبذب میں مبتلا ہے اوررہے گا۔ غیر متنازعہ فیہ معلومات کے
لیے اگر دُنیا میں کوئی اِنتہائی معتبر ذریعہ ہے تو وہ بس کتاب اﷲ ہے۔ حق
کے متلاشیوں کوروشنی کی کرن صرف یہیں سے میسر آسکتی ہے۔بشرط یہ کہ یہ احساس
جزوِ ایمان بن جائے۔جن آیاتِ اِلٰہی نے جہنم کے مضامین کو اپنے دامن میں
سمیٹا ہے ،اُن کے مطالعے اور فہم کی ضرورت ہے تاکہ ہم پر وہ اثرات مرتب ہوں
جو فی الواقع جنت اور جہنم کے تذکروں کے مقاصد میں شامل ہیں۔جہاں جہنم کا
ذکر ہے تو اس سے بچنے کی فکر پیدا ہو اورجن آیات میں جنت کی نعمتوں کا
تذکرہ ہے تو اُنہیں ہم اِس غرض سے اپنے مطالعے میں رکھیں کہ ہم اس کے حصول
کی مسلسل جستجو کرتے رہیں گے اور اپنے رب کی رضا کے کام پر اپنے نفسِ غیر
مطمئنہ کو آمادہ کرتے رہیں گے۔
سورہ النباء کی آخری چند آیتوں کا مطالعہ پیش خدمت ہے:’’بلاشبہ صاحبینِ
تقویٰ کے لیے فوز(ہی فوز اور فلاح ہی فلاح ہے)،(بہ شکل) چمنستاں
اورانگوراور (اِنتہائی متناسب )ہم عمرہم مزاج ہم ذوق ساتھیوں(کی ہم نشینی)
، چھلکتے جام(بھی اُن کی ضیافت کا حصہ ہوں گے) …… اس میں کوئی لغو Sub
Standard یا(غیر معیاری )گفتگواِن کی سماعتوں سے ٹکرا نہیں پائے گی ۔کسی
طرح کی کوئی لغویات سمع خراشی نہ کر سکیں گے۔ تمہارے رب کی جناب سے
یہ(پاکیزہ و مطہرہ ماحول) جزائے بے پناہ اور عطائے بے حساب کے بطور ہوگی جو
اُسی رحمٰن کی بارگاہ سے ہوگی جو آسمانوں اور زمین کا اور ہر اُ س شے کا
مالک ہے جو ان دونوں کے درمیان موجود ہے،کسی میں اُس سے مخاطبت کی جرٔت
نہیں ہو سکے گی۔ ‘‘
۱)……قرآن مجید کا یہ وصف خاص ہے کہ وہ صحیح و غلط ، حق و باطل، سیاہ و سپید
کو ایک دوسرے سے ممیز کرکے پیش کرتا ہے۔ یہ وہ انوکھی دوربین ہے جو پیش
آمدہ حالات کا منظر قبل از وقت اپنے قاری کو دکھا دیتی ہے۔کیا یہ ضروری
نہیں کہ ہم اپنے اندر وہ قوتِ بصیرت و بصارت پیدا کریں جوکل کے حالات کو
نظروں کے احاطے میں کچھ یوں رقصاں دکھادے جیسے وہ کل کے نہیں، آج کے منظر
ہیں ! نتیجہ یہ ہو کہ ہم راہ راست کے راہِ راست ہونے کا شعور حاصل کرلیں
اور اپنی منزل کی سمت بہ اطمینان محوِ سفر ہو جائیں ۔پھریہ احساس بھی
جاگزیں ہوجائے کہ کل کے برے انجام سے ہم نہ صرف خود کو بلکہ اپنے اہل و
عیال کو بچانے کی کوشش میں بفضلِ تعالےٰ ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔ چنانچہ
آج،ابھی، بلکہ اِسی لمحہ ہم اپنے اندر اِس شعور کو بیدار کرنے کا آغاز
کریں۔ اپنے رب سے ڈرتے ہوئے زندگی گذارنے کا ادراک حاصل کریں اورہماری
نیکیاں ہمارے رب کی کتاب میں دی گئی اُس لسٹ کے مطابق ہوجائیں جودوسری سورۃ
