(مصنف کی کتاب شیخ محمد ابراہیم
آزادؔ۔شاگردِ رشید استاذ الشعراء افتخارالملک سید وحید الدین احمد بیخودؔ
دہلوی جانشیں فصیح الملک داغ ؔدہلوی شخصیت وشاعری سے موخوذ)
میرے پرکھوں کی سرزمیں بیکانیر، جو کبھی ریاست تھی اب ہندوستان کے بڑے صوبے
راجستھان کا مرکزی شہر ہے ۔ اسے بر صغیر میں بعض خوبیوں کے باعث منفردمقام
حاصل ہے۔یہ سر زمین مختلف قسم کی ثقافت‘ تاریخی یادگاروں‘ سحرا‘ دریا ؤں‘
ہمالیہ ‘ مذاہب اور آب و ہوا کے باعث انفرادیت رکھتی ہے۔ دہلی ، ہیماچل
پردیس، جمو ں و کشمیر،پنجاب، یو پی اور راجستھان صوبوں پر مشتمل ہے۔
راجستھان سب سے زیادہ رنگین اور متحرک ریاست شمار ہو تی ہے۔ بیکانیر
ہندوستان کے صوبے راجستھان کا ایک قدیم اور تاریخی شہر ہے۔یہ مشہور ترین
قلعوں فصیلوں اور محلوں کے باعث اپنا ثانی نہیں رکھتا۔اس کی تین چیزیں بہت
مشہور ہیں جو اس شہر کو دیگر علاقوں سے منفرد کرتی ہیں ایک اونٹ دوسرے ریل
کا نظام اورتیسرے جنگلی یا ریتیلی مرغی۔اس کی سرحد پاکستان کے صوبہ پنجاب
کے علاقہ بہاولپور سے ملتی ہے۔ بیکانیراور بہاولنگر کے درمیان طویل صحرا ہے۔
غزنوی خاندان کا حکمراں سلطان محمود غزنوی ملتان سے بیکانیر ہوتا ہوا اجمیر
اور آبو ہوکر گجرات پہنچا اور سومناتھ فتح کیا۔راجستھان بھارت کے شمال میں
واقع ہے اس کا صدر مقام جیپور ہے ۔بڑے شہروں میں اجمیر، جودھ پور، بیکانیر،
کوٹہ اور اودھے پور شامل ہیں۔ بیکانیر ۱۹۴۹ء تک ریاست بیکانیر کا
دارالخلافہ رہا، تقسیم ہندوستان کے بعد یہ ریاست بھارت میں شامل کر دی
گئی۔یہ
اناج،صنعت، علم و ادب اور فنونِ لطیفہ کے اعتبار سے ہندوستان کا ایک ذرخیز
شہر ہے۔
میرے پرکھوں کی سرزمین راجستھان تھی،راجستھان آج کل آبادی کے لحاظ سے بھارت
کا سب سے بڑا صوبہ ہے، تقسیم سے قبل اس صوبے کانام راجپوتانہ تھااور یہ
صوبہ بائیس راجواڑوں (ریاستوں) کا مجموعہ تھا۔ راجپوتانہ نے بھی بڑی بڑی
شخصیتیں پیدا کی ہیں، میرابائی، مہدی حسن اور ریشماں کو مشتاق احمد یوسفی
نے راجستھان کے تین طرفہ تحفے قرار دیا ہے جن کے وہ قائل اور گھائل ہیں
حالانکہ وہ خود
بھی راجپو ت ہی ہیں
محل وقوع
بیکانیر ہندوستان کے صوبہ راجستھان کے تقریباً وسط میں واقع ہے اس کے شمال
میں کشمیر ‘ چین کے علاوہ ہندوستان کا صوبہ پنجاب ، امرتسر، ھنومان گڑ،
مشرق میں امرتسراور شاہجہاں پور، جنوب میں گجرات‘ احمد آباد اور جونپور،
مغرب میں پاکستانی علاقہ پنجاب کی سرحد ہے جب کہ شمال مشرق میں دہلی‘ گنگا
نگر‘ مظفر نگر‘ میرٹھ‘ ہریانہ ، شمال مغرب میں پاکستانی شہر بہاولپور اور
بہاولنگر کی سر حد ملتی ہے، جنوب مشرق میں جیپور جب کہ جنوب مغرب میں
جودھپور ‘ رن کچھ نیز پاکستان کے صوبہ سندھ کے بعض علاقوں میر پور خاص،
