24جون کی شام ادارہ نور حق میں
ادارہ تعمیر ادب کے زیر اہتمام ایک خوبصورت اور پر وقار تقریب ہوئی جس میں
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے جنرل سکریٹری عبدالقادر ملاشہید پر کتاب کی
رونمائی ہوئی یہ کتاب ان168مضامین ،آرٹیکلز،اور اداریوں پر مشتمل ہے جو
عبدالقادر ملا شہید کی پھانسی پر پاکستان کے نامور صحافیوں اور دانشوروں نے
مختلف اخبار و رسائل میں تحریر کیے تھے معروف مصنف سلیم منصور خالد نے اس
کتاب کو مرتب کیاہے اس پروگرام کی مانیٹرنگ معروف صحافی ،کہانی نویس اور
ڈرامہ نگار عظیم سرور نے اپنی خوبصورت آواز اور دلنشیں انداز میں کی ۔اس
پروگرام میں مظفر احمد ہاشمی ،حافظ نعیم الرحمن ،مجاھد بریلوی ،معروف صحافی
محمود شام ،اور منور حسن نے جو تقریب کی صدارت کر رہے تھے اپنا صدارتی خطاب
کیا جب کہ جناب یونس رمز نے منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا ۔تلاوت کلام پاک سے
تقریب کا باقاعدہ آغاز ہوا ،ادارہ تعمیر ادب کے صدر جناب مظفر ہاشمی نے
ادارہ کا تعارف اور تقریب کے مقاصد پر گفتگو کی ،انھوں نے تقریر کرتے ہوئے
کہا ادارہ تعمیر ادب کا وجود 1972میں عمل میں آیا معروف شاعر اور دانشور
مولانا ماہرالقادری اس کے بانی اور پہلے صدر تھے یہ کام انھوں نے اس وقت
کیا جب ملک کے ادیبوں کی اکثریت کا جھکاؤ سوشلزم اور کمیونزم کی طرف تھا اس
ادارے کا مقصد اسلامی نہج پر ادب کی تعمیر کرکے اسے مثبت رخ دینا تھا ادارہ
تعمیر ادب نے 1974میں مہاجرین مشرقی پاکستان کی امداد کے سلسلے میں ایک بہت
عظیم الشان مشاعرہ کروایا تھا ،بوسنیا اور کشمیر کے سلسلے میں بڑے مشاعرے
کرائے گئے ۔انھوں نے کہا کہ عبدالقادر ملا کا قتل عدالتی قتل ہے جس میں
ہندوستان پوری طرح شامل تھا ان کو پہلے عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی پھر
حسینہ واجد کی حکومت نے سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل دائر کر کے اسے
پھانسی کی سزا میں تبدیل کروایا بھارتی ہائی کمشنر نے دلچسپی لے کر اس سزا
پر عملدرامد کرایا ترکی نے اس پر احتجاج کیا قطر نے احتجاج کیا لیکن ہماری
حکومت نے نہیں کیا البتہ قومی اسمبلی میں متفقہ قرارداد منظور ہوئی جس پر
بنگلادیش کی وزارت خارجہ نے پاکستانی سفیر کو بلا کر احتجاج کیا ۔آج کی
تقریب میں ہم نے جناب سلیم منصور خالد کو بھی بلایا تھا جنھوں نے اس کتاب
کو مرتب کیا ہے لیکن انھوں نے بعض مصروفیات کے سبب معذرت کی انھوں نے یہ
بتایا کہ یہ کتاب انھوں نے جناب منور حسن صاحب کے کہنے پر مرتب کی
ہے۔پروگرام سے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے
کہا کہ 12دسمبر 2013کو رات دس بجے پھانسی دی گئی ،المیہ مشرقی پاکستان میں
جو لوگ عقیدے اور نظریہ پر عمل پیرا تھے ان کی وجہ سے وہاں اسلامی تحریک
