شہر رمضان اور اسکی اہمیت
(Mohd Rashid Falahi, Lucknow)
یا یھا الذین آمنوا کتب علیکم
الصیام کما کتب علیٰ الذین من قبلکم لعلکم تتقون۔اے لوگو! جو ایمان لائے ہو،
تم پر روزے فرض کر دئیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے ماننے والوں پر
فرض کئے گئے تھے، اس سے امید ہے کہ تم میں پرہیز گاری کی صفت پیدا ہو گی۔
اسلام کے اکثر احکام کی طرح روزے کی فرضیت بھی بتدریج عائد کی گئی ہے۔ نبی
ﷺ نے ابتداء میں مسلمانوں کو صرف ہر مہینے تین دن کے روزے رکھنے کی ہدایت
فرمائی تھی۔ مگر یہ روزے فرض نہ تھے۔ پھر ۲ہجری میں رمضان کے روزوں کا یہ
حکم قرآن میں نازل ہوا ۔
سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ شعبان کی آخری تاریخ کو نبی ؐ
خطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگو! ایک بڑی عظمت والا مہینہ ، بڑی برکت والا
مہینہ قریب آگیا ہے۔ وہ ایسا مہینہ ہے کہ جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے
بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ میں روزہ رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس
مہینہ کہ راتوں میں تراویح پڑھنا نفل قرار دیا ہے ۔ (یعنی فرض نہیں ہے بلکہ
سنت ہے، جس کو اللہ تعالیٰ بے انتہا پسند فرماتاہے) جو شخص اس مہینہ میں
کوئی ایک نیک کام اپنے دل کی خوشی سے بطور خود انجام تو وہ ایسا ہوگا جیسے
کہ رمضان کے سوا اور مہینوں میں فرض ادا کیا ہو، اور جو اس مہینہ میں فرض
ادا کرے گا تو وہ ایسا ہوگا جیسے کہ رمضان کے سوا دیگر مہینوں میں کسی نے
ستر فرض ادا کئے ، اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ
مہینہ معاشرہ کے غریب اور حاجت منجدوں کے ساتھ ہمدری کا مہینہ ہے۔(مشکوٰۃ)
اس مہینہ کا ’صبر کا مہینہ ‘ ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس مہینہ میں روزہ
داروں کو روزہ کے ذریعہ اللہ کی راہ میں جمنے اور اپنی نفسانی خواہشات پر
مکمل طور سیکنٹرول پانے کی تربیت دی جاتی ہے ۔ آدمی ایک متعینہ مدت سے لے
کر دوسری متعینہ مدت تک اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق نہ کھاتا ہے اور نہ
پیتا ہے اور نہ ہی بیوی سے مباشرت کرتا ہے۔ ان اعمال کے کرنے سے اس کے اندر
اللہ کی اطاعت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ان اعمال سے آدمی کی اس بات پر مشق
ہوتی ہے موقع پڑنے پر وہ اپنے جذبات و خواہشات پر اور اپنی بھوک وپیاس پر
بہت حد تک قابو رکھ سکتا ہے ۔ اس دنیا ء لا فانی میں مومنین کی مثال میدان
جنگ کے سپاہی کی سی ہے جسے شیطانی خواہشوں او رباطل طاقتوں سے نبر آزما
ہونا ہے۔ اگر اس کے اندر صبر کی صفت نہ ہو تو حملہ کی ابتداء ہی میں اپنے
آپ کو دشمن کے حوالے کر دے گا۔
یہ شہر رمضان جس میں ہم اور آپ سانس لے رہے ہیں اس کا ایک ایک لمحہ انتہائی
خیر و برکت کا ہے، یہ مہینہ روزوں کا مہینہ ہے، یہ مہینہ نمازوں کا مہینہ
ہے، اس مہینے میں جنت کے دروازے کھال دئیے جاتے ہیں۔ اس مہینہ میں جہاں تک
ہو سکے زیادہ سے زیادہ نماز، ذکر ، تلاوت ، قرآن کا اہتمام کیجئے ۔ لڑائی
جھگڑے اور گناہوں کے کاموں سے دور ہیئے اور غریبوں اور مسکینوں کی حتی
الامکان مدد کیجئے۔
روزہ انتہائی اہم عبادت ہے، بندہ صرف اپنے مالک کی رضا اور خوشنودی کے لئے