کھوکھرا پار واقع ہے۔
رقبہ اور آبادی
ریاست بیکانیر کا رقبہ ۲۴۵ میل یا ۳۹۴ کلو میڑپر مشتمل ہے۔ انسائیکلو پیڈیا
بریٹینیکا نے ۱۹۴۱ء میں ریاست بیکانیر کی آبادی ایک لاکھ ۲۷ ہزار تحریرکی۔
اردو انسائیکلو پیڈیا فیروزسنز کے مطابق ۱۹۴۷ء میں اس کی آبادی ۹۳۸،۹۲،۱۲
تھی۔صرف شہر بیکانیر کی آبادی ۱۹۷۰ء میں ایک لاکھ ۹۰ ہزار ۹۶۸ سو تھی۔ انٹر
نیٹ پر بیکانیر کی آبادی کی تفصیل حسب ذیل دی گئی ہے ۔ ۲۰۰۱ء کی مردم شماری
کے مطابق اس شہر کی آبادی 1,674,271تھی، ۲۰۱۱ء کی مردم شماری میں لوگوں کی
کل تعداد2,367,745ہے۔ ان میں مردوں کی آبادی ,367,745اور عورتیں
1,674,271ہے۔ یعنی مرد کل آبادی کا 35فیصد اور خواتین کل آبدی 47فیصد ہیں۔
آب و ہوا اور زبانیں
بیکانیر ہندوستان کے صحرائی راجستھان میں واقع ہے اس اعتبار سے یہاں کی آب
و ہوا انتہائی گرم ریگستانی ہے۔ بارش بہت کم ہو تی ہے۔ سیرو سیاحت کے لیے
بہترین موسم اکتوبر سے مارچ کے درمیان ہو تاہے۔بیکانیر کی بنیادی سرکاری
زبان ہندی ہے لیکن راجستھانی ، ساردو اورمارواڑی بولنے والے بھی خاصی تعداد
میں ہیں۔
تاریخی پس منظر اور سربراہانِ ریاست :
پندرھویں صدی میں مار واڑ (جودھپور) پر ایک راٹھور راجپوت راؤ جو دھا جی
حکمرانی کررہا تھا۔ اس راجہ کے کئی بیٹے تھے اس نے اپنے ایک بیٹے راؤ بیکا
جی جو چھٹے نمبر پر تھا راجستھان میں کسی بھی جگہ اپنی علیحدہ حکمرانی قائم
کر نے کی ہدایت کی۔ راؤ بیکا جی نے اپنے باپ کے حکم کی تعمیل کر تے ہوئے
۱۴۶۵ء میں بھٹنیر( ھنو مان گڑھ) پر فوج کشی کا آغاز کیا۔ اس حکمت عملی میں
اسے اپنے باپ کے علاوہ اپنی قوم کی بھی مکمل حمایت حاصل تھی۔یہ سورش کئی
سال جاری رہی حتیٰ کہ اسے اپنے مقصد میں کامیابی ہوئی اور راؤبیکاجی نے
۱۴۸۸ء میں علاقہ کو مکمل طورپر اپنی گرفت میں لیتے ہوئے اپنی حکمرانی کا
آغاز کیاساتھ ہی اس علاقہ بھٹنیر( ھنو مان گڑھ) کا نام اپنے نام کی مناسبت
سے ’’بیکانیر‘‘ رکھا۔یہ ریاست بیکانیر اور نواحی بستیوں پر مشتمل
تھی۔بیکانیر کو ریاست کا دارالخلافہ بنایا گیا جو تقسیم ہند تک قائم رہا۔
اپنی حکمرانی کے ساتھ ہی راؤبیکاجی نے شہر کی تعمیر نو کی جانب خصو صی توجہ
کی خاص طور پر ایک چھوٹا سا قلعہ تعمیر کرایا جو آج بھی بیکانیر کے بانی
حکمراں کی یادگار کے طور پر
قائم ہے۔راؤبیکا جی کا انتقال ۱۵۰۴ء میں ہو ا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں مغل بادشاہ محمد ظہیر الدین بابر (۱۴۸۳ء
۔۱۵۳۰ء ) نے مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ مغلیہ سلطنت کے قیام کے بعد علاقہ
میں فتوحات کا آغاز ہو چکا تھا اور مغل حکمراں اپنی سلطنت کوو سیع سے وسیع
