ایک میدان میں مداری نے
اپنے بندر،بکری اور سانپوں کی ٹوکری رکھ کر ڈگڈگی بجانا شروع کی ،ڈگڈی پر
بندر ناچتا رہا مداری بولتا رہا لوگ جمع ہوتے گئے وہ مسلسل اپنی رٹی رٹائی
کہانی سناتا رہا،جیسے جیسے لوگ جمع ہوتے جاتے وہ نئی نئی باتیں کرتا جاتا
اور لوگوں کو سسپنس میں رکھتا،یہاں تک کہ وہ بار بار دائرہ بڑا کرنے کا حکم
دیتا لوگ ،پیچھے ہٹ کر اس کی باتیں سنتے ۔مداری سسپنس برقرار رکھتا، بندر
کو چھڑتا اور کبھی بکری کو ،کبھی ٹوکری کی طرف اشارہ کر کے کہتا کہ بس اب
کچھ ہی دیر بعد میں ایک ایسا سانپ نکالوں گا جو دنیا میں نایاب ہے جس کی
نسل اب صرف افریکہ کہ جنگلوں میں پائی جاتی ہے اس سانپ کا ڈسا ایک لمحہ بھی
زندہ نہیں رہتا اس سانپ کے کیا کیا کمالات ہیں بس میں ابھی آپ کو دیکھاتا
ہوں۔لوگ تجسس میں ہوتے اور مداری اپنی فنکاری پر خوش ہوتا،یہ سلسلہ مسلسل
کئی گھنٹو تک جاری رہا جب لوگ دیکھتے کے یہ تو کچھ نہیں دیکھا رہا وہ دائرے
سے ایک ایک کر کے نکلتے ، مداری جب لوگوں کوکھسکتے دیکھتا تو پھر زور سے
ڈگڈگی بجاتااور ایک نیا شو شہ چھوڑ دیتا جس سے ایک بار پھر لوگوں میں سسپنس
پیدا ہوتااور وہ روک جاتے۔مداری کا یہ کھیل جاری رہا لوگ آتے رہے جاتے
رہے۔وہ کوئی کھیل نہ دیکھاتا ، لوگ بور ہو گئے ہجوم کم ہونے لگا تو مداری
نے آواز دی کہ آپ میں سے حوصلے والا آدمی سامنے آجائے میں اس کو آپ کے
سامنے گونگا ،بہراکر کے پھر ٹھیک کر دنگا،،اس کی زبان بند کر دوں گا۔ ہے
کوئی جو سامنے آئے لوگو سارے خاموش کھڑے تھے کہ اچانک ایک آدمی سامنے آیا
اس نے کہا کے نہیں تم ایسا نہیں کر سکتے تمہارے اندر اتنی کرامات نہیں کہ
تم کسی کی زبان بند کر سکو،جب یہ بات لوگوں نے سنی تو ایک نئی کہانی شروع
ہو گی اور لوگ رک گئے اور دیکھنے لگے مداری اور نئے آدمی کے درمیان ایک
لڑائی والا ماحول بن گیا مداری کہے میں تمہیں اندھا کر دنگا اور آدمی بولے
کہ تم ایسا نہیں کر سکتے،اسی کشمکش میں مداری نے کہا کہ اہمت ہے تو سامنے
میدان میں آ ۔پھر میں تمہیں دیکھاتا ہوں کہ کون کتنے پانی میں ہے ۔،لوگوں
میں پھر سے دلچسپی پیدا ہوئی مداری اور آدمی کی لڑائی شروع ہوگی،مداری نے
آدمی کے ہاتھ میں کچھ دیا اور کہا کہ تم اپنی مٹھی بند کرو،جیسا جیسا مداری
کہتا گیا آدمی ویسا ویسا کرتا گیا ،جب مداری نے اپنے سارے جنتر منتر پڑھ
لئے اور کہا کہ تم مٹھی کھول کے دیکھاو، آدمی نے بھی کچھ پڑھا اور مٹھی
کھول دی مداری یہ دیکھ کر حیران ہوااور کہا کہ نہیں تمہا رے پاس ضرور کوئی
ایسی چیز ہے جس سے تم نے یہ کیا میں اب آگ لگا دونگا تمہارے کپڑے جلا
دونگا،تمہیں نگا کر دونگا،آدمی نے کہا کہ تم ایسا نہیں کر سکتے اگر اہمت ہے
تو کر کے دیکھا ،مداری نے ایک رومال آدمی کو دیا اور کہا کہ میں اس کو ابھی
تمہا رے سامنے آگ لگاتا ہوں اس نے پھر منتر جنتر پڑھا اپنی چھڑی گمائی،اپنے
پیر و مرشید کا نام لیا اسے چوما،چھڑی رومال کے اوپر پھیری عوام کو متوجہ
کر کہ کہنے لگا دیکھنا اب اس کا کیا حال ہوگا یہ جل جائے گا،مداری اور آدمی
کے اس کھیل میں لوگ سانپ،بندر،بکری کی کہانی بھول گئے سب متوجہ ہوئے اور
غور سے دیکھنے لگے کہ پتہ نہیں اب کیا ہوگا، سب جنتر منتر پڑھنے کے بعد جب
