مقبوضہ کشمیر کی ایک عدالت نے
8برس قبل فوجی اہلکاروں کے ہاتھوں بانڈی پورہ کے نوجوان کے قتل اور اسے
جلانے کے حوالے سے دائردرخواست کو تسلیم کرتے ہوئے ریاستی و مرکزی سرکار کے
نام نوٹس جاری کیا ہے اور 4ہفتوں میں تحریری جواب داخل کرنے کی ہدایات جاری
کیں ہیں۔ سری نگر میں جسٹس بنسی لال بھٹ کی عدالت میں ہائی کورٹ کے معروف
وکیل ایڈوکیٹ میر شفقت حسین نے پاپہ چھن بانڈی پورہ کی سلیمہ بیگم کی طرف
سے دائردرخواست پر سماعت ہوئی۔درخواست میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ
2006میں ان کے 21سالہ فرزند عابد حسین شاہ اور ان کے سیلز مین منظور احمد
کو ان کی دکان میں فوج کی14آر آر کیمپ سے وابستہ اہلکاروں نے گولیاں مار کر
جان بحق کردیا اور اسکے بعد اس جرم پر پردہ ڈالنے کیلئے ساری عمارت کو آگ
کی نذر کردیا تھا۔ عابد حسین کا کسی بھی عسکری یا سیاسی تنظیم کے ساتھ کوئی
تعلق نہیں تھا جبکہ وہ اپنی گریجویشن کے بعد اپنی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہا
تھا۔ اس واقعہ کے بعد متاثرہ کنبے نے بانڈی پورہ پولیس اسٹیشن میں ایف آئی
آر درج کرانی چاہی لیکن پولیس نے ان کی ایک نہ سنی اور اس معاملے میں کوئی
ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔درخواست میں ایڈوکیٹ شفقت نے کہاہے کہ فوج نے
بیشتر کیسوں میں افسپا قانون کا غلط استعمال کرکے صرف اپنے ہی بیانات
قلمبند کروائے ہیں اور عابد حسین کے معاملے میں بھی ایسا ہی کیا گیا اور
متاثرہ کنبے کی کوئی بات نہیں سنی گئی۔ عابد کے والدین نے اعلیٰ پولیس حکام
کے ساتھ بھی رابطہ کیا لیکن آج تک اس حوالے سے کوئی بھی پیش رفت نہیں
ہوئی۔چنانچہ متاثرہ خاندان نے ریاستی حقوق کمیشن کے پاس ایک درخواست دائر
کی جس میں 14آر آر اورپولیس اسٹیشن بانڈی پورہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
کیا گیا تھا۔ عدالت نے وکلاء کے دلائل سماعت کرنے کے بعد ریاستی و مرکزی
حکومت کو ہدایت دی کہ وہ ہیومن رائٹس کمیشن کے فیصلہ کو بطور شواہد تسلیم
کرے اوردرخواستمیں ابھارے گئے ایشوز کی رو سے 4ہفتوں کے اندر اندر اپنا
جواب پیش کرے۔ مقبوضہ کشمیر کے مقامی حقو ق انسانی فورم وائس آف وکٹمزنے
انکشاف کیا ہے کہ جموں کشمیر میں اب بھی مختلف نوعیت کے اذیت خانے اور
ٹارچر سیل موجود ہیں جہاں بلالحاظ عمر کشمیریوں کو سخت تشدد کا نشانہ بنایا
جاتا ہے جس کے نتیجہ میں بیسیوں افراد جسمانی طور پر معذور ہو چکے ہیں۔
25برس قبل ریاست کے اطراف و اکناف میں فوج ، فورسز ، ٹاسک فورس اور دیگر
سیکورٹی ایجنسیوں نے گرفتار افراد کو اذیتوں کا نشانہ بنانے کیلئے جو
انٹیروگیشن سینٹر قائم کئے تھے ، ان میں سے اب بھی لاتعداد اذیت خانے موجود
ہیں ۔ کشمیریوں کو صرف جسمانی اذیتوں کا نشانہ نہیں بنایا جاتا ہے بلکہ