تر کر نے کی غرض سے فتوحات کر رہے تھے۔راؤبیکا جی نے ان حالات سے بھی فائدہ
اٹھایا ہو گا۔راؤبیکا جی کے انتقال کے بعد کلیان سنگھ جانشین ہوا یہ دور
مغل بادشاہ اکبر اعظم (۱۵۵۶ء ۔ ۱۶۵۱ء) کا تھا ۔بیکانیر کے حکمرانوں نے خطے
کی خصوصی کیفیت کے باعث مغل فرمارواؤں کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار رکھے
۔ کلیان سنگھ کو دربار اکبری میں خصو صیت حاصل تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ
بیکانیر کا سربراہ سلطنت دہلی کا بہت ہی بہ اعتماد اور ثابت قدم رہنے والا
وفادار حاکم اور اکبر بادشاہ کے بہت قریب تھا۔ ۱۵۷۰ء میں اکبر بادشاہ نے
کلیان سنگھ کی بیٹی سے شادی کی اس طرح بیکانیر کا حاکم مغل سلطنت سے مزید
قریب آگیا۔کلیان سنگھ کا بیٹا ’رائے سنگھ‘ مغل سلطنت میں فوجی اعتبار سے
اہمیت رکھتا تھا ۔ یہ ایک جنرل تھا اور اکبر بادشاہ کا بہت ہی قابل اعتبار
اور معتبر لوگوں میں سے ایک تھا۔اپنے باپ کے بعد بیکانیر کا حکمراں مقررہوا
اکبراعظم نے اسے خاص انعا م و اکرام سے نوازااور یہ بیکانیر کا پہلا ’’راجہ
‘‘ مقرر ہوا یعنی بیکانیر ریاست کے حاکم اعلیٰ کو راجہ کی حیثیت رائے سنگھ
سے حاصل ہوئی بعد میں رائے سنگھ کی بیٹی کی شادی سلیم سے ہوئی۔
راجہ کرن سنگھ
راجہ کرن سنگھ(۱۶۳۱ء۔۱۶۶۹ء) بیکانیر اسٹیٹ کا ایک ممتازحکمراں تھا اس نے
مغل شہنشاہ اورنگ زیب کے ساتھ ملکر سلطنت کی ترقی کی جدوجہد کی۔اس کے بعد
انوپ سنگھ (۱۶۶۹ء ۔۱۶۹۸ء) نے بھی ریاست کی حدود کو وسیع کر نے کی جدجہد کی
، اس زمانے میں ریاست بیکا بیر کے ریاست دکن سے انتہائی دوستانہ تعلقات
استوار ہو گئے ۔اٹھارویں صدی میں بیکانیر اسٹیٹ اور جودھپور کے مابین وقفہ
وقفہ سے معرکہ آرائی ہوتی رہی، با لا آخر دونوں ریا ستیں امن پر متفق
ہوئیں، ۹ مئی ۱۸۱۸ء کو دونوں کے درمیان ایک امن معاہدہ ہواجس کے نتیجے میں
برطانوی فوج نے ریاست کو باقاعدہ تسلیم کیا۔
رتن سنگھ
۱۸۲۸ء میں رتن سنگھ نے اپنے باپ کی جگہ ریاست کا اقتدار سنبھالہ ۔ علاقے
میں ٹھاکروں نے اس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ۔ رتن سنگھ تنہا اس سورش کو
ختم نہیں کر سکتا تھا چنانچہ اس نے برطانوی حکومت سے مدد کی درخواست کی جس
کے بعد حالات قابو میں آگئے۔ ریاست بیکانیر کا یہ حاکم انگریز کا وفاداار
تھا۔ ۱۸۴۲ء میں ہونے والی افغان جنگ میں رتن سنگھ نے انگریز کی بھر پورمدد
کی ہر طریقہ سے انگریز کا وفادار رہا۔ کئی سو اونٹ بغرض جنگ انگریز کو تحفہ
میں دئے اس زمانے میں جنگ میں دیگر اشیاء کے علاوہ اونٹ ایک مال و اسباب
اور لوگوں کی سواری کا ایک اہم زریعہ تھا۔ بیکانیر اسٹیٹ شروع ہی سے اونٹوں
کی افزائش نسل کے لیے ایک اہم مرکز کی حیثیت رکھتی تھی۔