اس کے حکم کی تعمیل کرتا ہے، اپنا کھانا پینا اور بہت سے جائز امور سے
اجتناب کرتا ہے۔ بندے کے یہ اسعمال دلوں کو برائیوں سے پاک کرنے کے لئے
انتہائی مفید ہیں، ان سے تقویٰ پیدا ہوتا ہے، بندے کے دل میں اللہ کی
ناخوشی اور اس کی نافرمانی سے ڈرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور پھر وہ جو کچھ
بھی کرتا یا کہتا ہے اس سے پہلے یہ سوچ لیتا ہے کہ میرے اس فعل سے کہیں
میرا مالک نا خوش تو نہ ہوگا۔ یہی وہ قوت ہے جوانسان کی تمام صلاحیتوں کو
شر کے راستوں میں صرف ہونے سے بچا کر خیر کے راستوں میں صرف کراتی ہے۔
الصیامۃ جنۃ، و اذا کان یوم صوم احدکم فلا یرفث ول یصخب، فان سابہ احد او
قاتلہ فلیقل انی امرو صائم (بخاری ، مسلم)
نبی ﷺ نے فرمایا کہ روزہ ڈھال ہے اور جب تم میں سے کسی کے روزہ کا دن ہو تو
اپنی زبان سے فحش بات نہ نکالے اور نہ ہی شور و ہنگامہ کرے، اور اگر کوئی
اس سے گالی گلوج کرے یا لڑائی کرنے پر آادہ ہو تو اس روزہ دار کو سوچنا
چاہیئے کہ میں تو روزے سے ہوں (بھلا میں کس طرح گالی دے سکتا ہوں)
ان مبارک دنوں کے دوبارہ میسر آنے پر ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیئے۔
نعمتیں اسی وقت خیر کا موجب بنتی ہیں جب ان کا صحیح شکر ادا کیا جائے ۔
رمضان مومن کے لئے ایک بہت بڑی نعمت ہے، ہم پر اس کا شکر واجب ہے، اور شکر
کی بہترین شکل یہی ہے کہ ہم اللہ کی اس نعمت کا بھر پور استعمال کریں اور
اس کو اس طریقہ سے استعمال کریں کہ ہمیں اپنے رب ذوالجلال کی زیادہ سے
زیادہ خوشنودی حاصل ہو سکے۔ ہر وہ مومن جسے اللہ تعالیٰ نے زندگی میں پھر
ایک بار رمضان کی نعمت سے فائدہ اٹھانے کی مہلت عطا فرمائی ہے، بڑا ہی خوش
نصیب ہے کہ اسے اپنی نیکیوں کے ذخیرہ میں اضافہ کرنے کا موقع ہاتھ لگ گیا
ہے۔ اس زریں موقع سے وہی لوگ فائدہ حاصل کرسکتے ہیں، جو ای ک طرف تو اپنے
دل میں اس نعمت کی قدر کو ملحوظ رکھیں اور دوسری طرف اس سے فائدہ اٹھانے کے
لئے وہ جو کچھ بھی کر سکتے ہوں اس سے دریغ نہ کریں۔
شہر رمضان کی فضیلت کوئی کہاں تک بیان کرے، روزے اور روزے دار کی فضیلت
میںمتعدد احادیث نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جنت کا ایک دروازہ ہے ، جس کا نام
ریّان(سیرابی) ہے، قیامت کے روز آواز دی جائیگی کہ کہاں ہیں روزے دار؟ جب
سارے روزے دار اس دعروزے سے داخل ہو جائیں گے تو اس دروازے کو بند کر دیا
جائیگا اور اس سے کوئی داخل نہ ہو سکے گا۔ ‘‘(بخاری و مسلم)
حضرت ابو سعید ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ : جو بھی بندہ
اللہ کی راہ مین اللہ کے لئے روزے رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ ان روزوں کے بدولت
اس کے چہرے کو آگ سے 70حریف (210 میل ) دور کر دیں گے۔ (بخاری، مسلم،
ترمذی، نسائی، احمد، ابن ماجہ)
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے ایمان کے ساتھ اجر آخرت کی نیت سے رمضان
کے روزے رکھے تو اللہ اس کے ان گناہوں کو معاف کر دیگا، جو اس سے پہلے ہو
چکے ہیں ، اور جس شخص نے ایمان کے ساتھ اجر آخرت کی نیت سے رمضان میں
تراویح پڑھی تو اللہ اس کے گناہوں کو معاف کر دیگا۔
غرض کہ روزہ رکھنے کی بہت سی فضیلتیں ہیں اور روزہ رکھنا انتہائی باعث اجر
و ثواب ہے۔ جس چیز کے کرنے سے انتہائی فائدہ ملتا ہے، اس کے نہ کرنے اور
