ڈاکٹر ایم اعجاز اعلی
(سابق ایم پی)
(بانی وسرپرست آل انڈیا یونائٹیڈ مسلم مورچہ)
16؍ مئی 2014ء کو اس ملک کی سیاست نے ایک نئی کروٹ لی اور کرسی عظمی پر
اکثریت میں بی جے پی کا قبضہ ہو گیا ۔ جس فکر کے ساتھ ہندو وادی طاقتو ں کی
بیج 1930میں ڈالی گئی تھی، دھیرے ہی صحیح لیکن اپنی لگاتار کاوشوں کے ذریعہ
دلی کی کرسی پر یہ طاقت براجمان ہوگئی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اپنی اس
مہم میں اس نے صرف تین ایشو ز دھارا370 ، ایودھیا متنازعہ اور پرسنل لاء کو
ایک حکمت عملی کے تحت چنا اور بغیر بدلے لمبے عرصے تک لگاتار اس کا استعمال
کیا اور کامیاب ہوکر دکھادیا۔ اس سے بھی حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تینوں
ایشوز پر ان طاقتوں نے اپنے سیاسی حریف کانگریس اور مسلم سربراہوں( مذہبی و
سیاسی) پر ایسا جادو کیا کہ وہ بھی اِنہیں ایشو زمیں اُلجھ کر ر ہ گئے اور
محض ر د عمل کی سیاست میں ڈوب کر اسی کی مدد کرتے چلے گئے۔ کبھی کبھی تو
ایسا لگتا ہے کہ کانگریس نے جس سونچ کے ساتھ شاہ بانو کے معاملے میں قدم
اُٹھاکر ، بابری مسجد کا تالا کھلواکر اور آخر میں مولانا بخاری سے فتویٰ
دلواکر جو سیاسی کھیل کھیلنا چاہا کہیں وہ اصلی بی جے پی( بھاجپا) کو
اقتدار میں لانے کا کھیل ہی تو نہیں تھا ۔ لیکن کانگریس کی اس تکڑم کو
سمجھنے میں ہمارے لیڈر کیوں نہ فیل کریں۔ یاد کیجئے سابق وزیر اعظم نرسمہا
راؤ نے 7؍ ریس کورس میں بیٹھ کر جس طرح بابری مسجد گروانے کا تماشہ آرام سے
دیکھنے کا کام کیا، کیا وہ مسلم سربراہوں کی آنکھیں کھولنے اور آستین میں
چھپے اس بی جے پی کو پہنچاننے کے لئے کافی نہیں تھا لیکن پھر بھی اس کا
ساتھ دیتے چلے گئے۔ آج مسلم قوم جس طرح سے ایک چوراہے پر آکر کھڑی ہوگئی ہے
ا س کی ساری وجہ مسلم قوم کے سربراہان ہیں جن میں آستینی اور اصلی بھاجپا
میں فرق سمجھنے کی قوت کبھی نہیں دیکھی گئی اور جنہوں نے بے غیر کسی حکمت
عملی کے ان کی اس کھیل میں ساتھ لگے رہے اور ملک و ملت دونوں کو نقصان
پہنچایا ۔ یہ سارے روایتی مسلم سربرہاں کیا اب بتایائیں گے کہ ایسی صورتحال
جس میں کرسی عظمی پربیٹھی ایسی طاقت جس کے ’’ایک ہاتھ میں پھول اور دوسرے
ہاتھ میں ترشول ہو‘‘ اس کے ترشول سے کیسے ملک و ملت کو بچایا جا سکے۔ یاد
کیجئے ہٹلر بھی ایک غریب گھرانے کا چراغ تھا، وہ بھی راشٹر پرستی ، نسل
پرستی پر زور دے کر ملک کی کرسی پر قبضہ کرنا چاہتاتھا۔ جب اس بنیاد پر اس
کو اکثریت مل گئی تب اس نے کس طرح پہلے لوک تنتر کاخاتمہ کیا، پھر خلفشار
مچایا ، کتنوں کا گیس چیمبر میں صفایا کروایا اور پھر اس کے اپنے ملک جرمن
کا ہی کس طرح سے بٹوارہ ہوا ‘یہ ساری حرکات دنیا کے سامنے عیاں ہے۔ جرمن کی
داستاں ہماری ملت و ملک کے لئے سبق ہے۔ اگر اس حقیقت کو سامنے رکھ کر ہم اب
