پاک بھارت تجارتی تعلقات۔ آزمائش کا پل صراط
(Ata Muhammad Tabasum, Karachi)
پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی
جانب جب بھی کوئی پیش رفت ہوتی ہے تو نہ جانے کیوں ملک کے اندر سیاسی عدم
استحکام شروع ہوجاتا ہے، اب بھی اس جانب پیشرفت شروع ہوئی ہے اور یہ
دوستانہ تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہوا چاہتے ہیں کہ ملک کی سیاست میں
ابال آنا شروع ہوگیا ہے۔ نان ایشو پر اخباری اور میڈیا کا دنگل جاری ہے،
چائے کی پیالی میں طوفان شائد اسی صورتحال کے لئے کہا گیا ہو۔ یہ صرف دو
ملکوں کے تجارتی تعلقات کا مسئلہ نہیں ہے، یہ اس خطے کے تقریباً سوا ارب
انسانوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہونے کا معاملہ ہے، جو گذشتہ کئی دہائیوں
سے ایک دوسرے کے لئے جنگی میدان بنے ہوئے ہیں، سوال یہ ہے کہ اس خطے میں
مفادات رکھنے والی عالمی قوتیں کیا دونوں ملکوں کو باہمی منڈیوں تک بلا
امتیاز رسائی دینے پر متفق ہوجائیں گی؟ کیااب دونوں ممالک کے درمیان واہگہ
کے راستے پورا ہفتہ چوبیس گھنٹے تجارت ہو گی؟ نئی دہلی میں سارک ممالک کے
کاروباری نمایندوں کی تین روزہ کانفرنس کے بعد دونوں ملکوں کے وزرا تجارت
نے مشترکہ اعلامیہ میں تو ایسی ہی نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا۔ دونوں
ممالک کے وزراء تجارت نے پاک بھارت دو طرفہ تجارتی تعلقات کو معمول پر لانے
کے عمل کو تیز کرنے‘ انھیں وسعت دینے اور اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو
دور کرنے ایک دوسرے کو اپنی منڈیوں تک بلا امتیاز رسائی فراہم کرنے‘ دونوں
ممالک کے بینکوں کی برانچز کھولنے سمیت باہمی تجارت کے فروغ کے لیے کیے گئے
دیگرفیصلوں پر عملدرآمد پر اتفاق کیا تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف کی طر ح ،صوبہ
پنجاب کے وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف بھی یہی کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت
کو معاشی ،تجارتی،صنعتی،زرعی اور اقتصادی میدان میں آگے بڑھنا ہے۔دونوں
ملکوں کے مابین دو طرفہ تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم
نواز شریف بھی بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہشمند ہیں۔شہباز شریف نے اس
موقع پر بھارتی وفد سے کھل کر کہا کہ پاکستان اوربھارت کو خطے کی ترقی و
خوشحالی اور پائیدار امن کے لیے اپنے تمام تنازعات مل بیٹھ کر مخلصانہ بات
چیت کے ذریعے طے کرنے چاہئیں۔جنگوں نے دونوں ممالک کو تباہی اوربربادی کے
سوا کچھ نہیں دیا۔جنگوں سے دونوں ممالک کے لوگوں کی مشکلات اور مصائب میں
اضافہ ہوا۔غربت اور بے روزگاری کے مسائل پیدا ہوئے۔تاریخ سے سبق حاصل کر کے
پاکستان اور بھارت کو مستقبل کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔کچھ ایسی ہی باتیں
کینڈین ہائی کمشنر گریگ جیوکاس نے بھی کی ہیں۔انھوں نے کہا کہ پاک بھارت
تجارتی تعلقات خطے میں اہمیت کے حامل ہیں اور علاقائی تجارت کو بڑھانے کی
ضرورت ہے۔کراچی اسٹاک ایکسچینج کے دورے کے موقع پر کینیڈین ہائی کمشنر نے
وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے بھارت کے دورہ خوش آئند قرار دیا ہے اور اس