سردار سنگھ
رتن سنگھ کے بعد اس کا بیٹا سردار سنگھ (۱۸۵۱ء ۔۱۸۷۲ء) ریاست بیکانیر کا
حاکم بنا اس نے اپنے سابقہ حاکموں کی پالیسی پر عمل در آمد کیا اور انگریز
سے بدستور تعلقات استوار رکھے چنانچہ انگریز نے اسے بے شمار انعام و اکرام
سے نوازا۔ریاست کے گرد ونواہ کی مزید زمین ریاست بیکانیر میں شال کی گئی۔اس
کے نتیجے میں رتن سنگھ نے اجناس و دیگر سازوسامان جو اس کے علاقے سے گزرکر
دیگر ریاستوں کو جاتا تھا اس پر عائد ٹیکس میں کمی کر دی۔
ڈونگرا سنگھ
سر دار سنگھ کا کوئی بیٹا نہیں تھااس کا انتقال ۱۸۷۲ء میں ہوا چنانچہ
جانشینی کا مسئلہ پیدا ہوا اس کی بیوہ اور ریاست کے خاص وزیروں کے مشورے سے
’ڈونگرا سنگھ‘ کوسر دار سنگھ کا جانشیں مقرر کیا گیا۔ڈونگرا سنگھ کی
جانشینی میں برطانوی حکومت کی رضا مندی بھی شامل تھی ۔ ڈونگرا سنگھ کے دور
حکمرانی میں ریاست میں استحکام نہ ہوسکا مختلف قوموں نے اسے اپنا حاکم قبول
نہ کیا اور ریاست میں امن قائم نہ رہا ۔ سب سے زیادہ سوزش ۱۸۸۳ء میں
ٹھاکروں نے بر پا کی یہ ایک طرح کی بغاوت تھی، اس کی بنیاد ریاست کی جانب
سے لگائے جانے والے مختلف ٹیکسوں کو بنا یا گیا۔ڈونگرا سنگھ کا انتقال
۱۸۸۷ء میں ہوا اس کا بھی کو ئی بیٹا نہیں تھا لیکن اس نے اپنی زندگی ہی میں
اپنے ایک چھوٹے بھائی گنگا
سنگھ کو بیٹا بنا لیا تھا چنانچہ ریاست کی حاکمیت اعلیٰ گنگا سنگھ کو سونپی
گئی۔
سری گنگا سنگھ
سری گنگا سنگھ ریاست بیکانیر کا اکیسواں مہاراجہ تھا اس نے اپنی حکمرانی کا
آغاز ۱۸۸۷ء میں کیا ۔ تاج بر طانیہ نے گنگا سنگھ کی حکمرانی کے لیے باقاعدہ
اجازت نامہ ۱۸۹۸ء میں جاری کیا۔ گنگا سنگھ ایک نیک انسان تھااس نے اپنے دور
حکمرانی میں ریاست بیکانیر کی تر قی کے لیے بے شمار عملی اقدامات کیے
بیرونی دنیامیں بھی اس نے ریاست کے وقار میں اضافہ کیا ۔ گنگا سنگھ ریاست
بیکانیر کے مہاراجوں اور حکمرانوں میں اس اعتبار سے منفرد تھا کہ اس نے تاج
برطانیہ کے ساتھ نہ صرف دوستانہ مراسم قائم کیے بلک برطانوی حکو مت کی
نمائندگی کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ گنگا سنگھ نے ۱۹۰۲ء میں برطانیہ کا پہلا
سرکاری دورہ کیا جہاں پر انہوں نے کنگ ایڈورڈ کی رسم تاجپوشی میں شرکت کی
اس موقع پر سری گنگا سنگھ کو پرنس ویلس کا اے ڈی سی مقرر کیا گیا ان کی یہ
حیثیت کنگ جارج تک قائم رہی پہلی جنگ عظیم میں سر ی گنگا سنگھ نے فرانس میں
بحیثیت اسٹاف آفیسر خدمات انجام دیں۔ ۱۹۱۵ء میں مصر میں بھی انہیں مہ
داریاں سونپی گئیں۔ ۱۹۱۷ء میں مہاراجہ گنگا سنگھ کو امپیریل وار کانفرنس کا
رکن نامز د کیا گیا اور ہندوستان کے لیے سیکریٹری کی معاونت کی ذمہ داریاں