ایک بار پھر مداری کچھ نہ کر سکا تو آدمی غصے میں آگیا اور کہنے لگا کہ تم
لوگوں کو بے وقوف بناتے ہو ،تم انکو لوٹنا چاہتے ہو ،تم جھوٹ بولتے ہو،اب
تم دیکھنا میں تمہا را کیا حشر کرتا ہوں میں اب تمہیں سب کے سامنے ذلیل
کرونگا یہ سن کر مداری اس آدمی کے آگے ہاتھ جوڑنے لگا، معافیاں مانگنے لگا
اس کے پاوں پڑھ گیا اسے کہتا ہے کہ مجھے معاف کر دے میں اب دوبارہ کبھی اس
طرف نہیں آوں گا،جب وہ یہ وعدہ کرتا ہے تو آدمی اسے کہتا ہے کہ تم جلدی سے
یہاں سے بھاگ جاو، ورنہ میں تمہیں برباد کر دونگا۔مداری اپنا ٹوکرا آٹھاتا
ہے اور بھاگ جاتا ہے وہ آدمی ایک دم سے تمام لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا
ہے کہ میں کوئی عالم فاضل ،پیر ،یا کوئی جادو گر نہیں میں آپ کی طرح ایک
عام آدمی ہوں مگر میرے پاس ایک ایسی چیز ہے جو پاس ہو تو دنیا کا کوئی
علم،عمل،کوئی جادو ٹونا،کوئی الٹی کلام اثر نہیں کرتی لوگ ایک بار پھر روک
جاتے ہیں اور سننا شروع ہو جاتے ہیں،آدمی ایک نئی کہانی ڈالتا ہے اور کہتا
ہے کہ میں جو تحفہ آپ کو دینے والا ہوں وہ ایسا کرشماتی ہے کہ بے روزگار کو
روزگار،ملے گا ،بے اولاد کو اولاد،میاں بیوی کے جھگڑے ختم ہو جائیں گے گھر
میں سے بے برکتی ختم ہو جائے گی ،آپ کا محبوب آپ کے قدموں میں ہوگا،آپ کا
دشمن آپ کو کبھی زیر نہیں کر سکتا،آپ اس کو آزمائیں،وہ آدمی جیب سے چند رنگ
برنگے نگ نکالتا ہے اور کہتا ہے ،سب اس کا کمال ہے یہ اصلی پتھر ہے اس کی
کوئی قیمت نہیں یہ انمول ہے میں آپ سے جو لوں گا وہ بس ہدیہ ہوگا جس کی میں
اپنے سرکار کے دربار میں دیگ دونگا۔لوگوں کامجمع ، جو جمع تھا سب کسی نہ
کسی حالات کے ستائے ہوئے تھے کوئی روزگار کی تلاش میں تھا،کوئی محبوبہ
کی،کسی کو بیوی کا عذاب تھاتو کسی کوجادو ٹونے کا شک،کوئی دشمن کو زیر کرنا
چاہتا تھا تو کوئی خود کا کامیاب کرنا،سب کسی نہ کسی مشکل کا شکار تھے سب
نے سوچا کہ یہ تو ایک نئی بات ہے اور اس کے کرامات ہما رے سامنے ہیں اس کو
لے لیتے ہیں آدمی نے پانچ گھنٹے کی محنت کا پھل پانچ منٹ میں وہ پلاسٹک کے
بننے نگ پچاس پچاس روپے کے بیچ کر غائب ہوگیا،لوگ بھی خوش خوش ادھر ادھر ہو
گئے۔پھر وہی ہوا جو ہونا تھا،نہ نوکری،نہ کامیابی،نہ گھر،نہ دولت،نہ
برکت،نہ محبت،یہ تو لوگوں کی سادگی تھی کہ مداری کے گرد امیدیں لگائے جمع
تھے۔
یہی کہانی اس ملک میں ہما رے سیاست دانوں کی ہے۔سیاست دان جب دیکھتے ہیں کہ
عوام ہم سے اب متنفر ہو چکی ہے اب ہم عوام کو زیادہ دیر تک جمع نہیں رکھ
سکتے ،کوئی نیا کھیل باقی نہیں رہا تو عوام کی ہمدردیاں لینے اور بے وقوف
بنانے کے لئے کوئی،نیا کھیل،نیا ایشو،نئی ترقی،نوکری،کا دعویٰ کر کے عوام
کو امید پر لگا دیتے ہیں،اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کر کے ہمدری حاصل کرتے ہیں
۔انہوں نے اپنے نگ بیچنے ہوتے ہیں عوام کی مشکلات اور مسائل سے ان کو کوئی
غرض نہیں ہوتی،عوام کو چاہئے کہ وہ اپنے جیسے بندے منتخب کرے اپنی سوچ اپنے
دکھ سمجھنے والے کو اپنا راہنما بنائے۔ورنہ یہ سیاست دان تو پلاسٹک کے نگ
بیچ کر غائب ہونے والے ہیں،بس سمجھنے کی بات ہے۔۔۔۔
|