کی ایک سو ستہترویں آیت میں ساری انسانیت کے لیے دستیاب ہے:’’محض، اپنے
چہروں کومشرق و مغرب کی سمت پھیر لینے کا نام نیکی نہیں ہے،بلکہ(ترجیحاً
نیکیوں کی فہرست یہ ہے:۱) اﷲ پر ایمان رکھے (اوراس سے ایمانداری کا رویہ
اختیارکرے،۲) آخرت کے حساب کے تئیں حساس رہے۔۳)فرشتوں کے وجود کو تسلیم
کرے،۴)الکتاب کی حقانیت تسلیم کر لے،۵ )سلسلۂ انبیاء کی ضرورت کا قائل ہو،۶
) حبِّ الٰہی کی بنیاد پراپنے اقرباء کی مالی امداد کرے،۷)یتیموں کی مالی
امداد کرے،۸)مسکینوں غریبوں اور محتاجوں کی مالی امداد کرے،۹)مسافروں(یا
راستوں میں مختلف مقاصد کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والوں کی) مالی ضروریات اور
Public Utilities itemsسے جڑی خدمات پر خرچ کرے،۱۰)دستِ سوال دراز کرنے
والوں کی (بخوشی)مالی اعانت کرے،۱۱)،متنوعLiabilitiesکے نرغے میں، پریشانی
میں پھنسے ہوئے لوگوں(یاقیدیوں) کا مالی (و قانونی) تعاون کرے،۱۲)عبادتوں
کے قیام کا نظم کرے،۱۳)زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرے،۱۴)کسی سے کسی عہد
میں بندھ جائے تو اُس سے وفا کرے،۱۵)حالات سخت ہوں تو صبر سے کام
لے۔۱۶)پریشان کن حالات میں تحمل کا مظاہرہ کرے،۱۷)بحرانی مرحلوں میں صبر و
تحمل کی ایک مضبوط چٹان بن جائے۔یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے(نیکیوں کی اس سترہ
نکاتی فہرست کے مطابق عمل کرتے ہوئے اپنے دعویٔ نکو کاری کی)تصدیق کی اوران
ہی لوگوں کے لیے تقویٰ کی صفت زیب دیتی ہے۔‘‘
الکتاب اور الرسول صلی اﷲ علیہ و سلم کی بعثت کے ذریعہ رب تعالےٰ ہم میں
ایمان اور کردار کی ایسی شمع روشن کرنا چاہتا ہے جس سے اِنسان سرتاپا
جگمگانے لگ جائے اور ایک ایسامستحسن و متوازن انسان عالمِ وجود میں آ جائے
جسے اِنسانیت کا پیکر کہنے میں کوئی جھجک باقی نہ رہے اور وہ ہر اک کی توجہ
کا مرکز بن جائے۔اِنسانوں کے لیے وہ ایک ایسا شجر بنے جو سایہ دار بھی ہو
اور ثمرآور بھی۔ انسانوں کی اُخروی کامیابی کے لیے وہ ایک روح پرور علامت ا
ور تابندہ محرک بن جائے ۔ جس کاکردار اِن کے لیے عمل کی رغبت کا ذریعہ ثابت
ہو۔ اُس کی نگاہ محض چند رسم و رواج کی حدود میں سمٹ کر نہ رہ جائے،بلکہ
دین اپنی تمام تر فکری عظمتوں اور روحانی وسعتوں کے ساتھ اسکی نگاہوں کے
سامنے بحرِ بے کنار بن جائے۔ ایک مطہرزندگی کی اُس کی حکمتِ عملی کسی ذہنِ
ناقص کی اختراع کی مثل نہ ہو ، بلکہ وہ ویسی ہی آفاقی اسپرٹ کی حامل ہو
جیسے وہ خاتم النبین صلی اﷲ علیہ و سلم پر ربِّ کائنات کی جانب سے نزول کے
