وزیرستان:انخلا مکمل.... متاثرین تاحال مشکلات کا شکار
(عابد محمود عزام, karachi)
وزیرستان میں شہری انخلا مکمل ہوچکا اور
آپریشن ضربِ عضب کا نیا مرحلہ شروع ہو گیا ہے۔ میرانشاہ اور نواحی علاقوں
میں زمینی کارروائی کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا ہے۔ فوج کے انفنٹری اور
اسپیشل سروسز گروپ کے اہلکار میرانشاہ میں گھر گھر تلاشی لے رہے ہیں۔ پاک
فوج کے مطابق تمام شہریوں کے انخلا کے بعد شمالی وزیرستان میں میرانشاہ اور
اردگرد کے علاقوں میں زمینی کارروائی کا آغاز کیا گیا ہے۔ جبکہ دوسری جانب
جن افراد کی ابھی تک رجسٹریشن نہیں کی گئی، فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنت اتھارٹی (ایف
ڈی ایم اے) خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں ان افراد کی رجسٹریشن کا کام
چند روز میں شروع ہوجائے گا۔ ایف ڈی ایم اے بنوں، پشاور اور خیبر پختونخوا
کے دیگر علاقوں میں اس مقصد کے لیے رجسٹریشن کے مراکز قائم کرے گا۔ واضح
رہے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کے آغاز سے قبل بڑی تعداد میں
خاندان خیبر پختونخوا آئے تھے، جنہیں رجسٹرڈ نہیں کیا گیا تھا۔ ان خاندانوں
نے صوبے کے مختلف علاقوں میں اپنے رشتہ دار خاندانوں یا کرائے کے گھروں میں
پناہ لی تھی۔ آپریشن کے آغاز سے پہلے لگ بھگ باسٹھ ہزار افراد شمالی
وزیرستان سے نکل گئے تھے۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنت اتھارٹی (پی ڈی ایم اے)
نے ایک اعلامیہ میں کہا ہے کہ37 ہزار سات سو ستاون گھرانے جو چار لاکھ
چھیاسٹھ ہزار دو سو ستاسی افراد پر مشتمل ہیں، کو بنوں کے سرحدی علاقے میں
سیدگئی کے مراکز پر رجسٹرد کرلیا گیا تھا۔ ایف ڈی ایم اے نئے آئی ڈی پیز کی
فہرست نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کو تصدیق کے لیے فراہم کرے
گی۔
دوسری جانب ذرائع کے مطابق وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کو بے شمار
مشکلات کا سامنا ہے۔ بنوں کے کیمپوں میں مقیم آئی ڈی پیز کی بڑی تعداد
سرکار کی جانب سے اعلان کردہ امداد سے محروم ہے، کیمپوں اور خیموں میں رہنے
والے متاثرین کے لیے نہ صرف کھانے پینے بلکہ دیگر بنیادی سہولیات بھی نہ
ہونے کے برابر ہےں۔ ہزاروں متاثرین روزانہ امداد اور اشیاءکے بغیر ہی زندگی
گزار رہے ہیں۔ متاثرین کے مطابق ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جارہا ہے۔ رمضان
شروع ہونے کے باجود بھی متاثرین امداد سے محروم ہیں، بہت سے متاثرین روزہ
صرف پانی سے افطار کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے۔
کیمپوں میں مقیم متاثرین کے لیے امداد کی تقسیم روزانہ ایک کڑا امتحان ثابت
ہوتی ہے۔ متاثرین روزانہ راشن کے حصول کے لیے بنوں اسپورٹس کمپلیکس راشن
سینٹر پہنچتے ہیں، لیکن راشن کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے انہیں شدید پریشانی کا
سامنا ہے۔ پیر کے روز بنوں کے اسپورٹس کمپلیکس میںشمالی وزیرستان کے
متاثرین میں راشن کی تقسیم کے دوران ہنگامہ آرائی کے دوران پولیس اہلکار
سمیت 2 افراد زخمی ہوگئے۔ جبکہ اس کے علاوہ بیمار افراد، خواتین، بچوں اور
بزرگ حضرات سمیت بہت سے لوگ متعدد مسائل کا شکار ہیں۔ خصوصاً خواتین کو
علاج معالجے کے حوالے سے متعدد پریشانیوں کا سامنا ہے۔ ہسپتالوں میں لیڈی
