بہارِ عرب کے بعد

"انقلاب" کا لفظ سنتے ہی جذبات بھڑک اٹھتے ہیں ۔ رستے زخموں کی مسیحائی کی آس بندھ جاتی ہے ۔ شب ِ ظلمت کے سائے چھٹتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ۔ پھر لگتا ہے ، انقلاب کے خوف سے ہر سماجی برائی اپنی موت آپ مر جائے گی ۔ نفرت کی بہ جائے محبت ہوگی ۔ ظلم و بربریت کی بہ جائے امن و سکون ہوگا ۔قتل و غارت گری کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ یک بہ یک تھم جائے گا ۔ وہ رسوم ، جو انسان دشمن ہیں، اتنی انسان دشمن کہ محض پسند کی شادی پر دولھا اور دلھن کے سر کاٹ کر ان سے فٹ بال کھیلنے پر مجبور کرتی ہیں ، "انقلاب" کی آگ میں جل کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نیست و نابود ہو جائیں گی۔ "انقلاب" ظالموں کو ان کے کیے کی سخت سزا دے گا ، یوں ظلم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مسخر ہو جائے گا ۔ مہنگائی نہیں ہوگی ، غریب کا چولھا روزانہ تین بار روشن ہوگا ۔

لیکن یاد رکھیے ، انقلاب بپا کرنے سے زیادہ ، انقلاب کے بعد کی صورت حال پر نظر رکھنا زیادہ ضروری ہے ۔ دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ جوش میں آکر انقلاب کے وہ نتائج اخذ نہ کیے جائیں ، جو ہم نے درج بالا اقتباس میں تحریر کیے ہیں ، بلکہ انقلاب کے بعد کی صور ت حال کا مکمل ادراک دانش وری کی دلیل ہے ۔ یہ سچ ہے کہ ہم اپنے ارد گرد روزانہ کئی ایسی سماجی برائیاں دیکھتے ہیں ، جس سے بے چارے دل میں انقلاب کے جذبات موجزن ہو جاتے ہیں ۔ دل چاہتا ہے ، تخت اچھال دیے جائیں اور تاج گرا دیے جائیں ۔ تاکہ خلقت ِ خدا راج کرے ۔ ۔۔۔ لیکن کون سا مسیحا اس بات کو سو فی صد یقین سے کہہ سکتا ہے کہ تخت اچھالنے اور تاج گرانے کے بعد واقعی دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی ۔ واقعی امن وسکون کے گیت گائے جائیں گے ۔ واقعی عورتوں اور بچوں کے حقوق پامال نہیں ہوں گے ۔ واقعی کرپشن ختم ہوجائے گی ۔ واقعی دہشت گردی کی ظلمت چھٹ جائے گی ۔ واقعی مہنگائی کا عفریت قابو میں آجائے گا ۔ حالات کی درستی کی پیشین گوئی تو بڑی بات ہے ، کوئی اس بات کو ہی یقین کے ساتھ کہہ دے کہ حالات یوں ہی رہیں گے ، یعنی مزید خراب نہیں ہوں گے ، تو بڑی بات ہے ۔

ہمارے سامنے اس وقت "بہار ِعرب "یا "عرب بہار " کی مثال ہے ۔ جسے انگریزی میں "عرب اسپرنگ" کہا جاتا ہے ۔ پاکستان کی اصطلاح میں اسے "عرب انقلاب" کہا جا سکتا ہے ۔ کیوں کہ پاکستان میں "بہار" سے زیادہ "انقلاب" کی مانگ ہے ۔ بہار ِعرب کے بعد ہم نے دیکھا کہ عرب دنیا کے حالات مزید خراب ہوگئے ۔ بہار ِ عرب کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ عرب ممالک میں بہت زیادہ بعد آگیا ۔ آپس کی محبتیں اولارنجشوں ، بعد ازاں نفرتوں میں تبدیل ہو گئیں ۔ بی بی سی کے ایک صحافی بہار ِ عرب کے بعد عرب دنیا کی سچی منظر کشی کرتے ہوئے کہتے ہیں :" میں گذشتہ چالیس برس سے مشرق وسطیٰ سے خبریں بھیج رہا ہوں، لیکن میں نے اس سے پہلے عرب دنیا کو اتنا منقسم اور ٹوٹا پھوٹا کبھی نہیں پایا جتنی یہ مجھے آج نظر آ رہی ہے۔"