زمانے میں تھی اور جن پر نازل ہونے والی ہر آیت پر تاحیات حضور ؐ کا عمل
کائناتِ اِنسانی کے لیے اُسوۂ حسنہ بن گیا تھا۔
اگر ہم نیکیوں کی متذکرہ لسٹ کے مطابق اس دنیا میں زندگی بسرکرتے ہوئے اپنے
رب کی بارگاہ میں حاضر ہوں گے تواِنشاء اﷲ ہم یہ دیکھ کر حیرا ن رہ جائیں
گے نکو کاروں کے لیے ہمارے رب نے کیسی کیسی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں۔ایسی
نعمتیں جنہیں کسی ذہن نے کبھی سوچا ہوگا نہ کسی آنکھ نے اِنہیں دیکھا
ہوگا۔انسانی عقل کی محدودیت کے پیش ِ نظراِن نعمتوں کی عظمت و قیمت کا
اندازہ دلانے کے لیے ربِّ جلیل نے اپنی آیات میں اِس کا لحاظ ضرور رکھا ہے
کہ اپنی آیتوں میں ایسی مثالیں اِس کے گوش گزار کردے کہ اُسے کچھ نہ کچھ
اندازہ ضرور ہو جائے۔ جیسے انگور،انار، میوے،شہد،دودھ اور فرحت آفرین
مشروبات،گھنے باغات،بلند و بالیٰ اپارٹمنٹس، آرام دہ نفیس صوفے
اورچارپائیاں،فرش کی خوبصورت تزئین کار ی کے ساتھ قالین،نت نیے ظروف
اورچھلکتے ہوئے جام و مینا کی مثالیں دی ہیں۔! یہ سب انسانی دنیا کے محدود
تناظر میں محض بطور تمثیل ہی سمجھے جانے چاہئیں، ورنہ اصل سے اِن کا کوئی
واسطہ نہیں۔ اِن کی فرحت بخش روح پرور خصوصیات کی حقیقت کا علم سوائے رب
تعالےٰ کے کسی کو نہیں! حقیقت یہ ہے کہ ہمارے الفاظ کا ذخیرہ اِن نعمتوں کی
حقیقی تصویر کشی سے قاصر ہے۔نہ ہم اِن کی کوالیٹی کا اندازہ محض اِ ن جانے
پہچانے الفاظ کے ذریعہ ہی کر سکتے ہیں کہ وہ کس قدر اعلیٰ و ارفع درجے کی
حامل ہوں گی۔
زیر مطالعہ آیتوں میں خبر دی گئی ہے کہ ایک ایماندارانہ اور نکوکارانہ
زندگی کس طرح گذاری جائے اور آخرت کے امتحان میں ایک کامیاب مومن کی حیثیت
سے اپنی حاضری کس طرح درج کرائی جائے۔
۲)……آیت میں نفسیاتی نقطۂ نظر سے ایک انتہائی اہم بات کہی گئی ہے کہ جنت
میں انکے مثالی جوڑے ہونگے۔یعنی کامرانی سے ہم کنار انسانوں کے لیے ہر
زاویے اور ہر نقطۂ نگاہ سے انتہائی متناسب ساتھی ہوں گے، عمرہو کہ حسن و
جمال، ذہانت ہو کہ مزاج،دانش ہوکہ رویہ، غرض کہ ہر اعتبار سے یہ جوڑے
تکمیلیت کا نمونہ ہوں گے جس کا کسی کو تجربہ نہ ہوگایعنی ہم دیکھتے ہیں کہ
ایسی صورتحال دنیا میں ناپید ہے، بلکہ یہاں کا اصل بحران یہی تو ہے کہ کوئی
اپنی شریکِ زندگی سے چاہے مرد ہو یا عورت ، صد فی صد کسی صورت مطمئن نہیں
ہوسکا ہے اور یہ انعام اُسے عطا کیا جائے تواُس کی عظمت کا کیا کہنا۔ لیکن
اِس نعمت غیر مترقبہ کوکچھ شرائط سے مشروط بھی کر دیا گیا ہے، یہ وہی شرائط
ہیں جسے جنت کے حصول کی شرط بھی قرار دیا گیا اوریہ شرائط ایک سو تینویں