سونپی گئیں۔ ۱۹۱۹ء میں منعقد ہونے والی امن کانفرنس اور ۱۹۲۴ء میں لیگ آف
نیشن اسمبلی جینوا میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔ گنگا سنگھ نے ۲ فروری
۱۹۴۳ء کو داعی اجل کو لبیک کہا ۔ گنگا سنگھ کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا
سری سادل سنگھ جی بہادر ۱۹۴۳ء میں ریاست کا سربراہ بنا اور ۱۹۴۹ء میں دیگر
ریاستوں کے ساتھ ساتھ بیکانیر ریاست کو بھارت کا حصہ بنا دیا گیا اس طرح
ریاست بیکانیر میں سرداروں کی حکمرانی کا آغاز جو۱۴۸۸ء میں شروع ہوا تھا
۱۹۴۹ء میں اختتام کو پہنچا۔ سر دار راؤ بیکاجی ریاست کا پہلا حکمراں جب کہ
سری گنگا سنگھ کا بیٹاسری سادل سنگھ جی بہادرریاست کا آخری مہاراجہ تھا۔
حفاظتی دیوار
ریاست بیکانیر کے چاروں اطراف پتھر کی چار دیواری بنوائی گئی تھی جس کی
موٹائی تقریباً چھ فٹ ‘ اونچائی ۱۵ سے ۳۰ فٹ تھی ۔ ریاست میں داخل ہو نے کے
لیے پانچ دروازے تھے جب کہ تین خفیہ راستے اس کے علاوہ تھے۔ دیوار بنانے کا
مقصد شہر کو بیرونی حملہ وروں سے محفوظ رکھنا تھا۔
قلعہ اور میوزیم
ریاست بیکانیر کے حکمراں قلعہ اور قلعہ نما عمارات کی تعمیر میں خاص دلچسپی
ر کھتے تھے ۔ بیکانیر کے اولین حکمراں راؤبیکا جی نے اپنی حکمرانی قائم ہو
تے ہی ایک چھوٹا سا قلعہ تعمیر کرایا جو اپنی خوبصورتی میں لاجواب تھا یہ
قلعہ ریاست کے انتظامی امور کی انجام دہی کا مر کز بھی تھا۔ جو نا گڑھ قلعہ
پندرھویں صدی میں مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے ایک جنرل راجہ رائے سنگھ نے
تعمیر کرایا جو آج بھی قائم ہے۔ لعل گڑ پیلس بیکانیر کے راجہ سری گنگاسنگھ
نے تعمیر کرایا ۔ اس کی ڈیزائنگ بر طانوی ماہرین نے کی تھی یہ مشرقی اور
مغربی طرز تعمیر کا اعلیٰ نمو نہ ہے۔ گنگ گولڈن جوبلی میوزیم میں قدیم
تہذیبوں کے نوادرات‘ قلمی تسخے‘ پینٹنگ‘ سکے اور دیگر نوادرات محفوظ ہیں۔
تعلیمی ادارے
بیکانیر ریاست تعلیمی اداروں کے اعتبار سے بھی خود کفیل تھی اور اب بھی ہے۔
حکمرانوں نے جہاں دیگر امور کی جانب توجہ دی وہان تعلیم کے فروغ اور تعلیمی
اداروں کے قیام پر بھی خصو صی توجہ دی۔ انٹر نیٹ پرحسب ذیل تعلیمی اداروں
کی تفصیل موجود ہے(۱۲۳) ۔
Colleges :
1. Shri. Dungar College
2. College of Engineering & Technology, Bikaner
3. Government Engineering College Bikaner
4. Sardar Patel Medical College, Bikaner
5. Marudhar Engineering College, Bikaner
Universities :
1. Maharaja Ganga Singh University
2. Rajasthan University of Veterinary and Animal Sciences,
Jaisalmer Road, Bikaner
3. Swami Keshwanand Rajasthan Agricultural University
Schools :
