خوش نصیب ھوتی ہیں وہ قومیں
جنہیں اچھے ایماندار اور مخلص لیڈر ملتے ہیں ایسے لیڈر کے اہداف اور وژن
میں قومی ترقی کی راز اور بربادی سے نجات موجود ہوتی ہیے۔ ایسے لیڈر قوموں
کو تباہی ، غلامی اور بدبختی سے نجات کے لیے پیدا ہوتے ہیں اور ہمیشہ انکے
خلاف جھدوجھد کرتے ہیے۔ انکو لیڈر اس لیے کیا جاتا ہیے کہ ویسے توظلم اور
تباہی سے سب ہی لوگ نفرت کرتے ہیں لیکن انکے خلاف جھدوجھد کرنے کی طاقت اور
بہادری سب کے پاس نہیں ھوتی اور جو انکے خلاف اعلان جنگ کرتا ہے اور اسی
راہ میں کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتا اس لیے قومیں اسی کے نظریے اور عقیدے
سے محبت شروع کرتے ہیے اور وہ لیڈر بن جاتا ہیے۔
پشتون قوم کا شمار بھی ان خوش نصیب قوموں میں ہوتا ہے جنہیں محمود خان جیسا
ایماندار اور مخلص لیڈر ملا ہیے۔ جنہوں نے افغانستان اور پاکستان میں موجود
پشتون قوم کو تباہی سے نجات کے لیے جھدوجھد شروع کیا تھا اور موجودہ مشکلات
کی پیشن گوئی آج سے 40 سال قبل کی تھی اور کہا تھا اگر تم ہمسایو کے گھر
میں میں اگ لگاوگے تو یہ آگ آپکے گھر تک بھی پہنچ سکتا ہیے کیونکہ آگ کے
لیے اپنے اور پرائے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ کافی عرصہ بعد جب آگ کی شعلے پرایو
کے بعد اپنو تک پہنچے اور وہ اسکے لپیٹ میں آئے تو اسے محمود خان کے کئی
دہائی قبل کی ہوئی باتیں یاد آئی۔ اس نے کہا کہ پاکستان میں امن لانے کے
لیے افغانستان میں امن ضروری ہے۔ 40 سال بعد پہلی مرتبہ انکے کوششوں سے
پاکستان کی افغان پالیسی تبدیل ہورہی ہے اور پاکستان اب افغانستان میں غیر
جانبدار اور کسی گرو پ کی حمایت نہیں کرینگے۔ اچھے اور برے طالبان کا تصور
بہت ماہرانہ انداز سے ختم کرنے کی کوشش کی اور اج گورنمنٹ بلاتمیز آپریشن
کر رہا ہے۔
محمود خان کا وزیر اعظم کا نمایندہ برائے افغانستان بننا پوری قوم کے لیے
خوشخبری ہیے اور ان سے قومی مایوسیا ں دوبارہ امیدوں میں تبدیل ہوگئیں
پچھلے کئی دہائیوں سے افغانستان میں مداخلت کی وجہ سے جتنی مشکلات پیدا
ہوئے وہ سارے پشتونوں نے برداشت کیے اور اسی پالیسی کے رد عمل کے طور پر
جتنی مشکلات پاکستان میں پیدا ہوئے وہ بھی سارے پشتون علاقوں اور پشتونوں
تک محدود رہا افغانستان میں لاکھوں لوگ اسی خطرناک گیم کی وجہ سے شہید
ہوچکے ہیں اور 50 لاکھ کے قریب لوگ معزور ھوچکے ہیں ایسے گھر نہیں رہ گیا
جسمیں بچے یتیم عورتیں بیوہ اور والدین سے اولاد جدا نہیں ہوئی ہوں ، اسی
کے ساتھ تمام انفراسٹرکچر تباہ ہواکئی شہر کابل کے ساتھ تباہ ھوگئے۔ اسی
سلسلےکے بعد جب یہ اگ پاکستان پہنچا تو اسکی تباہی بھی صرف پشتون علاقو تک
محدود رہی پیشور، سوات اور وزیرستان میں ہزارو لوگ شہید ہوئے عوام کے ساتھ
ساتھ یہا ں مسجدو، امام بارگاوں، چرچو اور تعلیمی ادارو سے بھی دشمنی شروع
ہوئی جس سے معاشرے کے وہ مقدس مقامات جہاں سے انصاف ملتا تھا وہ انسانی
ہلاکتو کے اڈے بن گئے۔
ان خطرناک کھیل اور وطن کے بربادی میں سلیم صافی کا تعلق ہمیشہ ان گروپو کے
ساتھ رہا ہیں جنہوں نے پشتون وطن کی بربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑا اور اج
اس جماعت اور اسکے لیڈرشپ کے خلاف پروپگنڈہ کر رہا ہیے جنہو نے بربادی کے
اس عالم میں بھی وطن کا دفاع کیا اور جنوبی پشتونخوا میں ان قوتو کے تمام
تر منصوبے ناکام بنائے۔ ان قوتو نے افغانستان اور پاکستان میں پشتونو کے
تمام تر علاقو میں بربادی پھلائی لیکن جنوبی پشتونخوا میں خان شہید کے
قافلے کے سپائیو نے مکمل طور پر اسے شکست کا سامنا کیا اور وطن کا یہ حصہ
ہر قسم کی تباہی سے محفوظ کیا ۔ ہر محاز پر ان قوتو سے شعوری اور علمی
مقابلہ کیا اور تباہی کے خلاف پہاڑ بن کر رہ گئے۔
پیچھلے چار مہینو سے سالیم صافی نے قومی تحریک اور اسکے رہنماوں کیخلاف
دشمنی کا ایک نیا طریقہ اپنایا۔ قومی رہنماوں کے درمیان غلط بیانی کرتے
ہوئے انکے اپس میں اختلافات پیدا کرنا، نظریاتی کارکنو کو دھڑو میں تقسیم
کرنا اور نظریاتی رشتو کو نظریاتی دشمنیو میں تبدیل کرنے پراسے خطر خوا
کامیابی تو نہیں ملی۔ تحریک اور لیڈرشف پر عوام کا اعتماد بحال رہا اب
عوامی اعتماد کو ختم کرنے کے لیے قومی رہنما کیخلاف پروپگنڈہ شروع کیا اور
مختلف قسم کے بے بنیاد الزامات لگائے ہیں جن کا حقیقت سے دور کا تعلق بھی
نہیں ہیں۔ |