سورۃ العصر کی اِن آیات میں موجود ہیں:’’ قسم ہے (گزرے اورگزرتے ہوئے)زمانے
کی(جو اِس حقیقت پر گواہ بن کر کھڑا ہے کہ)اِنسان(مستقل) خسارے سے دوچار ہے
بجز اُن انسانوں کے جو صاحبِ ایمان قرار پائیں گے،جو خوگرِ عملِ صالح ہونگے
اور(حق پر عمل پیرائی کے ساتھ) وصیتِ حق کا شیوہ اپنائے ہوئے ہونگے(
اورپھریہ ایماندار، صالح ، حق پرست اور صبر شعار انسان خسارے سے بچنے اور
بچانے کے لیے)دوسروں کو بھی صبر کی وصیت کرتے رہے ہونگے۔ ‘‘
۳)……جن لوگوں نے اس غیر مکمل اور ناقص دنیا میں اپنے رب کی رضا کی خاطرنقص
آسا شریک ِ حیات کے ساتھ صبر اور مصالحت کی زندگی گذاری ہوگی اوراِس سے
وابستہ مکروہات کو انگیز کیا ہوگا،منفی طرزِ عمل کا مثبت انداز میں جواب
دیا ہوگا،حتی الامکان اپنے احسن رویوں سے صورت حال کو بگڑنے نہ دیا ہوگا،تو
ان کا رب انکی مغفرت فرمادے گا،انہیں سدا بہار نعمتوں والی جنتیں عطا کرے
گا، انہیں ہر وہ معیاری متاع جو ہر لحاظ سے مکمل اور نقص سے پاک ہو،عطا
فرماے گا۔ ظاہر ہے کہ انکے جوڑے بھی مثالی اور معیاری ہونگے۔ ہر نوع کی
مسرتوں اور شادمانیوں،پاکیزگی سے مملو عشرت و عیش کی نعمتوں کے چھلکتے جام
اُن کی ضیافت کے لیے ہوں گے۔ کوئی شئے وہاں غیر معیاری نہ ہوگی۔کون سی
خواہش ہوگی جس کے پورا کیے جانے کا وہاں امکان موجود نہ ہوگا۔! امن، چین و
سکون اور سلامتی ہی سلامتی ہوگی، ایسی سلامتی، جسے ہمارے رب نے چھپنویں
سورۃ کی پچیسویں اور چھبیسویں آیات میں نہایت آن بان سے بیان
فرمایا:’’جنتوں میں ان کی سماعتوں سے کوئی لغو بات نہیں ٹکرائے گی نہ کسی
چھچورے پن سے سابقہ پیش آئے گا۔اِس کے بجائے ماحول سلاماً سلاماً کے غلغلۂ
جانفزاء سے گونج اُٹھے گا(اور امن وسکون کے نغموں سے فضاء مرتعش ہو جائے
گی)۔ ‘‘
۴)……پھر ارشاد فرمایا:’’تیرے رب سے (ملنے والی)جزا اور عطا کا حساب(خود رب
تعالےٰ کےCalculationsکے مطابق ہو گا)۔سوال یہ ہے کہ رب کے حساب کتاب
یاCalculations کاانداز کیا ہوگا۔!خود ہمارے رب نے اپنی کتاب کی سترویں
سورۃ کی چوتھی آیت میں ارشاد فرمایاہے:’’……اﷲ کے یہاں دن کی گنتی کی مقدار
پچاس ہزار سال کے برابر ہے۔‘‘ربِّ کائنات کے نزدیک تو ایک دن پچاس ہزارسال
کے برابر ہوتا ہے۔ اِس اِلٰہی پیمانے کے لحاظ سے ناپنے کے ہمارے اپنے
دنیاوی پیمانے مطلق ناقص ٹہرتے ہیں۔ظاہر ہے اِس میں جب
بِغَےْرِحِسَابٍInfinity کا فقرہ شامل ہو جاتا ہے تو پھر شمارکیسا! اور
گنتی کیسی! ہمیں خبر ہے کہ سورج کے گرد ہماری زمین کی گردش کی حقیقت سے
ہماری پیمائشِ وقت کا تعلق ہے ،اس سے ہمارے دن اور رات کی گنتی ہوتی ہے
