عراق و شام کا بحران


تیل کی دولت سے مالامال عراق و شام کی سرزمین ہمیشہ سے بیرونی نگاہوں کا مرکز رہی ہے۔ اس سرزمین کے گرم آب و ہوا سے متاثر باشندوں نے بہت کم کسی مرکزی حکومت کے ماتحت طویل عرصہ تک سکون سے زندگی بسر کی ہوگی۔ یہ وہی سرزمین ہے جہاں خلیفہ اول ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں اسلام کی کرنیں پہنچی تھیں۔ عراق کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ خلیفہ راشد سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے اس کے شہر کوفہ کو دارالخلافہ کی حیثیت سے اپنا مسکن بنایا تھا۔ کتب تاریخ اس بات پر بھی شاہد ہیں کہ شام کے صدر مقام دمشق میں امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کی قائم کردہ خلافت پورے بانوے برس تک تین براعظموں کو کنٹرول کرتی رہی۔ خلافت اموی کے زوال کے بعد عباسی خلفاء نے عراق کے صدر مقام بغداد کو پانچ سو سے زائد برس مرکز اسلامیہ کے طور پر قائم رکھا۔

عراق جس کے شمال مغرب میں شام کی سرحد واقع ہے، ابتدا ہی سے اس خطہ میں بے چینی کی کیفیت قائم ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوگا کہ اس خطے میں پائی جانے والی شورش پر وہی شخص کنٹرول حاصل کرسکا ہے، جو وہاں کی طرز فکر اور عوام کے مزاج سے بخوبی واقف ہو۔ اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے 75 ہجری میں حجاج بن یوسف ثقفی کو عراق کی طرف گورنر بناکر بھیجا۔ وہ عراقیوں کی طرز معاشرت اور ان کے خیالات و افکار سے واقفیت رکھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے جامع کوفہ میں رعایا کو جمع کرکے ان الفاظ میں تقریر کی کہ ’’امیر المومنین عبدالملک نے اپنے ترکش کے تمام تیروں کو پرکھا جو ان میں سب سے زیادہ سخت اور کاری تھا، وہ تم پر چلایا یعنی مجھ کو تم پر حاکم بناکر بھیجا۔ تم ایک عرصہ سے شرارتوں اور فتنہ انگیزیوں کا مرکز بنے ہوئے ہو۔ اب وقت آگیا ہے کہ تم کو تعلیم دی جائے اور تمہاری آنکھیں کھول دی جائیں..... یہ یاد رکھو کہ جو کچھ میں کہتا ہوں ، وہی کرتا بھی ہوں۔‘‘ بعد کے ادوار میں عراق نے کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ یہاں تک کہ بعث پارٹی کے سربراہ صدام حسین 1979ء میں عراق کے مسند اقتدار پر براجمان ہوئے۔ اگرچہ صدام کے دور اقتدار میں آٹھ سالہ عراق ایران جنگ کی تباہ کاریوں اور کویت پر عراقی یلغار نے ان کی شخصیت کو نقصان بھی پہنچایا ہے۔ تاہم بحیثیت مجموعی عراق کی صورت حال موجودہ کشمکش سے حد درجہ بہتر تھی۔

ویسے تو مشرق وسطیٰ کی مختلف ریاستوں میں چلنے والی آزادی کی تحریکیں گزشتہ کئی برس سے عالمی میڈیا کی خصوصی توجہ حاصل کر رہی ہیں۔ تاہم حالیہ دنوں شام کے بعد عراق کی موجودہ صورت حال بالکل الگ شناخت حاصل کرچکی ہے۔ شام کی کیفیت اب کسی آنکھ سے اوجل نہیں رہی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق شام میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد تین برس سے جاری لڑائی کی نذر ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ شام میں جاری جنگ کے باعث ہر ماہ پانچ ہزار سے زائد افراد موت کی منہ میں جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کا یہ بھی ماننا ہے کہ جاں بحق ہونے والوں میں اکثریت بے گناہ عوام کی ہے، جو بشار الاسد کی سرکاری فوج کے ہاتھوں لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ دوسری طرف عراق کی صورت حال یہ ہے کہ گزشتہ دنوں موصل سے اٹھنے والی آزادی کی تازہ لہر تکریت، کرکوک، فلوجہ سمیت دیگر شہروں اور قصبوں تک وسعت اختیار کرچکی ہے۔ ’’دولت اسلامیہ عراق و الشام‘‘ کے پرچم تلے ابھرنے والے جنگوؤں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وہی نظریہ لیے آگے بڑھ رہے ہیں، جو اس سے قبل امریکا کی ناک میں دم کرنے والے عراق کے گوریلا کمانڈر ابو مصعب الزرقاوی نے اپنایا تھا۔

