لانگ مارچ یا کوئیک مارچ
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
ماہِ صیام کارحمتوں بھرا عشرہ
شروع ہو گیا ۔ویسے تورحمتیں سمیٹنے کا موقع ہمارے قاسم مسجد والے مفتی شہاب
الدین پوپلزئی نے ایک دِن پہلے ہی اُس وقت فراہم کر دیا تھا جب انہوں نے
رات 12 بجے ’’چاندچڑھایا‘‘اور پھر اپنے ’’پوپلے‘‘ مُنہ سے چاند کی رویت کا
اعلان بھی کر دیالیکن ہم ٹھہرے سدا کے’’ بَد نصیب‘‘ جو اِس موقعے سے
استفادہ نہ کر سکے ۔دروغ بَر گردنِ راوی مفتی پوپلزئی کے پاس ایک بہت لمبا
سا بانس ہے جس پر ہر وقت ایک چاند لٹکارہتاہے اور جب مفتی صاحب کا موڈ بنتا
ہے وہ بانس پکڑ کر چاند چڑھا دیتے ہیں ۔مفتی پوپلزئی تو چاند چڑھانے میں
’’خود کفیل‘‘ ہیں لیکن ہمارے رویت ہلال کمیٹی والے مفتی منیب الرحمٰن ہمیشہ
’’پھَڈا‘‘ ڈال دیتے ہیں۔وہ مفتی پوپلزئی کے چاند کو چاند سمجھنے کے لیے
تیار ہی نہیں ہوتے ۔چونکہ دونوں ہی مفتی ہیں اور دونوں ہی درست
کیونکہ’’مفتی‘‘ کبھی غلط ہو ہی نہیں سکتا اِس لیے’’ چُپ کر ، دَڑ وَٹ جا‘‘۔۔۔
ماہِ صیام میں روزہ دار اور ذخیرہ اندوز دونوں ہی فائدے میں رہتے ہیں ،
روزہ دار رَب کی رحمتیں اور برکتیں سمیٹ کر جبکہ ذخیرہ اندوز کئی گُنا
منافع کما کر۔کچھ لوگ اگرکماتے بے تحاشہ ہیں تو رَب کی راہ میں خرچ کرنے
میں بُخل سے کام نہیں لیتے ۔انہی میں سے ایک بحریہ ٹاؤن کے چیئر مین ملک
ریاض بھی ہیں ۔اُنہوں نے پاکستان کے 471 امیر ترین لوگوں کو شرم دلاتے ہوئے
شمالی وزیرستان کے ایک چوتھائی آئی ڈی پیز کی مکمل کفالت کا اعلان کردیا
اور ساتھ ہی یہ بھی کہ دیا کہ وہ آپریشن’’ ضربِ عضب‘‘ کو کامیاب بنانے کے
لیے پاک فوج اور حکومت کی تمام ضروریات پوری کرنے کو تیار ہے خواہ اِس پر
اربوں روپے ہی خرچ کیوں نہ ہو جائیں ۔اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اُنہوں نے
اپنے 75 فیصد اثاثے صرف اور صرف پاکستان کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے
مختص کر دیئے ہیں۔حیران ہوں کہ ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جوہر وقت اپنا تَن
مَن دَھن ارضِ پاک پر نچھاور کرنے کو تیار رہتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ
ذخیرہ اندوز جنہیں ملک و قوم کی پرواہ ، نہ دین کی ۔ اُن کا اﷲ ، رسول ،
دین ، ایمان سب کچھ پیسہ ہے اور وہ ہمیشہ اِس تاک میں رہتے ہیں کہ کب اور
کیسے پیسہ کمایا جائے ۔ماہِ صیام میں اُن کی حریص آنکھوں کی چمک میں کئی
گُنا اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ اسی ماہ میں اُن کی تجوریاں لبا لَب ہو جاتی
ہیں ۔ اور ہم جیسے مُنہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔اِس ماہِ صیام پر پتہ نہیں ہم
سے کیسے ’’چُوک‘‘ ہو گئی جوسحر و افطار کے لیے اشیائے خور و نوش کا ذخیرہ
کرنے سے بے نیاز رہے ۔پھر جب سحری و افطاری کا سامان خریدنے نکلے تو پتہ
چلا کہ بازار میں تو ہر شٔے ڈالروں کے بھاؤ مِل رہی ہے ۔لاکھ سَر پٹکا لیکن
ہر شٔے پہنچ سے باہر۔تھک ہار کر سبزی کی دوکان پہ کھڑے ہو گئے اور سبزی
فروش سے سبزیوں کے بھاؤ معلوم کرنے لگے۔جب پانچ ، چھ سبزیوں کے بھاؤ پوچھ
چکے تو سبزی فروش نے تَپ کر کہا ’’آپ کے مطلب کی کوئی سبزی میرے پاس نہیں‘‘۔
اُس مُنہ پھَٹ اور زبان دراز کے کورے جواب نے ہمارے تَن بدن میں چنگاریاں
تو ضرور بھریں لیکن کر بھی کیا سکتے تھے سوائے خون کے گھونٹ پینے کے۔ البتہ
