حضرتِ سیِّدُناابُوہُریرہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ،سرکارِ والا تبار، بِاِذنِ پروردگار ، دو
جہاں کے مالِک ومختار، شَہَنْشاہِ اَبرار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم فرماتے ہیں: ''جس نے رَمَضان کے ایک دن کا روزہ بِغیر رُخصت وبِغیر
مَرض اِفْطار کیا (یعنی نہ رکھا)تَو زمانہ بھر کا روزہ بھی اُس کی قضا نہیں
ہوسکتا اگرچِہ بعد میں رکھ بھی لے ۔''(صحیح بُخاری ج۱ص۶۳۸حدیث۱۹۳۴)
یعنی وہ فضیلت جو رَمَضانُ الْمبارَک میں روزہ رکھنے کی تھی اب کسی طرح
نہیں پاسکتا۔ لہٰذا ہمیں ہرگز ہرگز غَفلت کا شِکار ہوکر روزئہ رمضان جیسی
عظیم الشان نِعمت نہیں چھوڑنی چاہئے ۔جو لوگ روزہ رکھ کر بِغیرصحیح مجبوری
کے توڑ ڈالتے ہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے قَہرو غَضَب سے خوب ڈریں۔چُنانچِہ
اُلٹے لٹکے ہوئے لوگ
حضرتِ سَیِّدُنا اَبُواُمامَہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، میں
نے سرکارِ مدینہ، سلطانِ باقرینہ ، قرارِ قلب وسینہ ، فیض گنجینہ،صاحبِ
مُعطَّر پسینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے سُنا ،
'' میں سَویا ہواتھا تَو خواب میں دو شخص میرے پاس آئے اور مجھے ایک دُشوار
گُزار پہاڑ پر لے گئے ۔جب میں پہاڑ کے درمِیانی حصّے پر پہنچا تو وہاں بڑی
سَخت آوازیں آرہی تھیں، میں نے کہا،''یہ کیسی آوازیں ہیں؟'' تَو مجھے بتایا
گیا کہ یہ جہنَّمیوں کی آوازیں ہیں۔پھر مجھے اور آگے لے جایا گیا تَو میں
کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے گُزرا کہ اُن کو اُن کے ٹخنوں کی رَگوں میں باندھ
کر (اُلٹا) لٹکایا گیا تھا اور اُن لوگوں کے جَبڑے پھاڑدئیے گئے تھے جن سے
خون بِہ رہا تھا۔تَو میں نے پوچھا ،'' یہ کون لوگ ہیں؟''تَو مجھے بتایا گیا
کہ یہ لوگ روزہ اِفطار کرتے تھے قَبل اِس کے کہ روزہ اِفطار کرنا حَلال ہو۔''(الاحسان
بترتیب صحیح ابن حبّان ج۹ص۲۸۶حدیث۷۴۴۸)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!رَمَضان کا روزہ بِلا اجازتِ شرعی توڑ دینا
بَہُت بڑا گُناہ ہے۔وَقت سے پہلے اِفطار کرنے سے مُراد یہ ہے کہ روزہ تَو
رکھ لیا مگر سُورج غُروب ہونے سے پہلے پہلے جان بُوجھ کر کسی صحیح مجبوری
کے بِغیر توڑ ڈالا ۔ اس حدیثِ پاک میں جو عذاب بیان کیا گیا ہے وہ روزہ رکھ
کر توڑ دینے والے کیلئے ہے اور جو بِلا عُذرِ شرعی روزہ رَمَضان ترک کر
دیتا ہے وہ بھی سخت گنہگار اورعذابِ نار کا حقدار ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ
اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے طُفیل ہمیں اپنے
قَہرو غَضَب سے بچائے۔آمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صلَّی اللہ تعالیٰ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
تین بدبخت
حضرتِ سَیِّدُنا جابِر بن عبدا للہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مَروی ہے ،تاجدارِ
مدینہ منوّرہ، سلطانِ مکّہ مکرّمہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
فرمانِ باقرینہ ہے، ''جس نے ماہِ رَمَضان کو پایا اورا سکے روزے نہ رکھے وہ
شخص شَقی(یعنی بد بخت )ہے۔ جس نے اپنے والِدین یاکسی ایک کو پایا اور ان کے
ساتھ اچّھا سُلوک نہ کیا وہ بھی شَقی (یعنی بدبخت )ہے اور جس کے پاس میرا
ذِکر ہوا اور اُس نے مجھ پر دُرُود نہ پڑھا وہ بھی شقی (یعنی بد بخت) ہے''۔(مَجمعُ
الزَّوائد ج۳ص۳۴۰حدیث۴۷۷۳)
ناک مٹی میں مل جائے
حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہُریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مَروی ہے ،رسول اللہ
عَزَّوَجَل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: ''اُس شخص کی
ناک مِٹّی میں مل جائے کہ جس کے پاس میرا ذِکْر کیاگیا تو اُس نے میرے اوپر
دُرُود نہیں پڑھااوراُس شخص کی ناک مِٹّی میں مل جائے جس پر رَمَضان کا
مہینہ داخِل ہوا پھر اس کی مغفِرت ہونے سے قبل گُزر گیا۔اور اس آدمی کی ناک
مِٹّی میں مِل جائے کہ جس کے پاس اسکے والِدَین نے بُڑھاپے کو پالیا اور اس
کے والِدین نے اسکو جنّت میں داخِل نہیں کیا۔ (یعنی بوڑھے ماں باپ کی خدمت
کرکے جنّت حاصل نہ کر سکا)(مسنداحمد ج۳ص۶۱حدیث۷۴۵۵) |