امید کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان و بھارت کی قیادت اپنے تمام مسائل مذاکرات
کی میز پر حل کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے،پاک بھارت میں تعلقات ہمسائے
جیسے ہو جائے گے ایک ایسا ہمسایہ جو دوسرے کو اپنے جیسا ہی سمجھتا ہو۔ لیکن
وقت گذرنے کے ساتھ بھارت ان مسائل پر بات کرنے سے گریزاں ہے۔ جو دونوں
ملکوں میں کشیدگی کا سبب رہے ہیں۔ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ کشمیر سمیت
تمام مسائل پر ایک ساتھ بات ہونی چاہیے۔پاکستان کے نزدیک دیگر تمام مسائل
کی بنیاد کشمیر کا تنازعہ ہے اس لئے اس معاملے پر پہلے بات ہونی چاہئے
کیونکہ اگر مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرلیا جائے تو دیگر مسائل کا حل تلاش
کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔جبکہ بھارت کا کہنا ہے کہ کشمیر کے علاوہ دیگر
مسائل پر بھی گفتگو ساتھ ساتھ ہونی چاہے اور دیگرامور پر پیش رفت کو کشمیر
میں کشیدگی کی وجہ سے نہیں روکا جاسکتا۔سب سے اہم تنازعہ جو پاکستان اور
بھارت کے درمیان ہے وہ کشمیر کا تنازعہ ہے۔تقسیم ہندکے معاہدے کے مطابق
ہندوستان کے مسلم اکثریت والے علاقے پاکستان اور ہندواکثریت والے علاقے
بھارت میں شامل ہو نگے جبکہ ملحقہ ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ پاکستان
یا بھارت کسی کے ساتھ مل جائیں چنانچہ کئی ایک ریاستیں پاکستان میں شامل ہو
گئیں اور متعدد بھارت کا حصہ بن گئیں۔مگر بعض ایسی ریاستوں کیلئے یہ فیصلہ
کرنا مشکل ہو گیا کہ وہ بھارت میں شامل ہوں یا پاکستان میں کہ جہاں پر عوام
کی اکثریت مسلم اور حکمرانی غیر مسلموں کے پاس تھی یا وہ کہ جہاں پراکثریت
یا اثر و رسوخ غیر مسلموں کے پاس تھا ایسی ہی ریاستوں میں ایک کشمیر بھی
شامل ہے کہ جہاں پر مسلم اکثریت پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔بھارت میں
شمولیت کے ساتھ ہی کشمیر ی عوام اس فیصلے کے خلاف ہو گئے اور جلسے جلوس اور
احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا جو آج تک جاری ہے بھارت کا اصرار ہے کہ ریاست
کشمیر ہمارا حصہ ہے اور پاکستان کا اصرار ہے کہ کشمیر ہمارا حصہ ہے اس پر
اب تک تین جنگیں ہو چکی ہیں۔جبکہ وہاں کی عوام کی جدوجہد علیحدہ سے جاری
ہے۔1948کے آغاز میں ہی یہ مسئلہ عالمی برادری کی نظر میں آچکا تھا چنانچہ
اس وقت کے بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے کشمیری عوام کی رائے جاننے
کے لیے اقوام متحدہ میں کشمیر میں ریفرینڈم کرانے کا وعدہ کر لیا یعنی کہ
اگر عوام کی اکثریت پاکستان میں شامل ہونا چاہے گی تو کشمیر پاکستان کا حصہ
اور اگر عوام کی اکثریت نے بھارت میں شامل ہونے کیلئے ووٹ ڈالا تو کشمیر
بھارت کا حصہ ہو گا۔بھارت کے اس جمہوری طریقہ کار سے اب دور بھاگ رہا ہے۔
دونوں ملکوں کے مابین ہندوستانی ریاست گجرات اور پاکستانی صوبے سندھ کے
علاقے میں ہندوستان اور پاکستان کے مابین بین الاقوامی سرحد کے تعین پر بھی
اتفاق ہونا باقی ہے۔یہ علاقہ سر کریک کا علاقہ کہلاتاہے۔ ساٹھ سے سو
کلومیٹر کے اس علاقے میں بہت سی کریک یعنی خلیج اور دریاؤں کے دہانے ہیں۔