ترک کر دینے سے اس سے کہیں زیادہ نقصان بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ رمضان کے روزوں
کا بھی یہی معاملہ ہے۔
روزہ خوروں کا انجام
عن ابی امامۃ الباھلیؓ قال سمعت رسول اللہ ﷺ یقول بینا انا نائم اتانی
رجلان فاخذا بضبعی فاتیا بی جبلا وعرا، فقالا اصعد فقلت انی لا اطیقہ،
فقالا انا سنسھلہ لک، فصعدت حتیٰ اذا کنت فی سواء الجبل اذا باصوات شدیدۃ،
قلت ما ھذہ الاصوات؟ قالو ھذا عواء اھل النار، ثم انطلق بی فاذا انا بقوم
معلقین بعراقیبھم مشققۃ اشداقھم، قال قلت من ھٰؤلاء ؟ قال الذین یفطرون قبل
تحلۃ صومھم (المنذری بہ حوالہ صحیح ابن خزیمہ وابن حبان)
ترجمہ: حضرت ابو امامہ باہلیؓ کہتے ہیں میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا
کہ میں سور ہاتھا کہ دو شخص میرے پاس آئے، اور وہ میرا شانہ پکڑ کر ایک
دشوار گزار پہاڑ کے پاس لے گئے اور اس پر چڑھنے کو کہا، میں نے کہا اس پر
چڑھنا میرے بس کی بات نہیں۔ انہوں نے کہا چڑھو، ہم سہارا دیتے ہیں، چنانچہ
میں چڑھ گیا۔ جب پہاڑ کے بیچ میں پہنچا تو تو شدید قسم کی چینخیں سنیں،
میںنے دریافت کیا کہ یہ کیسی چینخیں سنائی دے رہی ہیں؟ انہوں نے بتایا یہ
جہنم والوں کی چینخیں ہیں۔ پھر مجھے اور آگے لے جایا گیا تو دیکھا کچھ لوگ
الٹے ٹانگ دیے گئے ہیں، ان کے جبڑے پھاڑ دیے گئے ہیں اور ان سے خون بہہ رہا
ہے، میں پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ بتایا گیا یہ وہ لوگ ہیں جو رمضان کے دنوں
میں کھاتے پیتے تھے اور روزے نہیں رکھتے تھے۔
عبادت میں اعتدال
روزہ رکھنے کے ثواب بہت ہیں اور نہ رکھنے کے عذاب بہت۔ لیکن کسی عبادت کو
باعث اجر ثواب سمجھتے ہوئے اس میں حد سے بڑھ جانا اور اعتدال کی سرحدوں کو
پار کر جانا۔ اس بات کی اسلام قطعی اجزت نہیں دیتا۔ اسلام میں تو آسانیاں
ہی آسانیاں ہیں۔ حدیث شریف میں موجود ہے:
عن مجیبۃ الباہلیۃ عن ابیھا او عمّھا انّہ اتیٰ رسول اللہ ﷺ ثم انطلق فاتاہ
بعد سنۃ وقد تغیرت حالتہ، فقال یا رسول اللہ اما تعرفنی؟ قال من انت؟ قال
ان الباہلی الذی جئتک عام الاول، قال فما غیرک وقد کنت حسن الھیئۃ؟ قال ما
أکلت طعاما منذ فارقتک الّا بلیل، فقال رسول اللہ ﷺ عذبت نفسک ثم قال صم
شہر الصبر و یوماً من کل یوم شہر، قال زدنی فانّ لی قوۃ، قال صم یومین، قال
زدنی، قال صم ثلاثۃ ایّام، قال زدنی، قال صم من الحرم اترک، صم من الحرم
واترک، صم من الحرم واترک وقال باصابعہ الثلاث فضمھا ثم ارسلھا۔ (ابو داؤد)
ترجمہ: حجرت مجیبہ نے (جو قبیلہ باہلہ کی ایک خاتون ہیں) اپنے باپ یا چچا
کے بارے میں بتایا کہ وہ دین سیکھنے کے لئے حضور پاک ﷺ کے پاس گئے، اور گھر
واپس آئے، ایک سال بعد پھر حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے (تو حضورؐ انہیں
پہچان نہ سکے) تب انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ آپ نے مجھے نہیں
پہچانا؟ آپ ؐ نے کہا نہیں تم اپنا تعارف کراؤ ، تم کون ہو؟ انہوں نے کہا
میں قبیلہ باہلہ کا آدمی ہوں، گزشتہ سال جب تم آئے تھے تو بہت اچھی شکل و
صورت میں تھے، انہوں نے بتایا جب سے میں آپ کے پاس سے گیااس وقت سے اب تک
مسلسل روزے رکھ رہا ہوں، آپؐ نے فرمایا تم نے اپنے کو عذاب میں ڈالا(مسلسل