’’داعش‘‘ کے جنگجو بڑی تیزی سے کٹھ پتلی عراقی وزیراعظم نوری المالکی سے بیزار عراقیوں کے دلوں میں جگہ بنارہے ہیں۔ بغداد کی طرف جنگجوؤں کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی نہ صرف عراقی حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہورہی ہے، بلکہ ایران اور امریکا سمیت اقوام متحدہ کے لیے بھی یہ باعث تشویش ہے۔ عراق میں یک دم ابھرنے والی مسلح تحریک کے خلاف ایران کھلم کھلا میدان میں کود پڑا ہے۔ قرائن بتا رہے ہیں کہ عراقی حکومت میں اتنی قوت نہیں ہے کہ وہ اپنا دفاع کرسکے۔ ایرانی صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ وہ نوری المالکی حکومت کا بھرپور دفاع کریں گے۔ اس حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے اہلکار بغداد پہنچ چکے ہیں۔ بی بی سی کا مزید کہنا ہے کہ پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی بھی بغداد میں موجود ہیں، جو دولت اسلامیہ کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی کو روکنے کے لیے حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں۔ قاسم سلیمانی اس سے قبل شام میں بشار حکومت کی بھی مدد کرتے رہے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل حیرت ہے کہ سابق ایرانی صدر احمدی نژاد کے دور حکومت میں جس قدر امریکا و ایران ایک دوسرے سے دور تھے، اب اسی انداز سے تیزی کے ساتھ ایک دوسرے کے قریب آتے جا رہے ہیں۔

جیسا کہ بالائی سطروں میں لکھ چکا ہوں کہ عراق و شام میں برپا تحریکیں، ایک الگ شناخت اپنا چکی ہیں۔ سعودی عرب سنی مسلمانوں کا پشتیبان سمجھا جاتا ہے، جبکہ ایران اور لبنان کی حزب اﷲ اہل تشیع عوام کے سپورٹر ہیں۔ عراق و شام میں ابھرنے والی تحریکوں اور مشرق وسطیٰ میں برپا ہونے والی تحریکوں کا مطالعہ کیا جائے تو تقریباََ ان کے مقاصد مشترک نظر آئیں گے۔ جس طرح تیونس، لیبیا اور مصر وغیرہ میں عوام آمریت کے خلاف میدان میں نکلے تھے، ویسے ہی عراق و شام کی صورت حال بھی اس سے مختلف نہیں۔ لیکن اسے شامی و عراقی عوام کی بدقسمتی سمجھئے کہ بڑی چالاکی کے ساتھ اسے شیعہ سنی فسادات کا رنگ دے دیا گیا۔ اس امر سے انکار نہیں کہ اب مذکورہ ممالک میں پائی جانے والی کشمکش کی بنیاد شیعہ سنی لڑائی بن چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ تین برس سے شام میں لڑی جانے والی جنگ کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوسکا ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے تو اسے بشار حکومت کی سعی لاحاصل ہی سمجھیں۔ قوت کا استعمال تب ہی موثر سمجھا جائے گا، جب وہ کوئی اہم نتیجہ برآمد کرسکے۔ کیونکہ یہ بات مسلم ہے کہ عوامی غضب کا طوفان کسی بھی حکومت کے لیے روکنا ممکن نہیں ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ماضی میں بڑی بڑی طاقتیں بھی کمزور قوموں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوچکی ہیں۔

عراق و شام کا موجودہ بحران جو رخ اختیار کرچکا ہے، یہ باآسانی ختم ہونے والا نہیں ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ طاقت کے بل بوتے پر کوئی ریاست بھی اپنی عوام کو زیادہ عرصہ تک یرغمال بناکر نہیں رکھ سکتی۔ ذی شعور یہ بھی جانتے ہیں کہ مذہبی اختلافات پر جنگ و جدال کے ذریعے قابو پانا ناممکن ہے۔ بہتری اسی میں ہے کہ مذہبی تنازعات کو علمی حلقوں تک محدود رکھا جائے۔ اس کے لیے عالمی برادری، بالخصوص مسلم بلاک کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنی کمیونٹی کے دفاع کے لیے طاقت کا اندھا استعمال آئندہ نسلوں کو بھی اس بڑھکتی ہوئی آگ کی نذر کردے!!!
Farooq Azam
About the Author: Farooq Azam Read More Articles by Farooq Azam: 7 Articles with 5277 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.