مہاجرین کو بروقت مدداور فوج کو حوصلہ افزائی کی سخت ضرورت ہے

ایم کیو ایم کے روحانی پیشو ا الطاف حسین فرماتے ہیں کہ عوام بڑھ چڑھ کر شمالی وزیر ستان کے مہاجرین کی مالی مدد کریں۔بیان تو بہت خوب ہے لیکن اس اپیل کا فائدہ اس وقت ہوسکتا ہے جب الطاف حسین اپنی جیب سے پچاس کروڑبرطانوی پونڈ آپریشن ضرب عضب اور مہاجرین کے فنڈ میں جمع کروا دیتے لیکن پاکستانی سیاست دانوں کی گھٹیا سوچ اور بدترین طرز سیاست کا عالم یہ ہے کہ اپنی جیب سے ایک پیسہ بھی فوج اور مہاجرین کے لیے خرچ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ عمران جو بذات خود کھربوں روپے کے اثاثوں کے مالک ہیں وہ مہینے میں دو مرتبہ اپنا سونامی پر چالیس پچاس کروڑ روپے خرچ کرکے پنجاب کے شہروں میں جلسے تو کررہے ہیں لیکن وہ مہاجرین کی مدد کے لیے وفاقی حکومت کے سامنے کشکول اٹھائے کھڑے ہیں حالانکہ وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ ایک دو ارب روپے اپنی جیب سے بھی مہاجرین کی دیکھ بھال کے لیے خرچ کرسکتے ہیں وہ زبانی کلامی باتیں تو بہت کرتے ہیں اپنے مطالبات کے لمبی فہرست سے نہ صرف پاکستانی قوم کو الجھا رہے ہیں بلکہ اگر وہ اپنے جلسوں پر اٹھنے والے اخراجات ہی مہاجرین کی مدد کے لیے مختص کردیں تو انسانی المیے کوروکا جاسکتا ہے ۔یہی عالم ڈاکٹر طاہر القادری کا ہے جو جھوٹے انقلاب کا نعرہ لگاکر اپنے چاہنے والوں کو مسلسل عذاب میں مبتلا رکھتے ہیں اور خود ہر قسم کی موسمی صعوبتوں سے محفوظ پر تعیش زندگی کو انجوائے کرتے ہیں ان کے ملکی اور غیر ملکی اثاثوں کا شمار بھی کروڑوں ڈالر سے کم نہیں ہوگا ۔یہی عالم چودھری برادارن کا ہے جو نہ صرف خود کھربوں روپے مالیت کے اثاثوں کے مالک ہیں بلکہ چوہدری ظہور الہی روڈ پر پرتعیش بنگلوں کی لمبی قطار ان کی دولت اور ثروت کی منہ بولتی تصویر ہے۔ خدا نے انہیں بھی توفیق نہیں دی کہ وہ اپنی جیب سے ایک پیسہ بھی مہاجرین کی مدد کے لیے خرچ کرسکیں لیکن چور دروازوں سے اقتدار حاصل کرنے والوں میں وہ بھی صف اول میں دکھائی دیتے ہیں۔رہی بات میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف کی ۔ ان کا شمار پاکستان کے دولت مند گھرانوں میں ہوتا ہے جن کی دولت کا حساب کتاب شاید انہیں خود بھی نہیں ہوگا لیکن اﷲ نے ان کو بھی یہ توفیق نہیں بخشی کہ وہ اپنی ملکی اور غیر ملکی دولت کو پاکستانی عوام کی زبوں حالی اور مہاجرین کی مدد کے لیے خرچ کرسکیں ۔وہ اپنے وسیع و عریض پروٹوکول اور دیگر اخراجات کابوجھ بھی قومی خزانے پر لاد نا اپنا فرض تصور کرتے ہیں ۔شیخ رشید کا شمار بھی غریب لوگوں میں ہر گز نہیں ہوتا مجھے نہیں علم کہ ان کی آمدنی کے ذرائع کیا ہیں لیکن وہ جتنا پیسا اور اخراجات حکومت کے خلاف احتجاجی سیاست کو پروان چڑھانے کے لیے کررہے ہیں کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ بھی اس رقم کو مہاجرین کے فنڈ میں جمع کروا کر خود کو سرخرو کرلیتے ۔ پاک فوج اس سے پہلے تین جنگیں لڑچکی ہے ۔کامیابی اور ناکامی کو چھوڑ کر یہ بتانا ضروری ہے کہ جنگ چاہے بیرونی دشمن سے ہو یا اندرونی دشمن سے ٗ فوج اسی وقت کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے جب سیاست دانوں سمیت پوری قوم دل و جان سے ان کی مدد کرتی ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ 65ء کی پاک بھارت جنگ میں لاہور کے شہری دیگیں پکاکر میدان جنگ میں لڑنے والے سپاہیوں کے مورچوں تک پہنچ گئے تھے پھر جب فوجیوں سے بھری ہوئی ٹرینیں محاذ جنگ کی طرف روانہ ہوتی تھیں تو ریلوے لائن کے دونوں اطراف لاکھوں کی تعداد میں عورتیں مرد اور بچے اپنے جوشیلے نعروں سے ان کا حوصلہ بڑھاتے تھے ۔