شدید مخالفت کے باوجود پوری قوت سے ابھری ۔اب یہ خبریں آرہی ہیں کہ مطیع
الرحمن صاحب کو پھانسی دینے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور کل ہی یہ روح فرسا
خبر آئی ہے کہ اسلامی جمعیت طالبات سے وابستہ 25طالبات کو گرفتار کرلیا گیا
دنیا میں کوئی آواز نہیں اٹھ رہی شرم آنی چاہیے انسانی حقوق کی تنظیموں کو
،مصر میں اگر مرسی کسی خاتون کو گرفتار کرتے تو پورا مغربی میڈیا آسمان سر
پر اٹھا لیتا مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن
فوجی آپریشن اندھے ،گونگے اور بہرے ہوا کرتے ہیں ،اس فوجی آپریشن میں تصویر
ایک رخ تو ساری دنیا کو دکھایا گیالیکن وہ رخ نہیں دکھایا گیا جس میں عوامی
لیگ اور مکتی باہنی نے جو ظلم کیا وہ اس سے کہیں زیادہ تھا مطیع الرحمن کے
بعد یہ سلسلہ آگے جائے گا جس میں پاکستانی فوجیوں کا بھی مطالبہ کیا جاسکتا
ہے ایک اخباری بیان پر تو ISPRبڑا لمبا چوڑا بیان جاری کرتی ہے لیکن جب نوے
ہزار فوجی بھارتی جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈال رہے تھے تو اس وقت سب
سوئے ہوئے تھے اس لیے ISPRآگے بڑھے اور حسینہ واجد جو بھارتی دہشتگردی
کررہی ہے اسے روکا جائے ورنہ یہ سلسلہ بڑھتا ہی رہے گا معروف صحافی و
دانشور اور جسارت کے کالم نگار شاہنواز فاروقی نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ
عبدالقادر ملا شہید نہیں بلکہ شہید مظلوم ہیں ہماری تہذیب میں شہادت کا
مرتبہ یہ ہے کہ ہمارے نبی ﷺ نے اس کی آرزو کی ہے ۔دوسرا پہلو یہ ہے کہ
انسان کی تگ و دو زندگی کے تحفظ کے لیے ہوتی ہے اس تصور میں سارا سلسلہ الٹ
جاتا ہے ۔ان کی شہادت کایہ پہلو اہم ہے کہ پاکستان کی محبت میں یہ سزا قبول
کی کتاب میں سب سے خوبصورت مضمون آصف محمود کا ہے عبدالقادر ملا جس تحریک
کو اون کرتے تھے اس تنظیم کا ماضی حال شہادتوں سے بھرا پڑا ہے یہ کتاب
168تحریروں کا مجموعہ ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس ملک کا تعلیم یافتہ طبقہ
Inteligentiaنے اس کو واضح طور پر محسوس کیا ہے اور اس پر ردعمل کا اظہار
کیا اس کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ جو تحریکیں زندہ و توانا ہوتی ہیں جن میں
امکانات ہوتے ہیں ان سے سب پریشان رہتے ہیں ،ہماری تحریک ماضی سے متعلق
نہیں اس کا تعلق مستقبل کے منظرنامے سے ہے اور اس میں عبدالقادر کی شہادت
ہمیں چمکتی ہوئی نظر آئے گی ۔معروف اینکر پرسن مجاھد بریلوی نے تقریر کرتے
ہوئے کہا کہ میری مشکل یہ ہے کہ میں دوسرے قبیلے سے وابستہ رہا ہوں ماضی کے
تمام واقعات کو بائیں بازو کی عینک سے دیکھتا رہا ہوں جماعت اسلامی اور پی
پی پی نے فوجی آپریشن کو اون کیا تھا ان دنوں ہم نے کچھ بنگالی دانشوروں کی
تحریروں کا مطالعہ کیا تو پتا چلا کہ شیخ مجیب نے 1960-62بھارت سے اگر تلہ
میں معاملات طے کرنے کی کوشش کی نہرو نے انکار کردیا تھا لیکن اندرا گاندھی