ڈاکٹرز کی سہولت میسر نہیں ہے۔ نقل مکانی کرنے والوں میں بڑی تعداد حاملہ
خواتین کی بھی تھی، لیکن ان کو بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے بہت سے
نومولود بنا کھلے ہی مرجھا گئے اور بہت سی حاملہ خواتین کو نقل مکانی کے
دوران طبی امداد سے محروم رہنے کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ متاثرین کی
مشکلات کے حوالے سے اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ شمالی وزیرستان متاثرین کے
لیے ماہانہ 3670 میٹرک ٹن خوراک کی ضرورت ہے۔ خواتین کے علاج و معالجے کے
لیے لیڈی ڈاکٹرز کی تعداد انتہائی کم ہے۔ شمالی وزیرستان سے افغانستان میں
ہجرت کرنے والے افراد کی تعداد ایک لاکھ پانچ ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ پاک فوج
نے زمینی کارروائی شروع کرنے سے پہلے کرفیو میں نرمی کر کے لوگوں کو باہر
نکل آنے کی اجازت دی تھی۔ اس وقت تک 4 لاکھ 68 ہزار افراد نے شمالی
وزیرستان سے نقل مکانی کی۔ اقوام متحدہ کے ادارے ”اوچا“ کی رپورٹ کے مطابق
زیادہ تر لوگ پہلے ہی شمالی وزیرستان چھوڑ چکے ہیں۔ 30 جون تک ایف ڈی ایم
اے کے پاس 38 ہزار خاندانوں پر مشتمل 468048 لوگوں کی رجسٹریشن ہوئی ہے۔
بڑی تعداد میں لوگوں کی رجسٹریشن نہیں کی جا سکی ہے۔ پاک فوج متاثرین میں
راشن کے 30 ہزار پیکٹس تقسیم کر چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے
خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے کہا ہے کہ وہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے
باعث نقلِ مکانی کرنے والے خاندان جو بنوں، لکی مروت، ڈی آئی خان، ٹانک اور
صوبے کے دیگر علاقوں میں مقیم ہیں، انہیں غذائی اشیاءکی فراہمی جاری رکھے
گا۔ واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے خیبر پختونخوا آنے والے آئی ڈی پیز کے لیے
اقوامِ متحدہ کی شراکت سے اضافی 25 ٹن گندم فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ڈبلو ایف پی کی جانب سے فراہم کی جانے والی اس امداد میں آٹا، گندم، دالیں،
سبزیاں، تیل اور نمک کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے توانائی پیدا کرنے والے
بسکٹس شامل ہیں۔ یہ تمام اشیاءبنوں اور لکی مروت میں قائم کیمپوں تک
پہنچائی جارہی ہےں، جہاں سے ان کو متاثرین میں تقسیم کیا جارہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق صوبوں کی جانب سے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے
باعث بے گھر ہونے والے افراد کو فوری امداد کی فراہمی سے انکار وفاق کے زیر
انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کے رہائشیوں کو ”دوسرے درجے“ کی حیثیت دینے کے
مترادف ہے۔ نقل مکانی کرنے والے افراد پاکستان کے شہری ہیں اور پاکستان کے
شہری چاہے کہیں بھی ہوں، انہیں آئینی حقوق حاصل ہیں، ان حقوق کو عام قانون
سازی یا انتظامی احکامات کے ذریعے بھی ختم نہیں کیا جا سکتا۔ شمالی
وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن، 2001ءکے بعد سے اب تک کی بائیسویں کارروائی
ہے، جو جنوبی وزیرستان سے محسود قبائل کے دو بار بے گھر ہونے سمیت پچیس
مرتبہ لوگوں کے انخلاءکا باعث بنی ہیں۔ وہاں کے لوگوں کا بے گھر ہونا پرانا
مسئلہ بن چکا ہے، مگر ایسے افراد کے لیے ہمارے سالانہ بجٹ میں بمشکل ہی
فنڈز مختص کیے جاتے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ان سب مسائل کے باوجود
