پاکستان کے حالات

پاکستان کے حالات پر بار بارکیوں رویا جائے ؟جو اس وقت ہیں اس سے پہلے بھی ایسے ہی ملتے جلتے رہے ہیں ، معلوم نہیں کہ حقیقت میں کبھی اس ملک کے حالات سدھرے بھی تھے ؟موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ مستقبل میں بھی ایسے ہی وقت گزرے گا ۔یہ نسلیں کوچ کر جائیں گی لیکن حالات پھر بھی نہیں سدھریں گے ۔ان دنوں جڑواں شہروں کے صحافی پی ایف یو جے ، آر آئی یو جو اور نیشنل پریس کلب کی چھتری تلے ' آزادی اظہار رائے 'کیلئے احتجاجی کیمپ لگائے ہوئے ہیں ،صدر پی ایف یو جے افضل بٹ کی کال پر چاروں صوبوں اور آزادکشمیر میں صحافی احتجاج پر ہیں۔ ماہ رمضان میں پریس کلب اسلام آباد کے باہر افطاری کا اہتمام سڑک پر کیا گیا ہے ۔حکومت میڈیا کی آزادی کے دعوے تو کرتی ہے لیکن حقیقا ایسا نہیں ہے۔ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے ظفر اﷲ جمالی، شوکت عزیز ،گیلانی،پرویز اشرف وزیر اعظم بنے رخصت ہوئے ،نواز شریف دور کا ایک سال بھی کب کا مکمل ہوچکا ،اس نے بھی ایک دن اختتام پذیر ہونا ہے۔پھر کوئی اور سرمایہ دار آئے گا یا سرمایہ دار کی ڈورسے باندھا کوئی نیا مہرہ۔اس ملک میں وزیر اعظم کے پاس کیا اختیارات ہیں ؟ بجٹ کا خرچ ،ملکی غیر ملکی دورے ، بھرتیاں ،منصوبے ،سیاسی بیان بازی اور کاروبا۔ سچ پوچھیں تو پاکستان میں کچھ نہیں بدلا ،ہاں ایک چیز کبھی تبدیل نہیں ہوئی اور نہ تبدیل ہوگی وہ یہ کہ کل بھی یہاں سرمایہ دار خاندانوں کا راج تھا، آ ج بھی ہے اور کل بھی قائم رہے گا ۔سرمایہ داروں نے یہودیوں ، ہندووں اور عیسائیوں کے کہنے پر کل بھی کفریہ نظام اپنائے رکھا، آج بھی قائم ہے،لگتا ایسا ہے کہ کل بھی ایسا ہی قائم ر ہے گا۔ سوپاکستان میں تبدیلی کے نام پر یہ ڈرامے بازی کیسی ؟؟ان دنوں وزیر ستان میں جنگ جاری ہے ،لاکھوں افراد نقل مکانی کر چکے۔ نہیں معلوم کہ یہ جنگ پاکستان کی اپنی جنگ ہے ، امریکہ کی ہے ، یو این کی ہے یا کسی اور کی ؟کیونکہ یہاں جنگیں بھی ہمیشہ متنازعہ رہی ہیں ۔روزانہ خبریں آتی ہیں کہ اتنے دہشت گرد ہلاک کر دیئے گئے ۔اب معلوم نہیں کہ آپریشن والوں اور ان کو دہشت گرد کہنے والوں کے نزدیک دہشت گرد کی کیا تعریف ہے؟کون حق پر ہے اور کون نہیں ۔خود سے جواب دے کر فتوے لگ جائیں گے سودرست وقت آنے کا انتظار ہے۔ جاری آپریشن کے اختتام پر یہ کہا جائے گا کہ فوج بہادری سے لڑی،عوام کا مکمل تعاون حاصل رہا دشمن تہس تہس ہو ا اورآپریشن کامیاب رہا ۔ اس آپریشن سے پہلے بھی آپریشن کیے گئے لیکن دہشت گرد ختم نہیں ہوئے ،کیا اب ممکن ہے کہ تمام دہشت گرد ماردیئے جائیں گے ؟ اسکے بعد دہشت گردی کا کوئی واقعہ نہیں ہو گا؟ ایسا ہر گز نہیں ہو گا ۔متعصب ہنود ، یہود اور عیسائی خاموش نہیں بیٹھے ہیں نہ بیٹھیں گے وہ ہم میں سے ہی کچھ اور لوگوں کو خرید رہے ہیں اور خرید لیں گے ۔ان کی خریداری سے کون بچ سکا ہے یا اب بچ سکے گا ؟پھر سے کاروائیاں کرا دیں گے۔سلیم صافی درست لکھتے ہیں کہ وزیر ستان آپریشن میں سات لاکھ افراد جو بے گھر ہو رہے ہیں یہ سب ہمارے رویوں سے مستقبل کے خود کش بمبار بن رہے ہیں ۔ہم سے یہ لوگ نہیں سنبھالے جاتے تو دہشت گرد کیسے کنٹرول ہوں گے ؟پاکستان میں حالات خرابی کی طرف تھے اور مزید تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں ۔سب کے سامنے ہے کہ پاکستا ن میں بالا قوتوں جن میں ہر طبقہ کے چند لوگوں کا گٹھ جوڑ شامل ہیں ان کاروز روز کا عوام پر ظلم وستم ،بھاری ٹیکسز انصاف کی عدم فراہمی، قانون اور اخلاقیات سے ماورا تشدد ، ہلاکتیں اور انسانیت کی تذلیل بھی ہوتی ہے ،انہی کی وجہ سے مہنگائی اوربے روزگاری نے عوام کو پریشان کر رکھا ہے ۔شہروں میں جدھر دیکھو بھاگم بھاگ کا عالم ہے ۔جو خود کو سمجھدار گرد انتے ہیں وہ ملک چھوڑ کر جا چکے یا جا رہے ہیں ۔ملک کی اس گرتی ہوئی دیوار کو سہارا کون دے گا ؟؟ سیاستدان اثاثے بنانے، سرکاری ملازمین مراعات اور پنشن لینے ،، عدلیہ اسٹیٹس انجوائے کرنے ،میڈیامال بنانے ،اسٹیبلشمنٹ اپنی حکمرانی قائم رکھنے اور عوام ان سب کی عیاشی کیلئے ایندھن بننے آتے ہیں ۔ موجودہ جعلی کفریہ جمہوری نظام سے بہتری کی کوئی امید نہیں ،نہ ہی اس سے امید رکھی جانی چاہیے ۔کیوں ؟ اس لیے کے یہاں کل تک پرویز مشرف اور امریکہ دوست تھے ،پھر زرداری امریکہ دوست ہوئے اب نواز امریکہ دوست ہیں ۔کل عمران امریکہ دوست ہو جائیں گے ۔ ملک میں عوام کی خدمت نہیں اپنا اپنا کاروبار ہو رہا ہے جبکہ میں اور آپ سیاسی نعروں ، شخصیت پرستی اور فریب میں مبتلاء ہیں۔ملک بھر کے صحافی جو پی ایف یو جے کی کال پر احتجاج کیے ہوئے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ سیاستدان ، سرکار ،عدلیہ ،کنٹرول میڈیا ، اسٹیبلشمنٹ ،سرمایہ دار یہ سب آپس میں ایکا کیے ہوئے ہیں اور ایسے ہی کیے رکھیں گے۔رہے آپ اور ہم ،تو آیئے، ہم کسی ایسے نئے مہر ے کا انتظار کرتے ہیں جو ہم سے وعدے اور دعوے کرے اور پھر چھپ جائے ۔ہم نعرے لگاتے رہیں گے اور وہ اپنے ایئرکنڈیشنڈ روم میں آرام کی زندگی گزارتے رہیں گے۔
Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 66153 views Columnist/Writer.. View More