دِل میں یہ ضرور سوچا کہ ایسے نا معقولوں کا علاج کپتان صاحب کا’’ لانگ
مارچ‘‘ہی ہو سکتا ہے۔اِس لیے مصمم ارادہ باندھ لیا کہ اب تو ہم بھی اِس
لانگ مارچ میں ضرور شریک ہونگے ۔اگر کسی سیاسی مصلحت کے پیشِ نظر خاں صاحب
نے اپنا لانگ مارچ ملتوی کر دیا تو پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ
ہمارے ’’بابائے انقلاب‘‘ ڈاکٹر طاہر القادری تو میدان میں ہیں ہی ۔اُنہوں
نے تو ایک بھرپور APC کرکے یہ ثابت کر دیا کہ اب انقلاب ’’آوے ای
آوے‘‘۔اقبال ؒ نے کہا
میخانۂ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرور اوّل ، دیتے ہیں شراب آخر
ہمارے شیخ الاسلام بھی چونکہ’’ وہیں کہیں کے‘‘ ہیں اِس لیے اُنہوں نے بھی
یہی’’ نسخۂ کیمیا‘‘ استعمال کرتے ہوئے APC کامشترکہ اعلامیہ اُس کے
انعقادسے پہلے ہی تیار کرلیا ۔اُدھر APC کے مقررین اپنا جوشِ خطابت دکھا
رہے تھے ، اِدھر نیوز چینلز کے ’’شریر‘‘ بار بار مشترکہ اعلامیہ کی کاپی
دکھا ناظرین کو محظوظ کر رہے تھے۔مُرشد کی اِن ’’پھُرتیوں‘‘ کو دیکھ کر تو
ہمیں بھی یقین ہو چلا ہے کہ دنوں مہینوں میں نہیں بلکہ گھنٹوں میں بھی
انقلاب آ سکتا ہے ۔ویسے بھی پورے ملک کی ’’کریم‘‘ تو مُرشد کی قیادت میں
اکٹھی ہو گئی ہے اور جہاں چوہدری برادران ، شیخ رشید ، احمد رضا قصوری ،
اور غلام مُصطفےٰ کھَر جیسے عقیل و فہیم اور مقبول ترین لیڈر اکٹھے ہو
جائیں اور جس انقلابی تحریک کو الطاف بھائی کی ’’بڑھکوں کا تَڑکا‘‘ نصیب ہو
جائے اُس کی کامیابی تو اظہر من الشمس ہے ۔کپتان صاحب البتہ کچھ اُکھڑے
اُکھڑے سے ہیں لیکن شیخ رشید کا دعویٰ ہے کہ وہ خاں صاحب کو بھی ’’بابائے
انقلاب‘‘ کی قیادت پر راضی کر لیں گے ۔جہاں اتنے سارے امر ، اکبر ، انتھونی
اکٹھے ہو جائیں وہاں انقلاب تو ’’آوے ای آوے‘‘۔بس ذرا ماہِ صیام کو گزر
لینے دیجیئے پھر آپ ’’سٹار پلس‘‘ کے ڈرامے بھول جائیں گے کیونکہ جہاں مُرشد
کا دِل پذیر خطاب ، الطاف بھائی کی بڑھکیں ، شیخ رشیدکے’’پھوکے فائر‘‘ ہوں،
چوہدری پرویز الٰہی کی ’’اﷲ کے فضل و کرم سے ‘‘ کی گونج ہو اور جنابِ پرویز
مشرف کے ’’گُلو بَٹ‘‘ احمد رضا قصوری آئینی و قانونی مُو شگافیوں کے لیے
موجود ہوں وہاں بھلا ’’سٹار پلس ‘‘کی کیا حیثیت۔ویسے اگر شیخ رشید کے دعوے
کے مطابق خاں صاحب کی سونامی ساتھ نبھانے کو تیار ہو گئی تو اِس کے دو
فائدے ہونگے ۔ایک تو یہ کہ سبھی ’’یارانِ مشرف‘‘ایک بارپھراکٹھے ہو جائیں
گے اور دوسرے ایسے حکمرانوں سے بھی جان چھوٹ جائے گی جو ’’ایویں خواہ مخواہ‘‘
ملکی ترقی کا بہانہ بنا کر پاکستان کو یورپ بنانے پر تُلے بیٹھے ہیں ۔ بندہ
پوچھے اچھے بھلے ’’اسلامی پاکستان‘‘ کو یورپ بنانا بھلا کہاں کی عقلمندی ہے؟۔
بھلے ہمارا لانگ مارچ ، کوئیک مارچ ہی میں کیوں نہ بدل جائے ،ہم حکمرانوں
کی اِس سازش کو ہر گز کامیاب نہیں ہونے دیں گے کیونکہ اگر حکمران کامیاب ہو
گئے تو پھرتو ’’ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں‘‘۔اگر ہم نہیں
تو پھر قوم کے لیے’’ کوئیک مارچ‘‘ ہی بہتر ہے ۔ ویسے بھی لانگ مارچ اور
کوئیک مارچ میں فرق ہی کتنا ہے، لانگ مارچ سیاستدان خود کرتے ہیں جبکہ
کوئیک مارچ فوجی بھائی سیاستدانوں کو کروادیتے ہیں جس کا قوم کی صحت پر تو
’’کَکھ‘‘ اثر نہیں پڑتا البتہ سیاستدانوں کو ’’تریلیاں‘‘ ضرور آنے لگتی ہیں
۔
|
|