نے اس میں پورا رول ادا کیا اگر بھارت عوامی لیگ کی مدد نہ کرتا تو دس لاکھ
افراد کی قربانیوں کے باوجود بنگلا دیش نہ بنتا ۔جب پاکستان کے معروف شاعر
فیض احمد فیض نے1980میں ڈھاکا میں اپنی ایک غزل پڑھی اور اس میں یہ شعر
پڑھا کہ جس کا ایک مصرع یہ تھا کہ خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے
بعد ۔اس وقت ایک بنگالی پروفیسر نے فیض صاحب سے کہاکہ خون کے دھبے برساتوں
سے نہیں دھلتے۔معروف صحافی محمود شام نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی
تشکیل ایک بڑا چیلنج تھا جو ہمارے آبا واجداد نے قبول کیا 1953کے جزوی
مارشل لاء نے سانحوں کی بنیاد رکھ دی تھی 1970میں کچھ روز بنگلہ دیش میں
رہنے کا موقع ملا وہاں مولوی فرید ،پروفیسر غلام اعظم اور فضل القادر
چودھری جیسے لوگ بھی تھے عبدالقادر ملا صرف 23سال پاکستان میں رہے جب کہ
41سال بنگلہ دیش کے شہری کی حیثیت سے رہے عبدالقادر ملا کے لیے دنیا نے
منافقت کا اظہار کیا ہے ۔ہم نے اپنا درد دل ایک ہی شیرازے میں جمع کیا ہے
کیا ان کالموں اور مضمونوں سے ہم حسینہ واجد کو روک سکتے ہیں اس کے لیے
جماعت اسلامی اور تمام اداروں کو مل کر دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنا ہوگا ۔تقریب
کے صدر اور سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسن اپنی صدارتی تقریر
کرتے ہوئے کہا کہ اس خوبصورت محفل میں عبدالقادر ملا کے پیغام اور شخصیت کا
احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے یہ ایک فرد کا نام ہے جو فی الحقیقت یہ ایک
تحریک کا پیغام تھا ۔جب میں ناظم اعلیٰ تھا مشرقی پاکستان میں عبدالقادر
ملا سے پہلی ملاقات ہوئی اس کے بعد حکائتیں اور روائتیں پہنچتی رہیں انھوں
نے بعد میں آنے والوں کے راہیں کشادہ کی ہیں جمہوریت و انتخاب وہ پیمانہ ہے
جن پر پورا اترنے والوں کو حکمرانی کا حق حاصل ہو تا ہے پچھلے پندرہ بیس
سال کی بین الاقوامی دنیا میں یہ تصور گہنا گیا ہے یہ بات الجزائر سے شروع
ہوئی تھی ۔اخوان المسلمین کو جنرل اسیسی کے حوالے کر دیا گیا ہے اصل پیمانے
مغرب کی خوشنودی اور رضا ہے جنرل اسیسی اور حسینہ واجد کے الیکشن سے بات
واضح ہو جاتی ہے بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی عوامی لیگ نے 300میں سے
153سیٹیں بلا مقابلہ جیتی ہیں ۔فوجی آپریشن کی کوئی تفصیل پیش کرنا نہیں
چاہتا ،لیکن فوجی آپریشن کبھی مسئلے کا حل نہیں رہے اسی فوجی آپریشن کے
نتیجے میں ملک دو ٹکڑے ہو گیا آج عبدالقادر ملا یہی پیغام ایس او ایس پر
سمجھ لیں آیا ہے کہ فوجی آپریشن سے دل نہیں جیتے جا سکتے زمین فتح کر لی
جاتی ہے ،شمالی وزیرستان میں جو آپریشن ہو رہا ہے اس نے کئی انسانی المیوں
کو جنم دیا ہے ہمارا مطالبہ ہے کہ اس آپریشن کو فوری طور سے روک دیا جائے ۔
|