یعنی چوبیس گھنٹے میں اپنے محور کے اطراف زمین کی ایک گردش کے پورا ہونے کا
مطلب یہی توہے کہ رات اور دن پر مشتمل ایک دن گزر گیا ۔! جب ہمارا شہر یا
علاقہ سورج کے مدمقابل ہو تو یہ علاقہ بارہ گھنٹے کے لیے روشنی سے فیض یاب
ہوتا رہے گا اور یہی’’ دن‘‘ کہلائے گااور مخالف جانب جو تاریکی چھائی ہوئی
ہوگی اُسے ہم ’’رات‘‘ کے نام سے موسوم کریں گے۔ظاہر ہے کہ اگر ہم اسپیس میں
ہوں یاچاند،مریخ،عطارد،ثریا میں آباد ہو جائیں تو ایسی گنتی ہمارے کسی کام
کی نہ ہوگی، وہاں وقت کی پیمائش کی ایک جداگانہ ہی صورتحال ہوگی اور زمین
پر کی جانے والی گنتی سے اِس کا کچھ لینا دینا نہیں ہوگا۔!
یہ ہماری سادہ لوحی نہیں ہے تو اور کیا ہے کہ ہم اپنی ایک نیکی کا صرف ساٹھ
، ستَّر، اسّی گُنا مانگ کر خاموش ہو جاتے ہیں!اور بقول شاعر اُدھر یہ حال
ہوتا ہے کہ:
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی ٔ داماں بھی تھا
ہمارا حال یہ ہے کہ اپنے رب کی بے حد و حساب عطاؤں، بخششوں ، لطف و کرم اور
رحمتوں کوا عداد و شمار یاs figureکی محدودیت کے حوالے کردیتے ہیں۔رب تعالی
تو الرّحمن ہے، عالی شان و عظیم ہے،لامحدود نعمتوں کا خالق بھی ہے اور مالک
بھی۔ہمیں چاہیے کہ مانگیں تو رب کے شایانِ شان مانگیں۔ اس کے بے پایاں فضل
و عطا اور رحم وکرم کے مطابق اُس کی نعمتوں کے امیدوار بنیں۔ وہ رب جو
آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان جو کچھ ہے اس کا مالک ہے، مشرق اور مغرب
کی ملکیت کا بلیغ فقرہ پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ وہ کتنی عظمت والا ہے۔نہ
صرف مالک ہے بلکہ وہی ہر شۓ کا خالق ہے۔
کیا یہ وقت نہیں کہ ہم سب مل کر پکار اٹھیں کہ اے رب ذوالجلال والاکرام……!
ہم آپ کے بندے ہیں، آپ کے غلام ہیں،محتاج اور فقیرہیں۔ ہر طرح کے خیر کے
سوالی ہیں ہم۔ آپ داتا ہیں،آپ الغنی ہیں، ہمیں اپنی شان کے مطابق نوازیو،
نہ کہ ہمارے وسعتِ دامن کے مطابق۔ہمیں موت نہ آئے مگر اِس حال میں کہ ہم
مومن ہوں۔اے ہمارے رب !ہماری مغفرت فرمائیو،جہنم کی آگ سے ہمیں نجات عطا
کرتے ہوئے، جنت نعیم ہمیں عطا فرمائیو۔ اے ہمارے رب! حق ہمیں حق ہی دکھائی
دے اور اسی حق کی اتباع کی ہمیں توفیق عنایت فرمائیو اور باطل ہمیں باطل ہی
دکھائی دے،اور باطل سے ہمیں بچنے کی توفیق عطا فرمائیو۔ اے ہمارے رب!ہمیں
اشیاء، معاملات اور واقعات ویسے ہی دکھائیو جیسے کہ وہ فی الواقع ہیں۔‘‘
کوئی ہے جودنیاوی رنگینیوں اور جھوٹی شان و شوکت کو چھوڑ کرہماری اِس دُعا
میں شامل ہو جائے۔!!! |