1. Saint Public Sr. Sec. School, Old Ginani
2. R.S.V., JNV Colony
3. K.V. No. 1 (Jaipur Road)
4. K.V. No. 2 Bikaner (inside Army campus).
5. K.V. No. 3 Nal Bikaner (inside Air Force Station Nal Bikaner)Sophia
Senior Secondary School,Jaipur Road
6. Bikaner Boys School
7. Govt City Senior Sec. School
8. Delhi Public School,Bikaner
9. Dayanand Public School.
10. Sophia Senior Secondary School,Jaipur Road
11. St.N.N R.S.V, Pawan Puri South Extension
12. Central Academy Senior Secondary School {Sadul Ganj}
13. Teresa Children Academy Sr. Sec. School (K.K Colony Bikaner)
14. Bal Bari, Gangashahar
15. Aadarsh Vidhya Mandir, JNV Colony & Gangashahar
16. St. vivekanand sr. sec. school
17. Seth Tolaram Bafna Academy,Gangashahar,Nokha Road
18. Pink Model Senior Sec. School
19. Fort Senior Sec. School
20. Army Public School (Inside Army campus)
21. Sadul Sports School Bikaner (Only Sports School In Rajasthan)
22. Sadul Sr. Secondary School(Kotegate Bikaner) 23. H.S.R.
Vidyaniketan, Bikaner
انوپ سنسکرت لائبریری
بیکانیر میں قائم انوپ سنسکرت لائبریری دنیا میں سنسکرت مخطوطات کے وسیع
ذخیرہ کے اعتبار سے معروف ہے۔یہ لائبریری بیکانیر کے راجہ انوپ سنگھ کے نام
سے منسوب ہے۔ لائبریری بیکانیر میں موجود’لعل گڑھ پیلس‘ کے ایک حصے میں
قائم ہے جسے ’سادلنواس‘(Sadul Niwas)کہا جاتا ہے۔راجا انوپ سنگھ نے یہ
قیمتی مخطوطات ستھرویں صدی میں حیدر آباد سیحاصل کیے تھے۔
بیکانیر اسکول آف آرٹ
سترھویں صدی کے اختتام پر بہت سے مغل مصور دہلی سے تر ک وطن کر کے بیکانیر
میں آباد ہوگئے انہو ں نے اپنے پیشے کی تر قی اور فروغ کے لیے اپنے فن کا
آغاز کیا اور مصوری کے ایک خاص اسلوب کی بنیاد رکھی ۔ اس اسلوب مصوری کو
شہرت حاصل ہوئی اپنی انفرادیت اور مخصوص اسلوب نگاری کے باعث اسے ’’بیکانیر
اسکول آف آرٹ‘‘ کا نام دیا گیا ۔ اس میں جلال کم اور جمال زیادہ تھا ۔ رکن
الدین اور رضا
عباس اس اسکو لِ مصوری کے بانیوں میں سے تھے۔
اونٹ میلا
اونٹ جسے صحرائی جہازکا نام دیا جاتا ہے بیکانیر کے حوالے سے خاص اہمیت
رکھتا ہے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بیکانیر میں موٹر کار کے بجائے
گھروں میں اونٹ پالے جاتے تھے گو یا اونٹ پالنا اس علاقے کی خاص روایت تھی۔
بیکانیر کے مختلف مہاراجہ اونٹ بطور تحفہ دیا کرتے تھے۔اونٹ جنگ کے دوران
بھی ایک خاص اہمیت رکھتا تھا۔ سواری ، مال برداری کے علاوہ اونٹوں کو میدان
جنگ میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ بیکانیر مین اونٹوں کی خاص نسلیں پائی
جاتی تھیں یہاں ہر سال جنوری کے مہینے میں اونٹوں کا میلا منعقد کیا جاتا
جس میں لوگ دور دور سے شر کت کرنے آیا کر تے تھے۔
|