طاہرالقادری کا ڈرامہ اور آمریت کا انتظار

پاکستان میں ماحول تبدیل ہورہا ہے ، کل تک جمہوریت کے استحکام کی بات کی جارہی تھی اور آج پاک فوج زندہ باد کے نعروں کی بازگشت واضح ہے ۔جمہوریت سے متاثر مسلم لیگ ق ،عوامی تحریک کی گاڑی میں سوار ہوچکے ہیں ، ان کو توقع ہے کہ حالات بدلے تو 2001 کے پرویز مشرف کے دور کی طرف بھی جاسکتے ہیں ، خوش فہمی تو پرویز مشرف اور ان کے حامیوں کو بھی ہے کہ ’’ الٹی گنتی ‘‘ بھی شروع ہوسکتی ہے ۔ مسلم لیگ قائد اعظم اور قائد کی پارٹی متحدہ موجودہ صورتحال سے بہت مطمئین نظر آتی ہے ، اطمینان تو حکومت مخالف جماعتوں کو بھی ہے اور وہ دبے الفاظ یہ کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ ’’ حکومت کے دن ختم ہورہے ہیں ‘‘ ۔

23 جون کو عوامی تحریک کے قائد علامہ طاہرالقادری پاکستان واپس پہنچے لیکن اپنے دعوؤں ،باتوں اور اعلانات کے برعکس خاموشی سے اسلام آباد کے بجائے لاہور اپنی رہائش گاہ پہنچ گئے ۔ جس کے نتیجے میں ان کے استقبال کے لیے اسلام آباد پہنچ جانے والے ان کے ہزاروں کارکنوں کو مایوسی ہونا فطری بات ہے جبکہ دوسری طرف طاہرالقادری کے ’’ انقلاب ‘‘ کی امید لگائے بیٹھے ہزاروں افراد بھی ’’ ٹھنڈے ‘‘ ہوگئے ۔

شدید مایوس تو وہ لوگ ہوئے ہیں جو طاہرالقادری کی آمد پر ملک میں ’’ تبدیلی کے خواب ‘‘ دیکھ رہے تھے اور یقینا وہ بھی بور ہوئے ہونگے جنہوں نے طاہرالقادری کی کسی نہ کسی طرح پشت پناہی کی تھی ۔
یہ دوسرا موقع ہے کہ عوامی تحریک اور طاہرالقادری اپنے شو اور طاقت کے اظہار کے ’’ مقاصد ‘‘ پورے نہیں کرسکے ۔مقاصد کیا تھے یہ بھی واضح نہیں کرسکے باالکل اسی طرح جیسے گزشتہ سال مارچ میں لانگ مارچ کے نام سے کیے جانے والے احتجاج میں ہوا تھا ۔

وہ احتجاج ملک میں جمہوریت کے تسلسل کو روکنے کے لیے کیا گیا تھا ۔( یعنی طاہرالقادری اینڈ کمپنی کی کوشش تھی کہ کسی طرح انتخابات التواء میں پڑ جائیں ) سب کو یاد ہوگا کہ اس احتجاج کا مقصد صرف اور صرف انتخابات کو روکنا تھا ، مولانا اور ڈاکٹر طاہر کسی بھی وجہ سے یہ چاہ رہے تھے کہ انتخابات موجودہ نظام کے تحت نا ہوا ، اس بات کا کھلا اظہار وہ اپنی تقاریر میں بھی کرسکے تھے ۔
مولانا جمہوریت کے دشمن کیوں ہیں ، دشمن نہیں تو اس کے مزاحمت کار کیوں ہیں ؟؟ اس کا جواب وہ ہی دے سکتے ہیں ۔

اب چونکہ جمہوری حکومت وہ بھی میاں نواز شریف کی جمہوری حکومت کے حوالے سے عسکری حلقے ناراض محسوس ہونے لگے تھے ، طاہرالقادری نے موقع غنیمت جان کر دوسرا حملہ کرنے کی کوشش کی ، لیکن میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی بے تحاشہ غلطیوں کے باوجود عوامی تحریک کے سپہ سالارڈاکٹر طاہرالقادری اپنے ارادوں اور اعلانات کے مطابق اسلام آباد پر چھڑہائی نہیں کرسکے اور انہیں لاہور ان کے گھر پہنچادیا گیا۔سب نے دیکھا کہ وہ چیختے چلاتے ، اسپتال کے چکر لگاتے اپنے گھر پہنچ گئے ۔