روزے رکھ کر جسم کو گھلا ڈالا ،اپنی صحت خراب کر ڈالی)۔ آپؐ نے ان کو ہدایت
دی کہ رمضان کے روزوںکے علاوہ ہر ماہ ایک روزہ رکھو، انہوں نے کہا حضور اس
میں اضافہ فرما دیں۔ میں اپنے اندر اس سے زیادہ روزے رکھنے کی طاقت پاتا
ہوں، آپؐ نے فرمایا اچھا ہر ماہ دو روزے! انہوں نے کہا کچھ اور اضافہ فرما
دیجئے! آپ نے فرمایا : اچھا ہرماہ تین دن رکھ لیاکرو! انہوں نے کہا حضور
کچھ اور اضافہ فرما دیجئے۔ آپؐ نے فرمایا اچھاہر سال محترم مہینوں میں روزہ
رکھو اور چھوڑ دو، ایسا ہی ہر سال کرو۔ یہ فرماتے ہوئے آپؐ نے اپن تین
انگلیوں کو ملایا پھر چھوڑ دیا۔
محترم مہینے سال میں چار ہوتے ہیں۔ ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب۔
مذکورہ حدیث میں انہیں تین مہینوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان مہینوں میں
کچھ دن روزے رکو اورچھوڑ دو۔ (یعنی روزے نہ رکھو) ایک اور حدیث میں حضرت
عبداللہ ابن عمروبن العاص کہتے ہیں کہ مجھ سے نبیﷺ نے فرمایا: مجھے بتایا
گیا ہے تم مسلسل پابندی سے روزہ رکھتے ہو اور رات بھر نوافل میں مشغول رہتے
ہو، کیا یہ صحیح ہے؟ میں کہا ہاں یا رسول اللہ ! یہ خبر صحیح ہے؟ آپ ؐ نے
فرمایا ایسا نہ کیا کرو۔ کبھی روزہ رکھو کبھی ناغہ کرو۔ اسی طرح رات کو سوؤ
بھی اور نفلیں بھی پڑھو، کیوں کہ تمہارے جسم کا تم پر حق ہے اور تمہارے
ملنے جلنے اور مہمانوں کا تم پر حق ہے، اس لئے تم ہر مہینے تین دن روزے
رکھو اتنا ہی تمہارے لئے کافی ہے۔
فضیلت اعتکاف
ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں
اعتکاف فرمایا اور پھر دوسرے عشرے میں بھی ۔ پھر ترکی خیمہ جس میں اعتکاف
فرما رہے تھے ، باہر سر نکال کر اقرشاد فرمایا کہ میں نے پہلے عشرے کا
اعتکاف شب قدر کی تلاش اور اہتمام کی وجہ سے کیا تھا، پھر اسی کی وجہ سے
دوسرے عشرے میں کیا، پھر مجھے کسی بتانے والے (یعنی فرشتے) نے بتلایا کہ وہ
رات آخری عشرے میں ہے۔ لہٰذا جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف کر رہے ہیں وہ اخیر
عشرے کا بھی اعتکاف کریں۔ مجھے یہ رات (شب قدر) دکھلا دی گئی تھی ، پھر
بھلا دی گئی (اس کی علامت یہ ہے کہ میں نے اپنے آپ کو اس رات کے بعد کی صبح
میں کیچڑ میں سجدہ کرتے دیکھا)۔ لہٰذا اب اس کواخیر عشرے کی طاق راتوں میں
تلاش کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ اس رات میں بارش ہوئی اور مسجد چھپر کی تھی۔ وہ
ٹپکی اور میں نے اپنی آنکھوں سے نبی اکرمﷺ کی پیشانی مبارک پر کیچڑ کا اثر
اکیسویں کی صبح میں دیکھا۔
نبی اکرم ﷺ کی عادت میں شامل تھا کہ آپؐ ہر سال ماہ رمضان میں اعتکاف کیا
کرتے تھے۔ آپؐ کا جس سال وصال ہوا تھا اس سال آپ ؐ نے بیس دنوں کا عتکاف
فرمایا تھا۔ لیکن اکثر عادت شریفہ آخری عشرے میں اعتکاف کرنے کی تھی۔ اس
لئے علماء کے نزدیک آکری عشرے میں اعتکاف کرنا سنت مؤکدہ ہے۔ حدیث شریف سے
واضح ہو رہا ہے کہ اعتکاف کرنے کی ایک بڑی غرض شب قدر کی تلاش ہے۔ اور
حقیقت میں اعتکاف کرنے والے ہر شخص کو شب قدر مل ہی جاتی ہے۔ کیونکہ اعتکاف
کی حالت میں کوئی خص سوتا بھی ہے تو عبادت میں شمار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ
سے دعا ہے کہ ہمیں رمضان کی نعمتیں اور اس کے خیر وبرکات سے مالا مال فرما
اور زیادہ زیادہ سے عبادت کرنے کی توفیق عطا فرما (آمین) |
|