بھی اپنی حکمت عملی نہ تیا رکریں گے تو جرمن کی داستان یہاں دُہرائی جاسکتی
ہے ۔ پر سوال اٹھتا ہے کہ کون اسے کرے ۔ اتنی بات تو طے ہے کہ یہ کام ہمارے
علماء حضرات یا روایتی سربراہوں سے نہیں ہو سکتی ہے ۔ اس ضروری کام کے لئے
سب سے پہلے مسلمانوں کو اپنی سربراہی بدلنی ہوگی۔ سماج سے جڑے کارکنان و
دانشوران کو سامنے آنا ہوگا اور اس مہم میں عام مسلمانوں کو اُسی طرح سے
جوڑنا ہوگا جس طرح سے گاندھی جی نے ’’بھارت چھوڑو آندولن ‘‘ میں لیڈروں کے
بجائے عام ہندوستانیوں کو جوڑا تھا۔ علماء حضرات کو سیاست سے کنارہ کشی
اختیار کر لینا ہوگا کیونکہ اس لائن میں آنے سے ان کا امیج گرتا چلا جارہا
ہے۔ مولانا بخاری ہوں یا مولانا محمود مدنی، انہیں قوم کی امامت کرنی ہے۔
ان کے دامن پر داغ، مستقبل کے لئے اچھا نہیں ہے۔ انہیں چاہئے کہ اب صرف اس
فرض کی ادائیگی میں لگ جائیں جو اسلامی تعلیم کے ذریعہ ان کے کاندھوں پر دی
گئی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ وہ مسجدوں کو سنبھالیں ۔ عید کا چاند ایک ہی رات
نکالیں ۔ اسلام کاپیغام دنیا کو دیں ۔ یہ تو رہی لیڈر شپ کی بات۔ جہاں تک
حکمت عملی کا سوال ہے تو اس کے لئے مسلمانوں کو جمہوری نظام میں یہی راستہ
نکال لینا ہے کہ ’’ اقتدار میں مناسب حصے داری ‘‘ کیسے حاصل ہو۔ جمہوری
نظام میں اگر اس قوم کے صحیح افراد فیصلہ کُن جگہوں پر صفر ہوتے چلے جائیں
گے تو پھر اس قوم کا حشرکیسا ہوگا؟ ذرا سوچئے ، دلت سماج کو ڈاکٹر امبیڈکر
، اگر دفعہ341کے ذریعہ اقتدار میں حصہ داری نہیں دلوائے ہوتے تو اس سماج کی
حالت موجودہ ہندوستان میں پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوتا ۔ افسوسناک پہلو
توہے کہ مسلمانوں کو اسی حق سے محروم کرنے کے لئے کانگریس کی سرکار نے
10اگست1950کو ہی دفعہ341سے جبراً خارج کروادیا تھا ۔ عام ( پیشہ ور )
مسلمانوں کی اتنی بڑی حق تلفی ہوگئی لیکن کسی مسلم سربراہ کے کانوں پر جوں
تک نہ رینگی۔ حد تو یہ ہے کہ دفعہ341زمرے میں دوبارہ شامل ہونے کے لئے
23؍جولائی1959کو مسلمانوں پر تبدیلی مذہب کی شرط نافذ کی گئی لیکن مسلم
سربراہاں کچھ نہیں بولے۔ نہ اس وقت قد آور لیڈروں کی کمی تھی اور نہ ہی آج
تک قد آور مسلم نمائندوں کی کمی رہی ہے ۔ کمی تھی تو صرف دوراندیشی کی ۔
اسی کمی کی وجہ کر انہیں یہ بات سمجھ میں ہی نہیں آئی کہ سرکار کے ان
فیصلوں کا آنے والی نسلوں پر کیا اثر پڑے گا۔ سچرکمیٹی کی رپورٹ کیا ہے،
اسی نا انصافی کا اثر ہے ۔ اب اس سے زیادہ مسلمانوں کے ساتھ اور کیا ہو
سکتا ہے ۔ آزاد ہند میں اچھوت سماج بھی 60سالوں میں ملک کے مین اسٹریم میں
آگیا جبکہ مسلم قوم سب سے نچلے پائیدان پر پہنچ گئی۔ بہر حال اب تو جو ہونا