ایسا لگتا ہے کہ طاہرالقادری اپنے احتجاجی پروگرام کے ساتھ ’’ آپشن نمبر دو ‘‘ بھی پہلے ہی تیار کرلیتے ہیں جس کے باعث اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے لیے دن نہیں بلکہ گھنٹوں میں فیصلہ کرتے ہیں ۔ ایسا ہی کچھ اس بار لاہورمیں امارات ائیرلائن کی پرواز میں انہوں نے کرکے دکھادیا ۔

بہرحال آنے والے دنوں میں ڈاکٹر طاہر اور کیا کچھ کرسکیں گے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔ تاہم یہ سوال ضرور ابھرتا ہے کہ ’’ کیا یہ سب کچھ عوامی تحریک اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی خواہش اور منصوبے کے تحت ہوا ہے یا اس کے پیچھے ملکی یا غیر ملکی قوتیں شامل ہوتی ہیں ؟ ‘‘ اگر پہلی والی بات درست ہے تو پھر خیر ہے لیکن اگر دوسری بات ہے تو پھر ان کے لیے انتہائی شرم کی اور ہمارے لیے خوش قسمتی کا باعث ہے ‘‘

وطن عزیز میں جمہوریت کو سنبھالا دینے والے جمہوریت کے چمپیئن چونکہ خود جمہوریت ، جمہور اور ملک سے زیرو فیصد بھی مخلص نظر نہیں آتے اس وجہ سے آمریت کو سہارا دینے والے سیاسی فنکار ہوا کا رخ دیکھ کر کروٹ بدلنے بلکہ اپنا قبلہ تبدیل کرنے میں دیر نہیں لگاتے ۔ جیسے کہ قوم اب بھی نوٹ کررہی ہے بلکہ بغور دیکھ رہی ہے ۔

جب جمہوری ملک میں جمہوریت کا دعویٰ کرنے ولاے ہی عوام اور ملک سے مخلص نہیں ہونگے تو پھر کون مخلص ہوگا ؟ ایسے میں قوم فوج کی طرف دیکھتی ہے تو کچھ غلط بھی نہیں ہے ۔کسی بھی ملک کی عوام صرف روزگار ، رہائش ، امن و امان یا جان و مال کا تحفظ اور تفریحی سہولیات کی طالب ہوتی ہے ۔ لیکن اگر یہ سب فراہم کرنے کے نام پر اقتدار میں آکر لوٹ مار کریں اور عوام کو اپنی سوچوں اور عملی کارروائیوں سے دور کردیں تو لوگ فکرمند ہوتے ہیں ان میں سیاست دانوں کے خلاف نفرت پیدا ہونا فطری ہوجاتا ہے جیسے ہمارے ملک میں ہورہا ہے ۔

اس کے ساتھ اقتدار سے چمٹے رہنے کے خواہشمند اپنی ترجیحات تبدیل کرتے رہیں تو ملک میں مایوسی پھیلنے لگتی ہے ، حد تو جب ہوتی ہے جب ’’ مایوسی کفر ہے ‘‘ کا درس دینے والے مایوس ہوکر فوج کی طرف دیکھنے لگتے ہیں ۔

پاکستان میں فوج پر الزام لگایاجاتاہے کہ وہ جمہوریت کو چلنے نہیں دیتی اور سیاست دانوں سے زیادہ کرپٹ ہے لیکن اگر ہم جمہوری ادوار اور سیاست دانوں کے صرف سوئس بنکوں میں موجود اثاثوں کا جائزہ لیں تو صورتحال برعکس نظر آتی ہے ۔ جبکہ آمریت کے ادوار کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ملک ، ملک کے آبادیاں ترقی کرتی رہیں ، سہولیات کے جال بچھائے جاتے رہے اور لوگوں کی خوشحالی تاریخی اور مثالی رہی ۔مجھے تو صدرایوب خان کا وہ دوع دیکھنے کی امنگ ہے جب ، کراچی کی ترقی کا آغاز ہوا ، انڈیا سے آنے والے مہاجروں کو لانڈھی ، کورنگی ، ملیر ،نئی کراچی ، نمائش اور دیگر علاقوں میں ٹوکن منی پررہائشی مکانات فراہم کیے گئے ۔کیا دوبارہ وہ دور نہیں آسکتا؟؟؟
Muhammad Anwer
About the Author: Muhammad Anwer Read More Articles by Muhammad Anwer: 179 Articles with 165936 views I'm Journalist. .. View More