یہاں کا ہر شخص روزانہ ذہنی ٹارچر کا سامنا بھی کرتا رہتا ہے ۔ کشمیر میں
بلا لحاظ عمر و جنس لوگوں کو اذیتوں کا شکار بنایا جاتا ہے اور اس کی روک
تھام کیلئے آج تک کوئی کارگر اقدامات نہیں اٹھائے گئے ۔ گزشتہ 25برسوں کے
دوران ہزاروں کی تعداد میں مردو زن ، بچوں اور بزرگوں کو جسمانی اذیتوں کے
ساتھ ساتھ ذہنی ٹارچر کا نشانہ بھی بنایا گیا ، جس کے نتیجے میں بیسیوں
افراد جسمانی اور ذہنی طور ناتواں بن گئے ۔ سنگباری کے الزام میں جن بچوں
اور نوجوانوں کو گرفتار کیا جاتا ہے ، انہیں بھی سخت جسمانی ٹارچر کا نشانہ
بنانے کے ساتھ ساتھ ان کے اہل خانہ کو ذہنی تشدد کا شکار بنایا جاتا ہے ۔
عالمی حقوق انسانی کے ادارے حقوق انسانی کی دیگر پامالیوں اور خلاف ورزیوں
کے ساتھ ساتھ شہریوں کو ذہنی اور جسمانی ٹارچر کا نشانہ بنائے جانے کے
واقعات کا بھی سنجیدہ نوٹس لیں اور اس سلسلے میں اپناکردار ادا کریں ۔ حریت
کانفرنس(گ)مقبوضہ کشمیر کے چیئرمین سید علی گیلانی تاحال اپنے گھر میں
نظربند ہیں اور وہ2014 میں تسلسل کے ساتھ 11ویں مرتبہ نماز جمعہ پڑھنے سے
بھی محروم رہے ہیں جبکہ نظربندی کے سبب تحریک حریت جنرل سیکریٹری محمد اشرف
صحرائی، ایاز اکبر اور الطاف احمد شاہ بھی یہ دینی فریضہ ادا نہیں
کرسکے۔جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی جانب سے’’کشمیر چھوڑ دو‘‘ تحریک کے سلسلے
میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے مدینہ چوک سے ایک بڑی احتجاجی ریلی نکالی
اور دھرنا دیا گیا جس میں بڑی تعداد میں کشمیری عوام نے شرکت کی۔ ریلی کی
قیادت فرنٹ کے مرکزی نائب چیئرمین ماسٹر شیخ محمد افضل نے کی۔یہ جلوس مدینہ
چوک گاؤکدل سے شروع ہوا ۔ جلوس میں شامل افراد کی جانب سے
آزادی،شہداء،تحریک آزادی کے حق میں اورگرفتاریوں کے خلاف فلک شگاف نعرے
لگائے جاتے رہے۔ جلوس جب بڈشاہ چوک کے قریب پہنچا تو پولیس اور فورسز کی
بھاری نفری نے اس کا راستہ روک لیاجس پر مظاہرین وہیں دھرنے پر بیٹھ گئے ۔
اس دھرنے سے قائدین ِ فرنٹ نے خطاب کیا۔ اپنے خطاب میں قائدین نے ظلم و جبر
کے بڑھتے ہوئے ہتھکنڈوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ آج پُرامن
سیاسی جدوجہد کرنے والوں پر جیل اور تھانوں کے دروازے کھول دئے گئے ہیں۔
قائدین نے لبریشن فرنٹ کے چیئرمین جناب محمد یاسین ملک سمیت درجنوں قائدین
و کارکنوں جن میں نائب چیئرمین ایڈوکیٹ بشیر احمد بٹ، نائب چیئرمین شوکت
احمد بخشی، زونل صدر نور محمد کلوا ل نائب چیئرمین مشتاق احمد اجمل ودیگر
کی مسلسل نظربندی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ نام نہاد جمہوری
حکمرانوں نے جمہوریت کش اقدامات سے یہاں عوام الناس کا جینا دوبھر کردیا