پاکستان کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں اربوں ڈالرز حاصل کرتا ہے، جنہیں بے
گھر افراد کی امداد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ شمالی وزیرستان میں غیر
اعلانیہ فضائی کارروائی اور زمینی حملے کے اعلان کے درمیان اتنا وقت ضرور
موجود تھا جس میں لوگوں کے بے گھر ہونے کے معاملے پر منصوبہ بندی کی جاسکتی
تھی، جبکہ اس وقت ہر سطح پر یہاں تک تجربہ کار ڈیزاسٹر منیجمنٹ اداروں کی
بدانتطامی اور افراتفری نے انتظامی معاملات کو بدتر بنا دیا ہے۔ ایسے افراد
جنہیں مجبوراً اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑا، انہیں تو پہلے بھی عدم توجہی کا
سامنا کرنا پڑا تھا۔ پھر جان بوجھ کر ان کے ذاتی وقار سے محروم کرنے کی
کوشش کی گئی اور اس کے بعد صوبوں نے انہیں خوش آمدید کہنے سے انکار کردیا،
جو اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ فاٹا کے لوگوں کو ایک پاکستانی جتنی حیثیت
دینے کے لیے تیار نہیں۔ شمالی وزیرستان کے داور قبیلے کے ایک بزرگ کے مطابق
”تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم نے اپنی زمین سے دو ہزار سال سے زاید عرصے سے
نقل مکانی نہیں کی اور جب ہمیں ایسا کرنا پڑا تو وہ پاکستان کے تحفظ کے لیے
تھا، مگر اب صوبے ہمارے ساتھ ایسا سلوک کررہے ہیں، جیسے ہم پاکستانی شہری
نہیں۔“
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بے گھر افراد میں یہ تاثر عام پایا جاتا ہے کہ
ماضی میں انہیں نظر انداز کیا گیا تھا، انہیں تباہ شدہ گھروں میں لوٹنا پڑا
اور نقصانات کا کوئی معاوضہ دینے کی بجائے ان کے ساتھ مشتبہ دہشتگرد سمجھ
کر سلوک کیا گیا اور اب بھی ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جائے گا۔ شمالی
وزیرستان سے بے گھر ہونے والے افراد کو خیبرپختونخوا کے سات اضلاع تک محدود
کردیا گیا ہے اور انہیں دیگر صوبوں میں جانے کی اجازت نہیں۔ ”لگتا ہے جیسے
انہیں ویزے کی ضرورت ہے یا شاید کہ وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں۔“ اس وقت جب
چھ لاکھ کے لگ بھگ افراد بے گھر ہوگئے ہیں، خیبرپختونخوا میں حکومت کرنے
والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کی توجہ جلسوں پر مرکوز ہے،
جبکہ میڈیا ”قادری سرکس“ کا پیچھا کر رہا ہے اور جہاں تک بے گھر افراد کی
بات ہے تو لگتا ہے ”وہ پاکستان کے کسی اور کونے میں رہ رہے ہیں۔“ مبصرین نے
اس جانب بھی اشارہ کیا کہ اس وقت جب صوبے بے گھر افراد سے منہ موڑ رہے ہیں،
انہیں سرحد پار افغانستان میں خوش آمدید کہا جارہا ہے، جس کو تجزیہ کار
مستقبل میں ملک کے لیے خطرات کا آلارم سمجھ رہے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ
وزیرستان کے لوگ محب وطن اور پاکستان کے شہری ہیں، ان کے ساتھ پاکستانیوں
جیسا سلوک ہی کرنا چاہیے۔ ان دنوں آپریشن کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر ہیں،
جنہیں بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔سخت گرمی میں رمضان المبارک کی آمد اور
ضروریات زندگی کی عدم فراہمی کی وجہ سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا
ہے۔متاثرین کی مشکلات کے پیش نظر جلد از جلد آپریشن مکمل کرکے عید سے پہلے
آئی ڈی پیز کی واپسی یقینی بنائی جانی چاہیے۔ |
|