تھا وہ ہو چکا۔ اب تو جہاں ایک طرف مسائل کا پہاڑ ہمار ی قوم کے ساتھ کھڑا
ہے وہیں دوسری طرف میڈیا و مافیا کے چلتے آج کا ماحول ایسا ہو چکا ہے کہ
کوئی ایسی مانگ اب آپ کرہی نہیں سکتے جو آئین کے دائرے سے باہر ہو۔ آئین کے
دائرے میں رہتے ہوئے اگر مسلمان اقتدار میں حصہ داری چاہتے ہیں تو انہیں
صرف ایک ہی لڑائی لڑنے کی ضرورت ہے اور وہ ہے دفعہ 341سے مذہبی قید ہٹوانے
کی۔ حالانکہ یہ مانگ بھی ریزرویشن سے ہی جُڑا ہوا ہے اور ایسالگتا ہے کہ
جیسے مسلمانوں کے ایک چھوٹے سے حصے سے متعلق ہے لیکن اس کی سماجی ، سیاسی و
مذہبی نوعیت پر جب آپ غور کرینگے تو حالات حاضرہ کا مقابلہ کرنے کے لئے اس
سے بڑی حکمت عملی اور کچھ دکھائی نہ دے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ریزرویشن سے
جُرا ہی یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں ہمار ا عظیم’’ آئین‘‘ کہیں نہ کہیں
پر جا کر غلط کٹگھرے میں کھڑا ہو جاتا ہے ۔ چونکہ یہ معاملہ 2004سے سپریم
کورٹ میں زیر غور ہے اسلئے فیصلہ وہیں سے ہونا ہے۔ چاہے مرکزی سرکار اس پر
پہل بھی کرنا پسند نہ کرے تو بھی عام مسلمانوں کے اتحادی احتجاج سے سپریم
کورٹ اس پر نوٹس لے سکتا ہے اور حل کر سکتا ہے ۔ ویسے وزیر اعظم نے
پارلیمامنٹ میں ایک مسلم سائیکل پنکچر بنانے والا کا تذکرہ کر اپنی سونچ کو
پیش کیا ہے۔ اگر یہی ان کا نظریہ ( Mind set)ہے تو پھر ان سے دفعہ341میں
ترمیم کی نمک کے برابر امید کی جاسکتی ہے ۔ بشرطیکہ ہم اس معاملے کو ایسے
مضبوط طریقے سے پیش کریں تاکہ مرکزی سرکار اسے امت مسلمہ کا سب سے اہم مدہ
بھی سمجھے اور آر ایس ایس کو انکار کرنے کا موقع بھی نہ ملے۔ حالانکہ اب تک
کا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ سنگھ پریوار مسلمانوں کو ہمیشہ اپنے اُسی تین
ایشوز میں پھنسا کر اپنی سیاسی قوت کو بڑھاتا چلا گیا اور مودی سرکار کے
دوڑان بھی اپنی مختلف شاخوں کے ذریعہ ، کبھی پرسنل لاء پر انگلی اٹھائیگا
تو کبھی رام مندر کی تعمیر کا معاملہ چھڑے گا۔ کبھی دفعہ 370کو گرم کرنے کا
تو کبھی بنگلہ دیشی گھس پیٹھی کا ۔ اس کے ذریعہ وہ ہندوستان میں اسپینی سا
زش کو دہرانا چاہتا ہے جسے ہمارے رہنما نہیں سمجھ سکے۔ بہر حال ہم مسلمانوں
کو ان سب کے جواب میں صرف دفعہ 341کے معاملے کو مضبوطی سے اٹھاتے چلے جانا
ہے۔ وہ تینوں مسئلے بھی ہم سے ہی متعلق ہیں لیکن ان کے پیچھے اُن کی وہ
حکمت عملی پنہاں ہے جس سے وہ ’’ زیروسے ہیرو‘‘ ہو گئے اسی طرح دفعہ341کو
اپنی حکمت عملی کے طورپر استعمال کیجئے۔ اس پر لگی مذہبی قید نے مسلمانوں
کو محض60برسوں میں’’ ہیرو سے زیرو‘‘ کر دیا۔ اس مانگ میں کامیاب ہونے پر ہی
مسلم قوم ملک کے مین اسٹریم میں آسکتی ہے اور سنگھ پریوار کے ذریعہ جاری
اسپینی سازش کو روکا جا سکتا ہے۔ |