ہے۔قائدین نے سوپور کے معصوم شہید ارشد احمد کے بہیمانہ قتل ناحق،سوپور اور
ملحقہ علاقوں میں جاری فورسز کے تشدد،مسلسل کرفیو اور اس کے نتیجے میں عوام
الناس کو تنگ کرنے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سوپور اور ملحقہ
علاقوں میں بھارتی حکمران ،انکے کشمیری گماشتے اور فورسز عوام الناس پر جو
جبر ڈھارہے ہیں اسکی نظیر ملنا بھی بہت دشوار ہے۔اس ظلم و جبر اور تعدی کی
سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے قائدین نے کہا کہ آج کایہ احتجاجی پروگرام
اور دھرنا اسی ظلم، جبر اور سرکاری دہشت گردی کے خلاف ہے ۔ جموں کشمیر
لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک اور دیگر قائدین جنہیں 23جون کو
گرفتار کیا گیا تھا تاحال سینٹرل جیل وغیرہ میں قید ہیں جبکہ پچھلے پانچ
روز سے کئی عدالتیں مختلف تاویلات اور بہانے تراش کر محبوسین کو ضمانت پر
رہا کردینے میں بھی لیت و لعل سے کام لے رہی ہیں۔بٹہ مالو تھانے میں قید
قائدین ایڈوکیٹ بشیر احمد بٹ،مشتاق احمد اجمل،سید نثار جیلانی،مولوی
عبدالرشید اور نذیر احمدکو گذشتہ روز عدالت کے سامنے پیش کیا گیا اور عدالت
نے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر سینٹرل جیل سرینگر منتقل کردیا ہیجبکہ چیئرمین
محمد یاسین ملک،شوکت احمد بخشی،محمد صدیق شاہ،محمدرفیق وار، بشیر احمد
کشمیری،مشتاق احمد،عبدالمجیدودیگر اسلام آباد جیل میں قید ہیں۔جموں کشمیر
لبریشن فرنٹ کے مرکزی ترجمان رفیق احمد ڈار نے چیئرمین فرنٹ محمد یاسین ملک
سمیت درجنوں قائدین کی مسلسل اسیری اور اس سلسلے میں پچھلے کئی روز سے چند
عدالتوں کی جانب سے روا رکھے جانے والے لیت و لعل کے رویے کو حد درجہ افسوس
ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ جیل ،قید و بند اور صعوبتوں کا تحریک آزادی کے
ساتھ چولی دامن کا رشتہ ہے اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین سمیت
دوسرے قائدین و اراکین کیلئے یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے لیکن جو چیز حد درجہ
حیران کن اور افسوس ناک ہے وہ یہ ہے کہ چند عدالتیں ،فاضل جج صاحبان اور
تحصیل دار حضرات میرٹ اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے کے بجائے کھلے بندوں
پولیس اور ایجنسیوں کے احکامات کے مطابق یہ فیصلے صادر فرمارہے ہیں۔جب
عدلیہ اور قانون کی حفاظت کرنے والے ادارے اور حکام قانون کے مطابق فیصلے
کرنے کے بجائے پولیس کے اشاروں پر فیصلے صادر فرمانے میں منہمک ہوجائیں تو
اس صورت حال کو مذموم ہی کہا جاسکتا ہے۔ گرفتاریوں ،قدغنوں،رکاوٹوں اورجبر
کے اقدامات سے تحاریک آزادی کو شکست نہیں دی جاسکتی ہے بلکہ یہ مصائب و
آلام ہمارے حوصلوں کو نئی قوت اور تقویت بخشنے کا کام کرتے ہیں۔ |