بہار ِ عرب کا آغاز 2010 ءکے آخر میں ہوا ۔ یہ ایک نوجوان کی خود سوزی سے پھوٹی ۔ اس نوجوان کا نام محمد بو عزیزی تھا ۔ محمد بو عزیزی 1984 ء میں تیونس کے ایک قصبے میں پیدا ہوا ۔ یہ نو جوان اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا ۔ اس نوجوان نے کمپیوٹر سائینس میں ماسٹرز کیا ہوا تھا ۔ لیکن اس کے با وجود بے روز گار تھا ۔ بے روز گاری سے تنگ آ کر اس اعلیٰ تعلیم یافتہ نو جوان نے بازار میں سبزی کی ریڑھی لگا لی ۔ ایک دن پولیس والا پہنچ گیا اور اس سے ٹھیلے کا بلدیاتی اجازت نامہ طلب کیا ۔ بو عزیزی کے پاس اجازت نامہ نہیں تھا ۔ دونوں طرف سے سخت جملوں کا تبادلہ ہوا تو پولیس والا بو عزیزی پر غالب آ گیا ۔ اس نے آؤ دیکھ نہ تاؤ۔پہلے نوجوان کو تھپڑ رسید کیا ۔پھر اس کا ٹھیلا ضبط کر لیا۔ نوجوان اعلیٰ حکام کے پاس جا کر گڑ گڑایا ، مگر کسی نے اس کی نہیں سنی ۔ سخت مایوسی کے شکار اس نو جوان نے فیس باک پر اپنی ماں کے لیے الوداعی پیغام چھوڑا اور خود کو بلدیاتی دفتر کے باہر آگ لگا دی ۔ یوں اس اندوہ ناک واقعے سے بہار ِ عرب پھوٹی ۔ بہار ِ عرب نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے مشرق وسطی ٰ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ بہار ِعرب سے کئی ممالک متاثر ہوئے ۔ جن میں تیونس ، مصر ، یمن، بحرین ، لیبیا ، کویت ، شام وغیرہ سر ِ فہرست ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ بہار ِ عرب سے عرب دنیا کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ، بلکہ اس سے حالات مزید بگڑ گئے ۔تیونس ، جہاں سے بہار ِ عرب کا آغاز ہواتھا ،کے متعلق العربیہ کا یہ تبصرہ پوری پوری منظر کشی کرتا ہے :" سیدی بوزید میں 26 سالہ محمد بوعزیزی کی پولیس تشدد کے خلاف احتجاج کے طور پر خودسوزی کے بعد سے متعدد بے روزگار نوجوان خودکشی کرچکے ہیں حالانکہ انھی نوجوانوں نے عرب بہار کی بنیاد رکھی تھی اور تیونس کے بعد مصر ،لیبیا ،یمن اور شام میں بھی مطلق العنان حکمرانوں کے خلاف عوامی احتجاجی تحریکیں شروع ہوگئی تھیں۔ لیکن ان عرب بہاریہ انقلابات کے نتیجے میں تیونس اور دوسرے عرب ممالک کے عوام کی زندگیوں میں کوئی جوہری تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے۔وہ ماضی کی طرح گوناگوں مسائل سے دوچار ہیں اور غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔تیونس میں برپا شدہ انقلاب کے تین سال کے بعد بھی کل ایک کروڑ آبادی میں سے قریباً بیس لاکھ انتہائی غربت کا شکار ہیں جبکہ بے روزگاری کی شرح پندرہ فی صد ہے اوربے روزگار نوجوانوں کی تعداد سات لاکھ سے متجاوز ہے۔"

مصر کے حالات بھی ہم سب کے سامنے ہیں ۔ ایک ہی سا ل میں وہاں کی منتخب جمہوری حکومت کو ختم کر دیا گیا ۔ ایک بار پھر وہاں آمرانہ حکومت قائم ہو گئی ہے ۔ شام کی حالت تو سب کے سامنے ہے ۔ جہاں گذشتہ تین سالوں سے مسلم امہ کا خون بہہ رہا ہے ۔ جہاں اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ ہلاک ہو چکے ہیں ۔

بہار ِ عرب سے متاثر ممالک کی موجودہ حالت ِ زار دیکھ کر بہ آسانی یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انقلاب کے بعد ضروری نہیں کہ حالات مکمل طور درست ہو جائیں ۔ حالات مزید خراب بھی ہو سکتے ہیں ۔ اس لیے انقلاب کی جانب پھونک پھونک کر قدم اٹھانے چاہئیں۔
 
Naeem Ur Rehmaan Shaaiq
About the Author: Naeem Ur Rehmaan Shaaiq Read More Articles by Naeem Ur Rehmaan Shaaiq: 122 Articles with 159027 views میرا نام نعیم الرحمان ہے اور قلمی نام نعیم الرحمان شائق ہے ۔ پڑھ کر لکھنا مجھے از حد پسند ہے ۔ روشنیوں کے شہر کراچی کا رہائشی ہوں ۔.. View More