سندھ کا بجٹ کہاں خرچ ہورہا ہے؟

سندھ میں شدت کی گرمی اور حکومت کی نااہلیت کا بھانڈہ ایک بار پھر پھوٹ گیا ہے کہ سہون میں شہباز قلندر کے عرس میں گرمی،پانی کی عدم دستیابی، محکمہ اوقاف کی بے حسی سے تین چار دن میں پچاس سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں اور حکومت سندھ کے کانوں پر کوئی جوں نہیں رینگ رہی، سندھ حکومت نے مالی سال2014-15 کا بجٹ اسمبلی میں پیش کیا ہے۔ جس کا حجم 686 ارب روپے ہے۔ بجٹ اجلاس میں ہٹ دھرمی کا وہی راج ہے، جس میں سب اچھا سب اچھا کا راگ الاپا جارہا ہے۔ حکومتی اراکین بجٹ کی تعریف کرتے نہیں تھکتے جبکہ چھوٹی سے اپوزیشن حکومتی وزرا پر کرپشن کا الزام لگا رہی ہے۔ مسلم لیگ( ن) ، مسلم لیگ فنکشنل اور تحریک انصاف کے چند اراکین آواز اٹھا رہے ہیں۔ لیکن یہ طوطی کی آواز سے زیادہ نہیں ہے۔ یوں بھی حکمران جماعت پیپلز پارٹی دوسری جماعتوں کی تنقید کی پرواہ نہیں کرتی۔سندھ میں بجٹ میں رکھی گئی رقوم کہاں خرچ ہوتی ہیں ، برسوں سے یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ حکومت کے بجٹ اور اس کے استعمال کے طریقہ کار پر ہر ایک انگلی اٹھا رہا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے اس بار جو بجٹ پیش کیا ہے وہ موجودہ مالی سال کے بجٹ حجم سے 11 فیصد زیادہ ہے ۔حکومت نے بجٹ میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 1 کھرب 68 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ نئے مالی سال کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جبکہ اس دوران 40 ہزار ملازمتوں اور 65 ہزار افراد کو ہنرمندی کی تربیت کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔ لیکن اس بجٹ کا تاریک پہلو یہ ہے کہ سندھ میں گورنس نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ صوبائی حکومت کرپشن کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ رواں سال کا 70فیصد ترقیاتی بجٹ خرچ نہیں کیا گیااور اپوزیشن ارکان کو فنڈز نہیں دیئے گئے۔عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ نہیں سوچا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے سید اعجاز علی شاہ شیرازی نے تو اسمبلی فلور پرکہا ہے کہ محکمہ خزانہ میں پہلے 10 فیصد کمیشن لیا جاتا تھا اب 12 فیصد کمیشن لیا جاتا ہے۔ پنجاب میں سڑکیں اور ترقیاتی کام دیکھے جائیں تو سندھ کی حالت دیکھ کر شرم آتی ہے۔محکمہ تعلیم میں بھی رشوت کی ہوشربا داستانیں ہیں، جن کے سرے وزیر تعلیم تک جاتے ہیں۔ صوبے میں تعلیم پر120 ارب روپے سے زائد بجٹ رکھا گیا تھا لیکن اس کے باوجود سرکاری سکولوں کا معیار بدترین ہے۔ صوبے میں صحت کے شعبے پر50 ارب روپے رکھے گئے ہیں، لیکن لوگوں کو علاج معالجے کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ ہسپتالوں میں کتے اور سانپ کاٹنے کے ویکسئین تک دستیاب نہیں ، اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کہ متعدد مریض ویکسئین کی عدم دستیابی کے باعث لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ امن وامان پر50 سے60 ارب روپے سالانہ خرچ کئے جا رہے ہیں جبکہ شہروں میں رہنے والے دہشتگردوں اور ٹارگٹ کلرز کے ہاتھوں روزانہ بے دردی سے مارے جا رہے۔ بجٹ سے قبل ایک اجلاس میں سابق صدر آصف علی زردری نے تمام وزرا اور وزیر اعلی کو بلاول ہاوس میں بلا کر کہا تھا کہ اس سال بجٹ میں تعلیم، صحت، پینے کے صاف پانی، آبپاشی، زراعت، انفرااسٹرکچر سمیت شہری اور دیہی علاقوں کی ترقی کے لئے زیادہ سے زیادہ ترقیاتی منصوبے شامل کئے جائیں۔ انہوں نے ہدایت کی تھی کہ سندھ کے مالی سال کا بجٹ 2014-15 عوام کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہئے۔ آصف علی زرداری نے تمام وزرا کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں۔ پارٹی رہنماؤں، کارکنان اور عوام سے رابطے میں رہیں۔اور متنبہ کیا تھا کہ جن صوبائی وزرا کے خلاف آئندہ شکایتیں آئیں گی انہیں عہدوں سے ہٹادیا جائے گا۔ نئے مالی سال میں توانائی کے شعبے کیلئے 20 ارب،صحت کی مد میں 43 ارب 51 کروڑ،پیپلزہیلتھ کیئر کیلئے 2 ارب 37 کروڑ جبکہ ادویات کی خریداری کے بجٹ میں 35 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ لیکن کراچی میں ٹرانسپورٹ، لوکل ریل،پانی جیسے منصوبوں سے صرف نظر کیا گیا ہے۔سید قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ ٹیکس وصولیوں میں کمی کی وجہ سے ترقیاتی اخراجات کم کیے گئے ہیں جبکہ سندھ کو وفاق سے رواں سال 61 ارب روپے کم ملے ہیں۔ سندھ میں 70 فیصد گیس کی پیداوار ہوتی ہے،سندھ کو گیس انفرااسٹرکچرکی مد میں وفاق سے جو رائلٹی ملنی چاہئے تھی وہ نہیں ملی تاہم اس میں اضافے کیلئے وفاقی حکومت کو خط لکھ دیا گیا ہے جبکہ گیس پر ٹیکس عائد کرنے سے پہلے صوبوں سے بھی مشاورت کی جانی چاہئے۔سوال یہ ہے کہ سندھ کے پاس جو کچھ ہے وہ کہاں خرچ ہورہا ہے، اس کی بھی جانچ پڑتال ہونی چاہیئے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387687 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More