اس علاقے کا تنازعہ 1960 کی دہائی میں سامنے آیا تھاجس پر 1968میں پاکستان
اور بھارت کے درمیان ایک ویسٹرن باؤنڈری ٹرائیبیونل ایوارڈ قائم کیا گیا
لیکن یہ طے نہیں ہوسکا کہ سر کریک کے علاقے میں بین الاقوامی سرحد کا تعین
کس قانونی بنیاد پر کیا جائے۔ اس علاقے کا کچھ حصہ آبی ہے اور کچھ حصہ خشک۔
پاکستان اور بھارت کے مابین کئی دفعہ اس مسئلہ پر مذاکرات ہوچکے ہیں لیکن
اس پر بھی کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔ دونوں ممالک کی اس علاقے میں دلچسپی
یہاں پر ماہی گیری کی وسیع صنعت اور تیل کے وافر ذخائر ہے۔دونوں ملکوں کے
درمیان اختلاف اس بات پر ہے کہ آخر سرحد کس جگہ ہے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ
سرکریک کا پورا علاقہ اسکا اپنا ہے۔ لیکن ہندوستان اسے تسلیم کرنے سے انکار
کرتا ہے۔ایک اور اہم مسئلہ وولر پروجیکٹ کا ہے جو بھارت دریائے جہلم پر
کشمیر میں وولر پروجیکٹ کے نام سے ایک ڈیم بنا رہا ہے جس کی پاکستان شروع
سے ہی مخالفت کرتا رہا ہے۔ بھارت کا یہ کہنا ہے کہ یہ پروجیکٹ پانی سے بجلی
پیدا کرنے کے لئے تعمیر کررہا ہے اور اس کا پانی دیگر ذرائع کیلئے بھی
استعمال کرنا چاہتا ہے۔ جبکہ پاکستان کو خدشہ ہے کہ گرمی کے موسم میں
دریائے جہلم میں پانی کی کمی واقع ہوسکتی ہے۔جس کی وجہ سے اس کے ہاں پانی
کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں کیونکہ پاکستان کو پہلے ہی پانی کی کمی کا سامنا
ہے ۔ دریائے جہلم بھارت کے زیرانتظام کشمیر سے شروع ہوکر پاکستان میں ختم
ہوتا ہے۔یہاں بھی بھارت وولر پراجیکٹ کی طرح ایک دوسرا پروجیکٹ دریائے چناب
پر تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ اسے سلال ڈیم کا نام بھی دیا گیا ہے۔ ان دونوں
منصوبوں پر دونوں ملکوں کا اتفاق ہونا باقی ہے۔ پاکستان میں پانی کے مسائل
بہت اہمیت کے حامل ہیں۔یہ ہمارے لئے زندگی موت کا مسلۂ ہے کیونکہ پاکستان
کو جن دریاوں سے پانی ملتا ہے ان میں سے اکثریت بھارت کی زیر انتظام کشمیر
سے نکلتی ہے اور اگر بھارت ان پر ڈیم بنا لے جیسا کہ ستلج اور راوی پر
بنائے ہوئے ہیں۔ تو یہ ہماری معیشت کی تباہی ہوگی۔ایک اور مسئلہ تجارتی
تعلقات کا ہے۔ پاکستان اور بھارت ڈبلیو ٹی او کے ممبر ہیں جو ایک آزاد
تجارتی معاہدہ ہے۔عالمی تجارتی تنظیم یعنی ڈبلیو ٹی او کے قوانین کے تحت
وقت کے ساتھ ساتھ اس تنظیم میں شامل تمام رکن ممالک کے لیے لازمی ہے کہ
دنیا میں آزاد تجارت قائم کرنے کے لئے ایک دوسرے کو ایم ایف این یعنی خصوصی
مراعات یافتہ قوم کا درجہ دیں۔ ایم ایف این کا درجہ جس ملک کو دیا جاتا ہے
وہاں سے اشیاء کی درآمد اور برآمد میں تاجروں کے لئے آسان ہوجاتی ہے۔اس
مسئلہ پر بھی گفت شنید ہونی ہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ بھی دونوں
کی تجارت میں حائل ایک رکاوٹ ہے۔ پاک بھارت کی تجارت میں سب سے زیادہ دوں
ملکوں کی نیک نیتی ضروری ہے۔ اگر دونوں ممالک اچھے ہمسائے کی طرح رہنے کا
دل سے فیصلہ کریں۔ تو ایک ارب عوام کو خوشحالی میسئر آسکتی ہے۔ لیکن دونوں
ملکوں کی عسکری قوت ان مذکرات اور تعلقات کو آگے بڑھنے سے روکتی ہے۔
پاکستان کی جمہوری حکومت کو درپیش موجودہ حالات بھی اس صورتحال کی عکاس ہے۔ |
|