جنرل ایم ایچ انصاری مرحوم نے ایک واقعہ سنایا کہ 65ء کی جنگ کا ابھی آغاز ہوا ہی تھا کہ انہیں اپنی توپ خانہ یونٹ کو ملتان سے قصور منتقل کرنے کا حکم ملا وہ اپنی یونٹ کے ساتھ جب اوکاڑہ کے نزدیک قصبے کسان پہنچے تو رات کا ایک بج چکا تھا فوجی مشقوں کی وجہ سے جوان تھک چکے تھے سب کے مشورے سے سڑک کے کنارے ہی کسی حفاظتی حصار کے بغیر رات بسر کرنے کا فیصلہ ہوا ۔اگلی صبح ابھی سورج طلوع بھی نہیں ہواتھا کہ قریبی گاؤں سے لوگ اپنے اپنے گھروں سے فوجی بھائیوں کے لیے ناشتہ لے کر پہنچ گئے یہ دیکھ کر فوجی جوانوں کے حوصلہ مزید بلند ہوئے ۔ آئیے ہم بھی اپنے گریبان میں جھانک کردیکھیں کیا اس وقت ہم اپنے ان فوجی بھائیوں سے اتنی ہی محبت کررہے ہیں جو ہماری حفاظت کے لیے شمالی وزیر ستان جیسے دشوار گزار محاذ جنگ اور پچاس ہزار پاکستانیوں کو ہلاک کرنے والے چھپے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف دنیا کی مشکل ترین جنگ لڑ رہے ہیں ۔لاہور کا ایک کمسن طالب علم اگر اپنے جیب خرچ سے بچا کر 5 ہزار روپے مہاجرین کے فنڈ میں جمع کروا سکتے ہیں تو کیا ہمارے سیاست دانوںٗ سرمایہ داروں ٗ جاگیرداروں ٗ زمینداروں ٗ صنعت کاروں ٗ پراپرٹی ڈویلپروں اور عوام کو سانپ سونگھ گیا ہے وہ کیوں بڑھ کر فوج اور مہاجرین کی مدد کے لیے آگے نہیں آرہے۔وزیر اعلی پنجاب حکومتی فنڈ سے تو پچاس کروڑ دینے کا واشگاف اعلان کرکے اتنے ہی پیسوں سے اشتہارات بھی شائع کروا رہے ہیں وہ بھی بتائیں کہ انہوں نے اپنی جیب سے کتنے کروڑ دیئے ہیں ۔جنگ صرف حکومتی فنڈ سے نہیں لڑی جاتی بلکہ پوری قوم کو دل و جان سے کندھے سے کندھا ملاکر ساتھ کھڑا ہونا پڑتا ہے ۔کیا پاکستان کے بدترین سیاست دانوں ٗ سرمایہ داروں ٗ جاگیرداروں کا ضمیر مردہ ہوچکا ہو جو موقع ملنے پرقومی خزانے کو تو باپ کی جاگیر سمجھ کر خوب لوٹتے ہیں لیکن دہشت گردی کے خلاف ہونے والی جنگ میں نہ تو فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے لیے وزیر ستان جاسکتے ہیں اور نہ ہی کسی شہید فوجی کے جنازے میں شرکت کرکے لواحقین کو یہ احساس دلاسکتے ہیں کہ ہم آپ کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں ۔کیا نواز شریف ٗ شہباز شریف ٗ پرویز خٹک ٗ سید قائم علی شاہ ٗ ڈاکٹر عبدالمالک کافرض نہیں بنتا کہ وہ شہیدفوجیوں کے جنازوں میں کسی خوف کے بغیر شریک ہوں ۔

علاوہ ازیں ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ پی ٹی وی سمیت ٹی وی چینلز کو بریکنگ نیوزکی موذی وبا کو چھوڑ کر نشان حیدر ڈرامے ٗ الفا برایو و چارلی ٗ آہن جیسے ڈرامے فوری طور پرنشرکرنے شروع کردینے چاہیں بلکہ فوج کا حوصلہ اور مورال بلند کرنے والے جنگی ترانے اور ڈرامے لکھواکر جتنی جلدی ممکن ہوآن ائیر کرنے چاہیں ۔تاکہ برسوں سے سوئی ہوئی پاکستانی قوم اور مردہ ضمیر سیاست دانوں ٗ سرمایہ داروں جاگیر داروں کو بھی شمالی وزیرستان کے مہاجرین ٗ پاک فوج کے جوانوں اور شہیدوں کے دکھوں تکلیف اور پریشانیوں کا احساس ہوسکے ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784711 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.